Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم

Updated: April 15, 2024, 12:14 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

لذت و کیفیت کی تفہیم دنیا کا سب سے مشکل کام ہے ، اس مضمون میں تصوف کے رنگ میں ڈوبی مشہور غزل کا تجزیہ کیا گیا ہے ۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

میں نعرۂ مستانہ میں شوخی ٔ رندانہ 
میں تشنہ کہاں جاؤں پی کر بھی کہاں جانا 
میں طائر لاہوتی میں جوہر ملکوتی 
ناسوتی نے کب مجھ کو اس حال میں پہچانا 
میں سوز محبت ہوں میں ایک قیامت ہوں 
میں اشک ندامت ہوں میں گوہر یک دانہ 
کس یاد کا صحرا ہوں کس چشم کا دریا ہوں 
خود طور کا جلوہ ہوں ہے شکل کلیمانہ 
میں شمع فروزاں ہوں میں آتش لرزاں ہوں 
میں سوزش ہجراں ہوں میں منزل پروانہ 
میں حسن مجسم ہوں میں گیسوئے برہم ہوں 
میں پھول ہوں شبنم ہوں میں جلوۂ جانانہ 
میں واصفؔ بسمل ہوں میں رونق محفل ہوں 
اک ٹوٹا ہوا دل ہوں میں شہر میں ویرانہ
شاعر : واصف علی واصف 
لذت و کیفیت کی تفہیم دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ مشہور ہے کہ کچھ ایسے لوگوں نے جو آم کے مزہ یا لذت سے نا آشنا تھے ایک ایسے شخص سے اس کی لذت یا مزہ کے بارے میں پوچھا جو آم کھاچکا تھا تو اس نے جواب دیا ’’میٹھا ‘‘۔ سوال پوچھنے والوں نے مزید وضاحت چاہی کہ میٹھا یعنی مصری کی طرح ؟ جواب دینے والے نے کہا ’’نہیں ، ایسا میٹھا جو ترشی لئے ہوئے ہو۔ ‘‘ سوال پوچھنے والوں نے مزید استفسار کیا کہ فلاں چیز کی مٹھا س کی طرح ؟ اور یوں یہ سلسلہ دراز تر ہوتا رہا۔ بالآخر جواب دینے والے نے کہا کہ گاڑھا شیرہ بنائو۔ گاڑھا شیرہ اس کے سامنے لایا گیا تو اس نے اپنی ڈاڑھی اس میں ڈبودی اور سوال کرنے والوں سے کہا ’’میری ڈاڑھی چوسو، آم کا مزہ ایسا ہو تا ہے۔ ‘‘مقصد یہ باور کرانا تھا کہ آم کی مٹھاس ریشوں میں ہوتی ہے۔ 
پھر بھی بات نہیں بنی کہ شیرہ میں ڈبوئی ڈاڑھی کے بال میں ریشوں والی بات تو تھی لیکن مٹھاس میں ترشی نہیں تھی۔ اسی طرح کیفیت بھی لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ مندرجہ بالا اشعار ایک خاص کیفیت میں یا خاص کیفیت میں موزوں اشعار کی نقل میں کہے گئے ہیں۔ نقل اس لئے کہ فارسی اور پھر اردو میں ایسے اشعار کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں یہ سوال کیا گیا ہے کہ ’’میں کیا ہوں ؟ ‘‘ یا ’’میں یہ محسوس کرتا ہوں ‘‘، مثلاً اقبال کا شعر ہے:
(۱)خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے 
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے 
(۲)کبھی حیرت کبھی مستی کبھی آہ سحرگاہی 
بدلتا ہے ہزاروں رنگ میرا درد مہجوری
مندرجہ بالا اشعار یا مسلسل غزل میں کبھی ’سوز محبت‘ اور ’اشک ندامت‘ کہہ کر اور کبھی’ جلوۂ جانانہ‘ اور ’شکل کلیمانہ ‘ یا ’صحرا ‘ اور دریا کہہ کر، جن میں تضاد کی نسبت ہے، شاعر نے اپنی ہستی کے بارے میں ذہن میں پیدا ہونے والے تجسس اور حیرت کا اظہار کیا ہے۔ یہ حیرت بڑھتی جاتی مگر شعوری یا لاشعوری طور پر شاعر نے انہیں اشعار میں یہ کہہ کر کہ :
میں طائر لاہوتی میں جوہر ملکوتی 
ناسوتی نے کب مجھ کو اس حال میں پہچانا 
اس بے خودی کو آئینہ کردیا ہے جو خود شناسی سے لاتعلق نہیں ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں ’لاہوت‘ عالم محویت یا گنج مخفی کو، ملکوت’عالم غیب ‘ کو اور ناسوت روح کو کہتے ہیں۔ قادریہ سلسلہ میں ناسوت سے مراد عالم جسمانی اور ملکوت سے مراد عالم ارواح ہے۔ یہاں شاعر یہ احساس دلادیتا ہے کہ میں جوہر ملکوتی سے آراستہ وہ وجود ہوں جس کی حقیقت و قوت کو سمجھنے پر وہ لوگ قادر نہیں ہو سکتے جو صرف مادیت اور عالم جسمانی تک دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ان اشعار میں ایک اور اشارہ ہے۔ 
اک ٹوٹا ہوا دل ہوں میں شہر میں ویرانہ
ٹوٹا ہوا دل اپنی تکمیل چاہتا ہے اور شہر میں ویرانہ شادابی کی خواہش سے عبارت ہے۔ مقصد یہ باور کرانا ہے کہ میری تڑپ میری تکمیل کی ضامن ہے۔ صوفیاء نے ایسے اشعار کثرت سے کہے ہیں جو وصال کی آرزو سے عبارت ہیں۔ وصال اور وصال کی آرزو میں فرق ہے۔ وصال کے بعد تڑپ نہیں ہو سکتی۔ تڑپ کے لئے وصال کی آرزو اور اس آرزو میں شدت ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ شروع میں ہی عرض کیا گیا صوفیاء اور اقبالؔ نے بہت کچھ کہہ کر بھی بہت کچھ سمجھنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے جو بیان کردیا ہے وہ سب سمجھا بھی نہیں جاسکتا۔ 
مندرجہ بالا اشعار بھی ’جزو ‘ میں کل کی آرزو یا کل میں جذب ہوجانے کی تڑپ سے عبارت ہیں لیکن یہ ملاپ آتما اور پرماتما کا ملاپ نہیں ہےجس کے بعد جز اور’ کل‘ ایک ہوکر تڑپنے کی کوئی وجہ نہیں چھوڑتے۔ یہ ملاپ اس قسم کا ملاپ ہے جس کے متعلق صوفیاء نے کہا ہے کہ روح، عالم قدس کی طرف کھلنے والا ایک دریچہ ہے۔ اس سےملاپ یا وصال کی آرزو شدید تر ہو تی ہے۔ اقبال کی روح تو اسی آرزو کا آئینہ ہے جو تڑپ رہی ہے اور فراق کو وصال سے بہتر سمجھتی ہے۔ 
عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق 
وصل میں مرگ آرزو! ہجر میں لذت طلب! 
گرمئ آرزو فراق! شورش ہائے و ہو فراق! 
موج کی جستجو فراق! قطرہ کی آبرو فراق! 
وہ تڑپ ہی ہے جو انسان کو حد پرواز سے اونچا اڑنے یا آگے جانے کی تلقین کرتی ہے۔ آرزوئے وصال نہ ہو تو طائر لاہوتی کا دم گھٹ کر رہ جائے۔ 
وفیاء نے ایسے اشعار کثرت سے کہے ہیں جو وصال کی آرزو سے عبارت ہیں۔ وصال اور وصال کی آرزو میں فرق ہے۔ وصال کے بعد تڑپ نہیں ہو سکتی۔ تڑپ کے لئے وصال کی آرزو اور اس آرزو میں شدت ہونا ضروری ہے۔ صوفیاء اور اقبالؔ نے بہت کچھ کہہ کر بھی بہت کچھ سمجھنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ 
تصوف کی اصطلاح میں ’لاہوت‘ عالم محویت یا گنج مخفی کو، ملکوت’عالم غیب ‘ کو اور ناسوت ’ روح‘ کو کہتے ہیں۔ قادریہ سلسلہ میں ناسوت سے مراد عالم جسمانی اور ملکوت سے مراد عالم ارواح ہے۔ 
وہ تڑپ ہی ہے جو انسان کو حد پرواز سے اونچا اڑنے یا آگے جانے کی تلقین کرتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK