Inquilab Logo

اٹھائیس کا چاند

Updated: April 22, 2024, 12:02 PM IST | Tahir Anjum Siddiqui | Maligaon

پُنّے میاں ! تم تو ایسے گھگیا رہے تھے کہ بس اللہ کے نام پہ کھلا دو باوا بولنا ہی باقی رہ گیا تھا اور ابھی پوچھ رہے ہو کہ ایسا کب بولا تھا؟ جاؤ! یار میں تم سے بات نہیں کرتا۔ پُنّے میاں پھول گئے۔ اور ہاں بھائی لوگ! ان کا ماہرِ فلکیات والا قصہ بھی سناتا ہوں ؟’’کیوں نہیں ضرور سنائو۔ ‘‘ یکے بعد دیگرے سبھی تائیداً بول پڑے اور پُنّے میاں کی بولتی بند ہوگئی۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

پُنّے میاں اپنی زبان کی چرخی میں الجھ کر رہ گئے۔ وہ یاروں میں یہ بھول گئے تھے کہ دوست اچھائی سے زیادہ برائیاں جانتے ہیں۔ اس روز بھی ان کی زبان کی قینچی چل رہی تھی۔ اپُن نے بھی جوانی میں خوب روزہ رکھا ہے۔ ایک روزہ نہیں چھوٹتا تھا بلکہ کئی مرتبہ تو بغیر سحری کے بھی روزہ رکھا ہے اور وہ بھی ایسا کہ ...‘‘شفیق نے پُنّے میاں کی بات درمیان سے ہی اُچک لی۔ کیا بولے؟ روزہ اور تم؟ پنّے میاں ذرا آدمی دیکھ کر چھوڑا کرو....سارا رمضان تو ہم دونوں پردہ دار ہوٹلوں میں کھاتے تھے اور بات کررہے ہو.....تمہارے لئے ایک وقت کا کھانا چھوڑنا تو مشکل ہے اور بڑے آئے بغیر سحری کا روزہ رکھنے والے۔ اِدھر دیکھو! یار خان کو! جب روزہ نہیں رکھ پاتا نا تو تمہاری طرح لمبی لمبی چھوڑتا بھی نہیں ہوں۔ بتاؤں کیا تمہارے روزے کی داستانِ طلسم پیٹ رُبا؟‘‘پُنّے میاں تھوڑا سا جھینپ گئے اور منانے والے انداز میں بولے۔ ’’ارے نہیں یار شفیق! تم تو برا مان گئے۔ جانے دو‘‘
’’نہیں، میں تو بتاؤں گا!‘‘شفیق نے کمر کس لی۔ پّنّے میاں کی سٹی پٹی گم ہو گئی۔ شفیق نے اکرم، عمران، ریاض اور سلطان کو مخاطب کیا۔ وہ چاروں سننے کے لئے خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے لیکن پُنّے میاں ہتھے سے اکھڑ گئے اور تن کر کھڑے ہو گئے۔ ’’تم کھڑے رہو یا چلے جاؤ میں تو بتاؤں گا.... سنو بھائی لوگ! داستانِ غیرسحراں ! جب یہ روزے سے تھے نا تو صرف گھر والوں کے لئے تھے ! صبح گیارہ ہی بجے ان کے بارہ بج چکے تھے۔ آدھمکے دربارِ جہانگیری میں ...لگے زنجیر ہلانے۔ ‘‘مگر یار شفیق زنجیر تو انصاف مانگنے کے لئے ہلائی جاتی ہے نا؟ ہاں ! پُنّے میاں ! انصاف ہی تو مانگنے آئے تھے۔ پیٹ کے چوہوں کے لئے۔ ان سے خیریت دریافت کی تو مُسمُسی صورت بنا کر کہنے لگے۔ ’’یار شفیق! پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔ تمہاری بھابھی نے سحری کے لئے زبردستی اٹھا دیا تھا۔ آج بڑا روزہ ہے نا!مگر یار شفیق! ابھی تو سارا دن پڑا ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اپُن نے دو دن سے کچھ کھایا پیا نہیں ہے۔ یہ دھوپ تو چٹکا ایسا ماررہی ہے جیسے بھری دوپہر کی ہو، گلا سوکھ کا کانٹا ہو رہا ہے، رحم کرو یار، کچھ کھلا پلا دو مجھے۔ ’’ایسا؟ ایسا کب بولا تھا؟‘‘ پُنّے میاں نے شفیق کی بات کاٹ دی تو شفیق تنک ہی گیا۔ 
پُنّے میاں ! تم تو ایسے گھگیا رہے تھے کہ بس اللہ کے نام پہ کھلا دو باوا بولنا ہی باقی رہ گیا تھا اور ابھی پوچھ رہے ہو کہ ایسا کب بولا تھا؟ جاؤ! یار میں تم سے بات نہیں کرتا۔ پُنّے میاں پھول گئے۔ اور ہاں بھائی لوگ! ان کا ماہرِ فلکیات والا قصہ بھی سناتا ہوں ؟’’کیوں نہیں ضرور سنائو۔ ‘‘ یکے بعد دیگرے سبھی تائیداً بول پڑے اور پُنّے میاں کی بولتی بند ہوگئی۔ ان کا منہ کچھ کہنے کے لئےکھلا کا کھلا ہی رہ گیا۔ وہ جانتے تھے کہ اب تو یہ گڑا مردہ اُکھڑ کر ہی دم لے گا۔ شفیق نے اپنی ٹوپی درست کی اور پُنّے میاں کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔ یقین جانو کہ پُنّے میاں نے سارا رمضان کچھ کھایا ہو یا نہ کھایا ہو مگر میرا کان ضرور کھاتے رہے ہیں، کیوں میاں بتاؤں یا نہیں ؟‘‘ ’’تم اور نہیں بتاؤ گے؟ ہو ہی نہیں سکتا۔ عورتوں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب تک سترہ گھر جاکر گا نہ لو تم کو چین کہاں رہے گا؟‘‘پُنّے میاں نے عورتوں کی طرح ہاتھ نچایا۔ شفیق نہ رُکا۔ اس نے کہا ہاں تو دوستو! میں کہہ رہا تھا کہ یہ پُنّے میاں سارا رمضان میرا کان کھاتے رہے۔ پوچھو کیسے؟’’کیسے بھئی کیسے؟‘‘سارے دوست کورس بن گئے۔ کیوں پُنّے میاں ! کیسے کان کھاتے رہے ان کا؟ ریاض نے پُنّے سے ہی پوچھ لیا اور گیند پُنّے میاں کے پالے میں ڈال دی۔ ’’مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟ یہ بی بی سی لندن شفیق ہے نا۔ ان سے ہی پوچھو۔ ان کا ہی پیٹ پھولا ہوا ہے. جب تک بَکیں گے نہیں چین نہیں ملے گا۔ ‘‘ ہاں بھیّا! ہم تو بکیں گے اور تم اپنی وہ بک بک بھول گئے جو سارا رمضان کرتے رہے۔ سنو دوستو! یہ اپنے جو پُنّے میاں ہیں نا۔ رمضان کا چاند نظر آتے ہی بھاگے بھاگے میرے پاس آئے حالانکہ یہ اس روز اوندھے منہ گر گئے تھے اور خود ان کے ماتھے پر بڑا سا گومڑ چاند بن کر چمکنے لگا تھا لیکن خدا جانے انہوں نے چاند کو کب اور کہاں دیکھ لیا۔ تب سے برابر مجھ سے رابطے میں ہیں۔ اس روز کا چاند ٹھیک طرح سے غروب بھی نہیں ہوا ہو گا کہ یہ میرے گھر طلوع ہوگئے، لگے دور ہی سے آوازیں لگانے۔ شفیق میاں ! او شفیق میاں !

یہ بھی پڑھئے: اُس رات وہ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آرہے تھے

میں سرعت سے باہر نکلا تو یہ میاں سرگوشی کرنے لگے۔ معلوم ہے شفیق میاں کہ آج رمضان کا جو چاند دکھائی دیا ہے نا وہ انتیس کا چاند تھا۔ مگر یار پُنّے! ہم نے تو ابھی ابھی تیس کا چاند دیکھا ہے نا؟میں نے وضاحت کی تو یہ فوراً رازدارانہ انداز سے کہنے لگے۔ ’’کسی سے بتانا مت کہ ہم نے جو ابھی دیکھا ہے یہ کل کا چاند ہے۔ ‘‘میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ بس سر کھجا کر پوچھ بیٹھا۔ کل کا چاند؟ ’’ہاں ! بھئی! یہ کل ہی کا چاند ہے۔ ہمارا ایک روزہ چھوٹ چکا ہے۔ ‘‘ اس بات پر تو میں اپنے پُنّے میاں کا گومڑ والا چاند دیکھتا رہ گیا جو اُن کے ماتھے پر پوری تابناکی کے ساتھ موجود تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ ہمارے طرم خاں مزید کہنے لگے۔ ایسے حالات میں جب شک ہو کہ چاند ہو چکا ہے مگر یقین نہ ہو تو اس سے اگلے دن کو’ یوم الشک‘ یعنی شک کا دن کہتے ہیں۔ اس روز روزہ رکھنا منع کیا گیا ہے۔ اب بھیّا میں تو پریشان ہوگیا۔ یہ یوم الشک کیا ہے؟ مجھے پُنُے میاں پر ہی شک ہونے لگا۔ اس سے پہلے میں نے یوم الشک کبھی نہیں سنا تھا۔ مسجد کے امام صاحب سے پوچھا اور پُنّے میاں کا اعتراف کیا تو پھر ہمارے پُنّے میاں روز روز آدھمکنا شروع ہو گئے۔ روز یہی بات، روز یہی موضوع اور پھر اس میں یہ بات کہ آج سعودی میں اتنا روزہ ہوا، آج اتنا ہوا اور تو اور یہ ہمارے پڑوسی ملک کے بارے میں بتا بتا کر سارا رمضان ڈراتے رہے ہیں۔ ڈراتے رہے؟اس میں ڈرنے کی کیا بات؟
کہیں تم یہ تو نہیں سمجھ بیٹھے تھے کہ رمضان شروع ہوتے ہی شیطان کے ساتھ تم کو بھی بند کردیا جائے گا؟ نہیں یار! یہ آ آ کر بتاتے رہے ہیں کہ ہمارے پڑوسی ملک میں روزہ ہم سے ایک دن آگے چل رہا ہے۔ سعودی کے برابر چل رہا ہے ۔ یہ جس دن بڑے روزہ سے تھے نا۔ اس دن تو غضب ڈھایا تھا۔ میں گیارہ بجے سے ان کے ساتھ کھانے کے چکر میں ادھر ادھر مارا مارا پھرتا رہا اور یہ مسلسل مجھ کو پکاتے رہے۔ بار بار چاند کا تذکرہ۔ بار بار سعودی کا ذکر، بار بار پاکستان کا ذکر، اور پھر یہ کہ اب کی بار سعودی والے ہمارے ساتھ عید منائیں گے۔ ہمارے یہاں جس دن عید ہوگی سعودی عرب میں بھی اسی دن عید ہوگی۔ مجھ کو لگا کہ چاند کے چکّر میں پُنّے میاں چکور ہوگئے ہیں۔ 
وہ تو سب چھوڑو! غضب تو یہ ہوا کہ اٹھائیسویں روزے کو آدھمکے پنّے میاں۔ بڑے رازدارانہ انداز سے کہنے لگے۔ ’’میاں شفیق! کسی کو بتانا مت! آج اٹھائیسویں تاریخ ہے۔ ‘‘اب بھلا اٹھائیس تاریخ میں چھپانے والی ایسی کون سی بات تھی؟ ’’شفیق میاں ! تم بہت جلدی سنجیدہ ہوجاتے ہو یار! میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم کو آج اٹھائیس تاریخ ہونے کے باوجود بھی چاند دیکھنا ہے۔ ‘‘ میاں پنّے! کچھ خوف کرو اللہ کا۔ اب بھلا اٹھائیس کا چاند کہاں سے لاؤ گے۔ پہلے ہی کیسی کیسی بدعات رائج ہیں۔ اب تم اٹھائیس والی بھی ایجاد کرو گے؟نہیں یار! تم سمجھو تو سہی! میں کہہ رہا ہوں کہ رمضان کا ہمارا پہلا روزہ چھوٹ چکا ہے۔ تو اس حساب سے آج انتیسواں روزہ ہے نا؟ اٹھائیس کا چاند کیسے ہوگا بھلا؟ انتیس کا چاند دیکھیں گے نا ہم لوگ! پُنّے میاں فیثاغورث بن گئے۔ شفیق پُنّے میاں کا حساب کچھ کچھ سمجھ گیا مگر ان سے الجھ گیا۔ 
پُنّے میاں ! اگر لوگوں نے ہم کو اٹھائیس کا چاند دیکھتے ہوئے پکڑ لیا تو ہمارا ایسا مذاق بنے گا نا کہ ہم چاند تو دور کی بات ہے سورج دیکھنا بھی بھول جائیں گے۔ ارے یار شفیق تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے ہم چاند کے بہانے چاندنی کو تاڑیں گے۔ پُنّے! اب ہم صرف تاڑنے ہی کے تو رہ گئے ہیں۔ مگر ایک بات کا دھیان رکھنا کہ اگر قدرت نے ہم کو تاڑ لیا نا تو بڑے خسارے میں رہیں گے۔ ابے مولانا! منہ میں دانت نہیں پیٹ میں آنت نہیں اب کیا کریں گے تاڑ توڑ کے۔ چلو اٹھو! چاند دیکھنے!پُنّے میاں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اٹھادیا۔ ایسا لگتا تھا کہ پُنّے میاں کو پر لگ گئے ہیں۔ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ چل رہے ہیں، دوڑ رہے ہیں یا اُڑ رہے ہیں۔ تینوں کا ملغوبہ بنے پُنّے میاں نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ اللہ اللہ کرکے میں مسجد والے چوک میں پہنچا تو پُنّے میاں کےبجائے پندرہ بیس لوگ گھیرا بنائے کھڑے نظر آئے۔ میں دوڑ کر قریب پہنچا تو پُنّے میاں کو ایک گڑھے سے باہر نکالا جارہا تھا۔ پائپ لائن کی درستی کے لئے کھودے گئے اس گڑھے میں اچھا خاصا گدلا پانی بھرا ہوا تھا اور پُنے میاں ایک دن کا سی ایم بن گڑھے سے برآمد ہو رہے تھے۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ پُنّے کو دیکھا اور پوچھ بیٹھا۔ یہ کیسے ہوگیا؟ محلے کے ایک ’ڈیڑھ شیانے‘ نوجوان نے زور سے کہنا شروع کیا۔ ارے چاچا! ہم لوگ یہاں قریب ہی کھڑے تھے کہ پُنّے چاچا دوڑتے ہوئے آئے۔ وہ آسمان پر نہ جانے کیا ڈھونڈ رہے تھے کہ ہمارے چلانے اور بتانے کے باوجود یہ اس گڑھے میں اوندھے منہ گرپڑے، وہ تو اچھا ہوا کہ ان کو چوٹیں نہیں آئیں۔ مگر پُنّے چاچا تم آسمان میں کیا دیکھ رہے تھے؟ اب میری ہنسی چھوٹ پڑی۔ پُنّے کو دیکھتے ہوئے میں بیساختہ بول پڑااٹھائیس کا چاند دیکھ رہے تھے!اٹھائیس کا چاند؟ مطلب؟ ارے؟یہ کیا بات ہوئی؟ الگ الگ آوازیں حیرت کا اظہار بن گئیں۔ میں نے مختصراً تفصیل بتادی۔ لوگوں کے قہقہے اٹھائیس کے چاند کو ان کی چاندنی بیگم کے حوالے کرنے کے بعد بھی جاری رہے۔ چاندنی بیگم نے پُنّے میاں کو دیکھا تو اپنا سر پیٹ کر رہ گئیں۔ 
وہ تو اچھا ہوا کہ میں اس گڑھے میں غروب نہیں ہوا ورنہ میری بیوی اپنا ماتھا پیٹنے کی بجائے مجھے ہی پیٹ کر رکھ دیتی۔ شفیق کے اس جملے پر سبھوں کے ساتھ ساتھ خود پُنّے میاں بھی ہنس پڑے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK