Inquilab Logo

منشی نول کشور کا سفر ان کے پوتے کے پوتے لو بھارگو کی زبانی

Updated: October 29, 2023, 7:35 AM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

اُردو زبان و ادب کی عظیم خدمت انجام دینے والی قد آور اور مثالی شخصیت منشی نول کشور کے پوتے کے پوتے لَو بھارگو آپ سے مخاطب ہیں ۔ لو َ بھارگو لکھنؤ ہی میں بلکہ اُسی مکان میں مقیم ہیں جہاں سے مشہور ’’اودھ اخبار‘‘ شائع ہوا کرتا تھا اور جہاں منشی نول کشور پریس سے اُردو، عربی اور فارسی کی ایسی ایسی کتابیں شائع ہوتی رہیں کہ یہ اپنے آپ میں وسیع تر تحقیق کا موضوع ہے۔

Munshi Naval Kishore (left) and Luu Bhargava. Photo: INN
منشی نول کشور (بائیں) اور لو بھارگو۔ تصویر: آئی این این

دیکھئے! دنیا کے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کانام تو بہت بڑا ہوتا ہے لیکن ان کے ماضی میں دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ مصیبتوں کا شکار ہونے کے بعد اُبھرے ۔ یہ ضرور ہے کہ کسی مصیبت کا یا پریشانی کا شکار ہونے کے بعد بھی انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور یہ ان کی ہمت تھی کہ وہ آگے بڑھتے بڑھتے ایسے مقام پر پہنچ گئے کہ جہاں ان کا نام مشہور اور محترم ہو گیا اور وہ بڑی قدر و قیمت سے دیکھے جانے لگے۔ ایسی ہی شخصیت ہمارے پر دادا منشی نول کشور کی بھی ہے (جن کی ہم چوتھی نسل ہیں )۔ وہ بچپن میں باپ کیلئے ایک نکمے بیٹے تھے۔ اپنے باپ پنڈت جمنا پرساد کی ڈانٹ کھا کرکم عمری میں گھر چھوڑ گئے تھے لیکن ان کے اندر عزم، ہمت اور استقلال کا مادہ تھا چنا نچہ اسی عزم اور حوصلے کے ساتھ لاہور پہنچے اور ہر سکھ رائے جی کے مطبع کوہ نور میں  برسرکار ہوگئے۔ منشی جی کی ذہانت سے ہر سکھ رائے جی اس قدر متاثر ہوئے کہ چھاپہ خانہ کی تمام ذمہ داریاں ان کے سپرد کر دیں ۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ منشی جی نے طباعت کی تمام باریکیوں کو بخوبی سمجھ لیا۔ 
جب دادا جی (منشی نول کشور) لاہور سے لکھنؤ آئے اور پیشہ ٔ طباعت سے باقاعدہ وابستہ ہوگئے تو رکاب گنج (لکھنؤ) میں ایک چھوٹا موٹا چھاپہ خانہ مطبع نول کشور کے نام سے قائم کیا جس میں ہاتھ کا پریس استعمال ہوتا تھا جس نے ترقی کرتے کرتے منشی جی کی پہچان ناشر کی حیثیت سے مستحکم کردی ۔طباعت کا کام اس قدر بڑھا کہ پریس کی جگہ چھوٹی پڑنے لگی چنانچہ ہمارے پردادا جی نے حضرت گنج میں ایک بڑی جگہ پر چھاپہ خانہ کو توسیع دی۔ بعد میں یہ سڑک انہی سے منسوب ہوئی۔ حضرت گنج لکھنؤ میں واقع وہ سڑک اب بھی منشی نول کشور روڈ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ 
حضرت گنج میں پریس منتقل ہونے کے بعد منشی جی نے ایک ہفت روزہ اخبار جاری کیا جس کو بعدمیں سر سید احمد خاں کے مشورہ سے روزنامہ کر دیا ۔۹۲؍برس کی عمر پانے والا یہ روزنامہ’اودھ اخبار‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ آپ جہاں بیٹھے ہیں (حضرت گنج لکھنؤ کے جن پتھ مارکیٹ کا علاقہ) یہی ’اودھ اخبار‘ کا دفتر تھا۔ اس کوٹھی کا نام ’عنایت سلطان ‘تھا جو منشی جی نے نوابین اودھ کے کسی رشتہ دار سے غالباً ۱۸۶۸ء میں خریدی تھی ۔ اسی کوٹھی میں اُردو کی قدآور شخصیات نے ’اودھ اخبار‘کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی، ان میں پنڈت رتن ناتھ سرشار، مولانا عبد الحمید کاکوروی، عبد الحلیم شرر لکھنوی، سید جالب دہلوی، منشی نادر حسین نادر کاکوروی، نوبت رائے نظر، مرزا محمد عسکری، منشی پریم چند، اُمید امیٹھوی، مولانا عبد الباری آسی لکھنوی، امین سلونوی اور شوکت تھانوی جیسے نام شامل ہیں ۔ان حضرات نے اپنی ادارت سے اخبار کو بلندی پر پہنچانے میں اہم تعاون دیا تھا ۔ اس کے علاوہ منشی جی نے خبروں  کے حصول کیلئے قرب و جوار کے اضلاع میں ’اودھ اخبار‘ کے نمائندے مقرر کئے تھے ۔ میں اپنےوالد راجہ رام کمار بھارگو اور دادا منشی بشن نارائن سے سنتا آیا ہوں کہ اس زمانے میں اخبار کی ۱۰؍ سے ۱۲؍ ہزار کاپیاں چھپتی تھیں ۔ اخبار کی شاخیں لکھنؤ کے علاوہ، کانپور، دریبہ کلاں ، دہلی اور پٹنہ وغیرہ تک پھیلی ہوئی تھیں۔ 
منشی جی کا چھاپہ خانہ ان معنوں میں بے حد مشہور اور مقبول تھا کہ اس میں کلام پاک کی کتابت کرنے والے خوش نویسوں اور خطاطوں کو سخت ہدایت تھی کہ کبھی بھی بلا وضو کتابت نہیں کریں گے۔ گویا اسلامی تصنیفات کے سلسلہ میں پاکیزگی اور طہارت کا پورا خیا ل رکھا۔ یہاں سے جو مذہبی نسخے شائع ہوتے تھے وہ دنیا بھرمیں جاتے تھے۔ 
 منشی نول کشور پریس سے شائع ہونے والی ادبی کتابوں کی فروخت بھی کافی تھی اور ایک زمانے میں پاکستان سے جو وفد اجمیر شریف کے عرس پر آیا کرتا تھا اس وقت مطبع نول کشور کے کچھ مخصوص حضرات ان کتابوں کے نمونے لے جاتے اور ان کو دکھاتے تھے اورپاکستان کے کتب فروش ان کتابوں کا آرڈر دیتے تھے ۔
 اودھ اخبار میں کچھ ایسی قسطیں شائع ہوئیں جن کو بعد میں کتابی شکل میں شائع کیا گیا جیسے داستان امیر حمزہ وغیرہ۔ عبد الحلیم شرر صاحب نے ’’گزشتہ لکھنؤ ‘‘ کے نام جو کتاب لکھی ہے اس کے اقتباسات بھی شائع ہوا کرتے تھے۔ امین سلونوی صاحب کی مشہور مزاحیہ تخلیق ’دنیا میں جہنم‘ کے اقتباسات بھی اودھ اخبار میں پابندی سے شائع ہوتے رہے۔ بعد میں نول کشور پریس نے اس کا ہندی ترجمہ شائع کیا ۔ شوکت تھانوی صاحب کے مزاحیہ کالم بھی اودھ اخبار کے ذریعہ کافی مشہور ہوئے۔ منشی جی کے پڑ پوتے راجہ رام کمار بھارگو (میرے والد) کے زمانے میں اودھ اخبار بند ہو گیا کیونکہ اردو کے عروج کا دور ختم سا ہو گیا تھا۔ 
نول کشور پریس خاص لکھنؤ کا تھا لیکن اس کی شاخیں الہ آباد، کانپور، آگرہ، دہلی، لاہور، پٹیالہ، اجمیر اور جبل پور وغیرہ میں بھی تھیں ۔ اس پریس کی شہرت ہندوستان کے باہر دوسرے ممالک میں بھی تھی۔ اچھی طباعت سے افغانستان ، ایران ، مصر ، لندن، ترکی، برما، عراق اور افریقی ممالک سے بھی آرڈر ملتے تھے ۔ منشی جی نے فارسی کتابوں کی اشاعت میں خاص دلچسپی لی چنانچہ تفسیر، حدیث اور فقہ کی مستند کتابوں کے فارسی تراجم کرائے۔ ’’شاہنامہ فردوسی‘‘ بڑے سائز میں تین حصوں میں شائع ہوا ۔اس کا اردو ، ہندی ترجمہ بھی کرایا۔ 
’’ پیرہن یوسفی‘‘ منظوم کا اردو ترجمہ چھ حصوں میں ، جواہر الاسرار تین جلدوں میں ، کلیات شمس تبریز(مولانا روم کا کلام)، دیوان شمس تبریز ، کلیات عارفی اور کلیات غالب وغیرہ سب منشی نول کشور کے مطبع سے شائع ہوئے۔ 
منشی جگناتھ خوشتر کی تحریر کردہ کتاب نظم ’حرف حرف تلسی کرت رامائن‘ جس کو اردو میں تحریر کردہ پہلی رامائن کا امتیاز حاصل ہے اپنے ہی پریس (لکھنؤ) سے ۱۸۶۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ اَب یہ کتاب الہ آبادکے محکمہ آثار قدیمہ کی تحویل میں  ہے اور مرکزی وزارت برائے ثقافتی اُمور کے زیر اہتمام دہلی میں اندرا گاندھی نیشنل سینٹر برائے آرٹ میں اس کی نمائش ۱۹؍ نومبر تا ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۷ء ہوگی ۔ 
میں ماضی کو دیکھتا ہوں تو اتنی بڑی خدمات پر فخر ہوتا ہے لیکن موجودہ دور کو دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں  کی عدم توجہی کے سبب نول کشور پریس زبوں حالی کا شکار ہے ۔ اگر حکومت توجہ دیتی تو منشی نول کشور پریس کی عظمت رفتہ بحال ہوسکتی تھی۔ اس پریس کی پہچان چونکہ اردو ، فارسی اور عربی کتابوں کی وجہ سے تھی اس لئے ممکن ہے حکمرانوں کی کم نگاہی آڑے آگئی ہو ورنہ گنگا جمنی تہذیب کی علامت منشی نول کشور پریس کی آب و تاب بحال کرکے قومی ہم آہنگی کو تقویت دی جا سکتی تھی۔ 
منشی جی کا معمول تھا کہ صبح پوجا پاٹھ کرنے کے بعد پریس پہنچ جاتے اور چھپنے والی کتابوں اور طغروں وغیرہ کے کاموں میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیتے تھے۔ ملازمین سے ان کا رویہ انتہائی نرم اور مشفقانہ تھا، یہی وجہ تھی کہ ایک بار جو بھی ان کے پریس سے وابستہ ہوا، اسے ملازمت کیلئے پھر کوئی اور جگہ پسند نہ آئی ۔ منشی جی سر پر پگڑی باندھتے، لمبی ڈاڑھی رکھتے اور شیروانی زیب تن کرتے تھے۔ ان سے پہلی بار ملنے والا شخص اُنہیں منشی نول کشور کم، منشی نور محمد زیادہ سمجھتا تھا۔ چھاپہ خانہ بہت بڑے رقبہ پر ہونے کے باوجود ملازمین سے کھچا کھچ بھرارہتا تھا۔ ہر شخص انہماک کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہتا تھا ۔ منشی جی اپنے کام میں اتنے ماہر تھے کہ انہیں انگلینڈ سے ٹائپ نہیں منگوانا پڑتا تھا بلکہ وہ خود الفاظ ڈھالنے کا گُر سیکھ گئے تھے ۔ 
کاغذ کی وجہ سے چھپائی کے کام میں آنے والی رکاوٹ کو دور کرنے کیلئے منشی جی نے شہر میں ایک پیپر مِل قائم کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ جرمنی سے کاغذ تیار کرنے کیلئےمشین منگانے کا فیصلہ کیا۔ جرمنی سے یہ مشین سمندر کے راستے سے کلکتہ لائی گئی، وہاں سےدریا کے راستے سے ہوتے ہوئے لکھنؤ میں گومتی ندی کے کنارے اُتاری گئی اور یہاں نشاط گنج کے پاس (جو علاقہ پیپرمِل کالونی کے نام سے آج بھی مشہور ہے) ایک بڑے رقبہ میں نصب ہوئی۔ اس طرح کاغذتیار کرنے کا کام شروع ہوا۔ پیپر مل قائم ہو جانے کے بعد پریس کیلئے کاغذ کی فراہمی کا مسئلہ ختم ہو گیا اور طباعت کے کام میں تیزی آگئی ۔ اس طرح پریس کو ملنے والے تمام آرڈر وقت سے پورے ہونے لگے۔
ہمارے والد راجہ رام کمار بھارگو بتاتے تھے کہ پریس میں اشرف علی نسخ نستعلیق کے بہترین کاتب تھے۔ طغریٰ نویسی میں نور خا ں صاحب کا جواب نہیں تھا۔ وہ اس فن کے استاد مانے جاتے تھے۔ احمد علی معکوس نویس تھے (اُلٹی تحریرجسے ’’مرر امیج‘‘ کہا جاتا ہے) اور اپنے فن میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ مولوی سید تصدق حسین کنتوری اور مولوی سید مظفر حسین تصحیح کے کام پر مامور تھے ۔ منشی جی مذہبی معاملات میں حددرجہ احتیاط کے قائل تھے۔ اسلامی کتب کی طباعت میں کوئی غلطی نہ ہو اور مسلکی مسئلہ پیش نہ آئے اس کیلئے سنّی کارکنان سے اہلسنت اور شیعہ ملازمین سے مذہب امامیہ کی کتابیں کافی احتیاط سے چھپواتے تھے۔
ہماری پر دادی (منشی نول کشور کی اہلیہ)کا نام سرسوتی دیوی تھا۔ جیسا ہم اپنے باپ دادا سے ان کے بارے میں سنتے آئے ہیں ، وہ گھرکی ذمہ داریوں  کے ساتھ پریس کے کام پر بھی گہری نظر رکھتی تھیں ۔ ہندی، اردو اور فارسی میں مہارت کے سبب پریس میں چھپنے والی کتابوں میں اگر کوئی خامی ہے تو ان کی نظروں سے بچ نہیں پاتی تھی۔ ان کے اسی تجربے کا نتیجہ تھا کہ ۱۸۹۵ء میں منشی جی کے انتقال کے بعد ہمارے پر دادا منشی پراگ نارائن کی زیر نگرانی پریس چلتا رہا۔ ان کی محنت اور لگن سے منشی جی کے زمانے میں نکلنے والا اودھ اخبار اسی آب و تاب سے نکلتا رہا بلکہ ہندی میں نکلنے والے ’مادھوری‘ میگزین پر بھی زوال نہیں آیا۔ وہ بھی منشی پریم چند کی ادارت میں حسب روایت جاری رہا۔ 
منشی پراگ نارائن کے انتقال کے بعد منشی بشن نارائن نے پریس کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور پریس نیز اخبار پوری توانائی کے ساتھ جاری رہے لیکن اس میں منشی نول کشور اور منشی پراگ نارائن کے زمانے والی بات نہیں رہ گئی تھی چنانچہ ۱۹۴۴ء تک ’ اودھ اخبار‘ بند ہو گیا۔ منشی بشن نارائن کے انتقال کے بعد ان کے بیٹوں یعنی ہمارے والد راجہ رام کمار بھارگو اور چچا تیج کمار بھارگو نے پریس سنبھالا لیکن دونوں بھائیوں میں زیادہ عرصہ تک نباہ نہ ہوسکا اور پریس نیز دیگر املاک دو حصوں میں تقسیم ہو گئیں جس سے تیسری پیڑھی میں پہنچ کر پریس پر زوال آگیا۔ یو ں سمجھئے کہ جس طرح تقسیم سے ملک کو نقصان ہوا ٹھیک اسی طرح اِس بٹوارے سے پریس کو بھی نقصان پہنچا۔ پوری دنیا میں منشی نول کشور کے نام سے مشہور اس چھاپہ خانہ کا نام بھی تبدیل ہو گیا۔ اب یہ پریس ’ راجہ رام کمار پریس‘ اور ’تیج کمار پریس‘ کے نام سے چل کیا رہا ہے، بس آخری سانسیں لے رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK