Inquilab Logo

اہلِ زمیں کا درد کوئی پوچھتا نہیں جانے کو یوں تو چاند پہ پہنچا کئے ہیں لوگ

Updated: October 31, 2023, 5:56 AM IST | Md Shabbir Faruqi | Mumbai

تبدیلی زندگی کا لازمی جز ہے۔ جب تبدیلی ہماری پسند کے مطابق واقع ہوتی ہے تو ہم اسے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جب تبدیلی غیر متوقع طور پر واقع ہوتی ہے تب بھی ہم اسے ایک موقع کے طور پر ضرور برت سکتے ہیں اور اپنی اصلاح کے لئے اسے استعمال کرسکتے ہیں ساتھ ہی جہاں تبدیلی کی اشد ضرورت وہاں تبدیلی لاسکتے ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

تبدیلی زندگی کا لازمی جز ہے۔ جب تبدیلی ہماری پسند کے مطابق واقع ہوتی ہے تو ہم اسے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جب تبدیلی غیر متوقع طور پر واقع ہوتی ہے تب بھی ہم اسے ایک موقع کے طور پر ضرور برت سکتے ہیں اور اپنی اصلاح کے لئے اسے استعمال کرسکتے ہیں ساتھ ہی جہاں تبدیلی کی اشد ضرورت وہاں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ تبدیلی کے عمل میں روک ٹوک نہیں کی جانی چاہئے کہ یہ سوچ زندگی کے فطری عمل میں رکاوٹ ہوتی ہے۔ ہر نئی تبدیلی زندگی میں ترقی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ ترقی زندگی میں تبدیلی کا فطری عمل ہے۔ اسی ترقی کی سوچ اور جدوجہد کی وجہ سے ہم آج اس مقام تک پہنچ سکے ہیں۔ لیکن ہر ترقی انسانیت کے لئے مفید ہو اور باعث رحمت ہو، یہ ضروری نہیں ہے۔ اس لئے تبدیلی اور ترقی کے عمل پر نگاہ رکھنا، ان میں سے مفید کو اپنی زندگی کے کے لئے استعمال کرنا اور غیر ضروری کو رد کرنا ہر انسان کے لئے ضروری ہے۔ 
 کہا جاتا ہے کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کے پاس روپیہ ہوتا ہے اور دوسرے وہ جو امیر ہوتے ہیں۔ ہماری بات شاید آپ کو الجھن میں مبتلا کردے لیکن یہ سچائی ہے کہ صرف روپیہ ہوناہی امیری کی علامت نہیں ہے۔ ورنہ امیر لوگ سڑک کے چوراہوں سے چمچماتی کاروں میں مفلس و نادار بچوں کو بغیر کچھ دئے بغیرنہ جاتے وہیں کچھ بے حد غریب لوگ اپنی جیب کے چند سکوں میں سے ایک سکہ اُن کی ہتھیلیوں پر بالکل نہ رکھتے۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل کئی لوگ ہمارے ملک میں رہتے ہیں۔ اگر افواہوں پر یقین کرلیا جائے توانہی میں سے ایک معروف تجارتی گھرانے کی ایک بیٹی کی شاہی شادی میں سو ملین ڈالر خرچ کئے گئے۔ اگرچہ کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق ۱۵ ملین ڈالر یعنی ۱۱۰ کروڑ روپئے ہی خرچ کئے گئے تھے جوخود بھی اپنے آپ میں کسی شادی میں خرچ کی جانے والی بہت بڑی رقم ہے۔ شادیوں پر بے جا اصراف کے معاملوں میں اب تک دیگر مذاہب اور عقیدوں کے لوگ دکھائی دیتے تھے لیکن اب تو ہمارے مسلم گھرانوں میں بھی ایسی خبریں آنے لگی ہیں کہ رشتے کی بات پکی ہونے کے وقت ہی دلہن والوں نے لڑکا پسند آنے پر اسے منہ دکھائی میں پانچ لاکھ روپئے دے دئے جب کہ ابھی رسم منگنی اور شادی وغیرہ بہت بعد کے مراحل میں ہیں۔ اس طرح کی تمام چیزوں اور بے جا اصراف کا مقصد صرف اور صرف دولت کی نمائش ہوتا ہے۔ یہ اور ایسے بے شمار واقعات، جنھیں یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے، ملک کے عام دولت مند لوگوں کا مزاج ظاہر کرتے ہیں۔ دنیا کے بے شمار امیروں کے پاس ہر چیز اور عیش و آرام ہونے کے بعدوہ عقیدت و تعریف و توصیف کے متمنی ہوتے ہیں کیوں کہ اپنی سوچ میں وہ اپنے آپ کو قصوروار سمجھتے ہیں۔ اس بات کا قصور کہ دنیا میں ان کے پاس سب کچھ موجود ہے۔ یہ سب اس ملک میں روزانہ ہوتا ہے جہاں غریبی کی سطح کم ہونے کی بجائے روزانہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ہم نے ہر چھوٹے بڑے شہر میں بہت سے شادی خانوں اور پروگرام ہالس کے باہر غریبوں کوکچرے کے ڈھیر پربچے ہوئے اور پھینکے گئے دوسروں کے جھوٹے کھانے کھاتے ہوئے اکثر دیکھا ہے۔ کسی نے صحیح کہاہے کہ امیر وں کے خواب ہوتے ہیں جب کہ ان کی تعبیریں پانے کی جدوجہد میں غریب لوگ زندگی صرف کردیتے ہیں اورآخرکار مرجاتے ہیں۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق براعظم افریقہ کی نصف غریب آبادی نائجیریا، جمہوریہ کانگو، تنزانیہ، ایتھوپیا اورمڈغاسکر جیسے صرف پانچ ممالک میں بسی ہوئی ہے۔ عالمی بینک ہی کے مطابق دنیا بھر کے ۴۰ فیصد غریب تشدد ذدہ، جنگ یاقدرتی طورسے متاثرہ معیشتوں اور علاقوں میں رہتے ہیں اور اگلی دہائی میں ان میں ۶۷ فیصد اضافے کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے ۱۳۲ ملین غریب سیلاب سے بار بار متاثر ہونے والے علاقوں میں بستے ہیں۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ کہ بھارت میں غریبی کم کرنے کی کوششیں کچھ حد تک کامیاب ہوئی ہیں لیکن ہنوز۲۲ فیصد یا ۲۷۰ ملین لوگ غریبی کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ اعداد و شمار چونکانے والے ہیں۔ جنوری ۲۰۲۱ ؁ ء میں ظاہر کی گئی عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق رواں سال میں خود ہمارے ملک بھارت کی معیاشی نمو میں ۶ء۹فیصد کی کمی کی پیشن گوئی کی ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ایسے لوگوں کی رہائش یا ان کے کھانے اور کپڑوں کا انتظام دنیا بھر میں بے جا اصراف کی جانے والی ان خطیر رقموں میں ممکن نہیں ہے؟
 ہمارے ملک میں حکومت کا تو یہ حال ہے کہ ہم عوام سے پانچ ٹریلین کی معیشت کا دعویٰ کرتے ہیں اور انہیں مفت میں پانچ کلو اناج سے زیادہ نہیں دے پاتے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق حال ہی میں کلکتہ کے ایک میڈیکل کالج اسپتال کے پوسٹ مارٹم روم کے لئے آٹھ لیبارٹیری بوائز کی ضرورت تھی۔ ان محدود اسامیوں پرسرکاری نوکری کے لئے فارم بھرنے اور عریضہ کرنے والوں میں انجینئرنگ کی ڈگری رکھنے والوں سے لے کر ایم بی اے تک کے ہزاروں نوجوان شامل تھے۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست یوپی میں ۲۰۰ ملین لوگوں میں سے ۶۰ ملین افراد نہایت غریب ہیں۔ جہاں غریبی کی سطح دیگر ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، جہاں عوام کے لئے روزگار کے مواقع اتنے کم ہیں کہ انہیں تلاشِ معاش کے لئے دیگر ریاستوں میں جانا اور ہجرت کرنا لازمی ہوجاتا ہے، یہ جاننا اہم ہے کہ ہمارے ملک کی اس سب سے بڑی ریاست میں وہاں کی حکومت نے صرف ایک برس میں قومی اور علاقائی ٹیلی ویژن چینلوں پر حکومت کے کاموں کی اشتہار بازی پر ۱۶۰ کروڑ روپیہ خرچ کیا۔ ظاہر ہے کہ محدود اور غیر یقینی زر مبادلہ کے ساتھ محدود خانگی اور عوامی خدمات وسامان اور محدود سماجی سرمایے کی وجہ سے ایسے حالات ہمارے ملک کی مختلف ریاستوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس لئے ان کا حل تلاش کرنے کے اولین اقدامات میں غیر ضروری اخراجات کم کرکے حکومتوں کو عوامی سرمایہ عوام کی فلاح اور ترقی کے تعمیری منصوبوں پر خرچ کرنا ضروری ہے۔ 
 ہمیں ٹیلی ویژن کی دنیا کے مشہور کوئز شو ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ کا ایک ایپی سوڈ یاد آگیا جس میں شو کے میزبان امیتابھ بچن نے بہت اچھے جوابات دینے والے ایک شریک مقابلہ سے یہ سوال پوچھا تھا کہ اگر وہ پانچ کروڑ روپیوں کی انعامی رقم جیت جائیں تو کیا کریں گے؟اس سوال کے جواب میں اس نوجوان نے کہا تھا کہ
 میں ٹرین خرید لینا چاہتا ہوں تاکہ اپنی مرضی کے مطابق جب چاہوں سفر کرسکوں ۔ اس نے دنیا سے غریبی دور کرنے کے ارادوں اور ممکنہ اقدامات کا بھی ذکر کیا۔ یہ بڑی اچھی بات ہوئی کہ بعد میں وہ نوجوان پانچ کروڑ کی خطیر رقم انعام میں جیت بھی گیا اور جیسا اس نے کہا تھاویسا کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ جلد ہی اس کے لٹ جانے اور سارا روپیہ برباد ہوجانے کی خبریں ضرور آئیں۔ غریبی کے دعوے کرنا، غریبوں کے لئے مدد کے وعدے کرنا بہت آسان ہے لیکن اصل میں کام کرنا اور ان کے حالات بدلنے کی کوشش کرنا ایک مشکل امر ہے۔ 
 یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں غریبی ختم کرنے کے لئے ۶۰۰ بلین ڈالر درکار ہیں جب کہ دنیا نے ماضی میں ۲۰۱۲ ؁ ء میں ۱۷۰۰ بلین ڈالر صرف جنگوں پر صرف کئے اور آج بھی پھر سے نئی جنگوں کے امکان کو خارج از امکان نہیں کہا جاسکتا۔ ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ کیا واقعی سرمایہ داری نظام نئی دنیا کی ترقی کے لئے بہترہوسکتا ہے ؟بہرحال روپیہ امیروں کا ہے اور اسے خرچ کرنے کا اختیار بھی انہیں کوحاصل ہے۔ ہم کسی کو اپنی مرضی کے مطابق روپیہ خرچ کروانے کے لئے مجبور نہیں کرسکتے۔ صرف مشورہ دے سکتے ہیں کہ خلاء میں تحقیق کے مقصد سے سفر کرنا تو پھر بھی اس حد تک موزوں ہے کہ جب تک اس سفر کے دوران کی گئی تحقیقات اور مطالعوں کی مددسے دنیا میں بسنے والے انسانوں کے کچھ انتہائی ضروری مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ دور کی پرسہولت اور پرتعیش زندگی میں سیر و سیاحت اور نئے اسفار کے رجحانات میں یقینی طور پر میں انتہا اضافہ ہوا ہے لیکن یہ کیا کہ امیر لوگ خلاء کے سفر پر ہی روانہ ہوجائیں جب کہ اس کا مقصد ذاتی تفریح اور تسکین انا کے علاوہ کچھ نہ ہو۔ آخر میں ہم جیف بیجوس اور ان جیسے لوگوں سے یہی کہیں گے کہ دنیا میں کوئی چیز پالینا بالکل بھی آسان نہیں ہے جب تک کہ ہم امیر نہ ہوں ……
 تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا 
ہمیں زمیں کے مسائل پہ بات کرنا ہے 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK