• Sat, 22 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مسجد صخرہ کی تعمیر کئی مراحل سے گزری

Updated: November 22, 2025, 4:48 PM IST | Ashfia Sheikh Hameed | Jalgaon

مسجد اقصیٰ کے نام سے ہمیں جو سونے سے بنا پیلا گنبد دکھایا جاتا ہے وہ اصل میں قبۃ الصخرہ ہے اور یہ مسجد اقصیٰ کے صحن میں آتا ہے۔

Picture: INN
تصویر:آئی این این
مسجد اقصیٰ کے نام سے ہمیں جو سونے سے بنا پیلا گنبد دکھایا جاتا ہے وہ اصل میں قبۃ الصخرہ ہے اور یہ مسجد اقصیٰ کے صحن میں آتا ہے۔ جب حضرت عمر فاروقؓ نے بیت المقدس فتح کیا اور یہاں تشریف لائے تو مسجد اقصیٰ اپنی اصل حالت میں نہیں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں نے اسے بہت نقصان پہنچا کر تباہ کر دیا تھا۔ حضرت عمرؓ کے حکم پر اس کی از سر نو تعمیر کی گئی۔ اور جامنی رنگ کے گنبد والی عمارت جو آج بھی موجود ہے یہ اسی دور کی مسجد اقصیٰ ہے۔ جب حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں بیت المقدس فتح ہوا تو حضرت عمرؓ نے صخرہ اور براق باندھنے کے مقام کے قریب مسجد کی تعمیر کا حکم دیا۔ مسجد صخرہ کی تعمیر کئی مراحل سے گزری۔ ۷۴؍ھ میں خلیفہ عبدالملک بن مروان نے مسجد کی تعمیر شروع کروائی اور ۸۶؍ھ میں ان کے بیٹے خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اسے مکمل کروایا۔ اس مسجد کی تعمیر میں خرچ ہونے والا سرمایہ مصر کے سات سال کے اخراجات کے برابر تھا۔ جب تعمیر مکمل ہوئی تو مسجد کی تعمیر کیلئے مختص رقم میں سے ایک لاکھ دینار باقی بچ گئے۔ خلیفہ نے یہ رقم دونوں نگرانوں کو بطور انعام دینا چاہی تو انہوں نے انکار کردیا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ اپنی بیویوں کے زیور بیچ کر اس مسجد پر لگا دیں۔ چنانچہ خلیفہ نے سونے کے دینار ڈھلوا کر مسجد کے دروازوں پر سونے کی چادریں چڑھا دیں۔
۱۳۰؍ھ میں آنے والے زلزلے کے باعث جب اسے بہت نقصان پہنچا تو خلیفہ جعفر نے یہ چادریں اتروا کر سکّوں میں ڈھلوائیں اور انہیں لوگوں میں تقسیم کردیا۔ ۱۶۳؍ھ میں خلیفہ مہدی بن جعفر نے مسجد کی حدود کی چوڑائی کم کرکے اسکے طول میں اضافہ کروا دیا۔ ۴۲۶؍ھ میں اس مسجد کو زلزلے سے نقصان پہنچا تو خلیفہ نے مرمت کے دوران جو گنبد بنوایا وہ آج تک موجود ہے۔ خلیفہ نے مسجد کے شمال کی جانب ۷؍ دروازے تعمیر کروائے۔ ۴۹۲؍ھ میں ہونے والی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تو انہوں نے مسجد صخرہ کی تعمیر میں بہت ردّ و بدل کی۔ انہوں نے رہائش کیلئے مسجد میں کمرے بنائے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھ دیا۔ اس کے علاوہ بھی اس دور میں دیگر تعمیرات کی گئیں جو بطور جائے ضرورت اور اناج کے ذخیرہ اندوزی کیلئے استعمال ہوتی تھیں۔ عیسائیوں نے مسجد کے اندر اور اس سے ملحق ایک گرجا گھر بھی تعمیر کردیا۔ اس دور میں عیسائی گنبد صخرہ کے ٹکڑے توڑ کر اپنے علاقوں میں لے جاتے تھے اور سونے کے عوض انہیں فروخت کرکے مال کماتے تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK