Inquilab Logo

جے آر ڈی ٹاٹا،سوامی وویکانند اور لال بہادر شاستری کے ترغیبی واقعات

Updated: September 01, 2023, 5:50 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai

(۱) قلم کی قدر (۲)انتقام کا جذبہ اور ذہانت (۳)عاجزی اور سادگی ، مذکورہ ۳؍ مشہور شخصیات کی حقیقی کہانیاں ہیں جو طلبہ کی زندگیوں میں تبدیلی کا محرک بن سکتی ہیں

Air India was founded by JRD Tata. In the picture below, he can be seen with his staff. Photo: INN
جے آر ڈی ٹاٹا نے ایئر انڈیا کی بنیاد رکھی تھی۔ زیر نظر تصویر میں انہیں اپنے اسٹاف کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔تصویر:آئی این این

قلم کی قدر
جے آر ڈی ٹاٹا کا ایک دوست تھا جو اکثر اپنا قلم کھو دیتا تھا۔ اس نے بہت سے سستے قلم استعمال کئےتاکہ اسے کھونے کی فکر نہ ہو۔ دوست نے جے آرڈی ٹاٹا کو بتایا کہ وہ اپنی لاپروائی کی عادت سے پریشان ہے۔
 ایک دن ٹاٹا نے اسے سب سے مہنگا قلم خریدنے کا مشورہ دیا ۔ان کے دوست کو حیرانی ہوئی مگر انہوں نے ٹاٹا کی بات پر عمل کیا اور ۲۲؍ قیراط سونے کا ایک قلم خریدا۔تقریباً ۶؍ مہینے بعد جے آر ڈی ٹاٹا نے ان سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ کیا اب بھی وہ قلم کھو گئی ہے؟ دوست نے مسکراکر بتایا کہ اب وہ اپنے قلم کا بہت خیال رکھتا ہے اور اب اس معاملے میں لاپروائی نہیں کرتا ۔پھر جے آرڈی ٹاٹا نے انہیں سمجھایا کہ فرق صرف قلم کی قدر کا ہے۔ بحیثیت انسان ان کے ساتھ ایسا ہونا غلط نہیں تھا اور نہ وہ لاپروا تھے لیکن یہ اس چیز کی قدر کے بارے میں تھا ۔
انتقام کا جذبہ اور ذہانت
 جب سوامی وویکانند یونیورسٹی کالج، لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہے تھے تب ایک سفید فام پروفیسر انہیں سخت ناپسند کرتاتھا۔ایک دن پروفیسر ڈائننگ روم میں لنچ کر رہاتھے ، تبھی سوامی وویکانند اپنی ٹرے کے ساتھ آئے اور پروفیسر کے پاس بیٹھ گئے۔ پروفیسر نے توہین آمیز لہجے میں کہا: 
 ’’مسٹر وویکانند سور اور پرندہ ساتھ نہیں بیٹھتے۔‘‘ وویکانند جی نے ان کی طرف دیکھا اور اطمینان سے جواب دیا:
 ’’پروفیسرصاحب آپ فکر نہ کریں میں اُڑ جاؤں گا۔‘‘ اور یہ کہہ کر سوامی جی اٹھ کر دوسری میز پر بیٹھ گئے۔پروفیسر غصے سے لال ہوگئے اورانہوں نے بدلہ لینے کا ارادہ کیا ۔
  اگلے دن، کلاس میں پروفیسر نے سوامی وویکانند سے سوال کیا،’’اگر آپ سڑک پر چل رہے ہیں اور آپ کو ایک پیکج ملا، جس میں ایک تھیلا حکمت و دانائی کا اور دوسرا پیسوں کا ہو اور آپ کوئی ایک ہی لے سکتے ہو توآپ کیا لیں گے؟ ?بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سوامی وویکانند نے جواب دیا:
 ’’جس تھیلے میں پیسہ ہوگا۔‘‘پروفیسر طنزیہ انداز میں مسکرایا اور کہا کہ’’ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو حکمت و دانائی اور عقل مندی سے بھرا تھیلا منتخب کرتا ۔سوامی وویکانند نے جواب دیا ’’ہر شخص وہی اٹھاتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتا ۔‘‘سوامی جی کے اس جواب پر پروفیسر کو مزید غصہ آگیا ۔
  ایک دن امتحان کے بعد اس پروفیسر نے جب وویکانند کی جوابی شیٹ دیکھی تو غصہ آیا۔پروفیسر نے اس پرچہ کی جانچ نہیں کی اور اس پر صرف بیوقوف لکھ دیا اورانہیں دے دیا۔وویکانند جوابی پرچہ لے کر اپنی میز پر بیٹھ گئے۔چند منٹوں کے بعدوہ اٹھے اور پروفیسر کے پاس گئے اور شائستہ لہجے میں ان سے کہا  ’’پروفیسر آپ نے میری جوابی شیٹ پر صرف دستخط کئے اور گریڈ دینا بھول گئے۔‘‘
عاجزی اور سادگی 
 ایک بار سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری ایک ٹیکسٹائل مِل پر گئے۔ ان کے ساتھ اس مل کا مالک بھی تھا۔مل کا چکر لگانے کے بعد شاستری جی گودام کو دیکھنے گئے۔ وہاں انہوں نے کچھ ساڑیاں ڈسپلے پر لگی دیکھیں ۔انہیں دیکھ کر شاستری جی نے مل کے مالک سے درخواست کی کہ وہ انہیں کچھ ساڑیاں دکھائیں ۔
 مل کا مالک ان کی درخواست پر خوش ہوا اور اپنے سیلز مین سے کہا کہ وہ ان کیلئے بہترین ساڑیاں دکھائیں ۔مالک نے انہیں طرح طرح کی ساڑیاں دکھائیں جواُن میں سے ہر ایک منفرد اور اعلیٰ معیار کی تھی۔شاستری جی کو ان میں سے ایک ساڑھی پسند آئی۔انہوں نے مالک سے اس کی قیمت پوچھی۔ مل مالک نے انہیں بتایا کہ اس ساڑھی کی قیمت۸۰۰؍ روپے ہے۔ساڑھی کی قیمت جاننے کے بعد شاستری جی نے کہا،یہ بہت مہنگی ہے، کیا آپ مجھے کم مہنگی ساڑیاں دکھا سکتے ہیں ؟ مالک نے اپنے سیلز مین سے کہا کہ وہ ان کیلئے کچھ کم قیمت کی ساڑیاں لے آئیں ۔ چنانچہ مل مالک نے شاستری جی کو دوسری ساڑیاں دکھانا شروع کر دیں جس کی قیمت ۴۰۰؍ تا ۵۰۰؍ روپےتک تھی ۔
 شاستری جی نے کہا،یہ اب بھی بہت مہنگی ہیں ۔ کیا ایسی سستی ساڑیاں ہیں جو مجھ جیسا غریب آدمی برداشت کر سکتا ہے؟مالک ان کے جواب سے حیران ہوا اور بولا، لیکن آپ ہندوستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں ، آپ کو غریب کیسے کہا جا سکتا ہے اور آپ غریب کیونکر ہوسکتے ہیں ؟ اس کے علاوہ، آپ کو جو بھی ساڑی پسند ہو گی وہ لے سکتے ہیں اور اس کی قیمت بھی آپ سے نہیں وصول کی جائے گی بلکہ وہ آپ کیلئے تحفہ ہوگا۔ 
 مل مالک کے جواب پر لال بہادر شاستری نے کہا ،نہیں میرے عزیز دوست، میں اتنے مہنگے تحائف قبول نہیں کر سکتا۔ مالک نے پھر بھی اصرار کیا کہ یہ اس کا اعزاز ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نے اس سے ملاقات کی اور اس کے بدلے میں وہ ساڑی بطور تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں ۔اس پر شاستر ی جی نے جواب دیا،ہاں ، میں وزیر اعظم ہو سکتا ہوں ،میں ملک کے باوقار عہدے پر فائز ہوسکتا ہوں ۔آپ کیلئے میں ایک بڑا اور قابل احترام شخصیت ہوسکتا ہوں ، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ تمام چیزیں قبول کر کے اپنی بیوی کو دے دوں جس کی قیمت میں برداشت نہیں کرسکتا ۔ حالانکہ میں وزیر اعظم ہوں ، براہ کرم مجھے کچھ ایسی سستی ساڑیاں دکھائیں جنہیں میں خریدنے کی استطاعت رکھتا ہوں ۔آخر کار مل مالک کو ان کی بات ماننی ہی پڑی۔ انہوں نے سیلز مین کو حکم دیا کہ وزیر اعظم جی کو اس سے بھی سستی ساڑی دکھائے۔ شاستری جی نے متعدد ساڑیاں دیکھیں اور ان میں سے ایک ایسی سستی ساڑی خریدی جس کی قیمت وہ ادا کرسکتے تھے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK