معروف روسی ادیب انتون چیخوف کی شہرہ آفاق کہانی ’’دی کمیلین‘‘ The Chameleon کا اُردو ترجمہ۔
EPAPER
Updated: March 15, 2024, 3:33 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
معروف روسی ادیب انتون چیخوف کی شہرہ آفاق کہانی ’’دی کمیلین‘‘ The Chameleon کا اُردو ترجمہ۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ اوچومیلوف بالکل نیا اوور کوٹ پہنے اور بازو میں ایک پارسل دبائے بازار کے چوک پر چہل قدمی کر رہا ہے۔ اس کے چلنے کا انداز متکبرانہ ہے۔ بڑے ہی نپے تلے قدم اٹھاتا ہے اور اور جب اپنے پاؤں زمین پر رکھتا تو اس کے بھاری جوتوں کی گونج دور تک سنائی دیتی ہے۔
ایک سرخ بالوں والا پولیس اہلکار اپنے ہاتھوں میں ضبط شدہ آملوں سے بھری ایک ٹوکری لئے اس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ دوپہر کا وقت ہے۔ سورج گرمی برسا رہا ہے اور چاروں طرف خاموشی ہے۔
اس وقت چوک پر ان دونوں کے علاوہ کوئی دوسرا ذی روح موجود نہیں ہے۔ دکانوں اور ہوٹلوں کے کھلے دروازے گاہکوں کیلئے بے تاب نظر آرہے ہیں مگر دھوپ نے سب کو اپنے اپنے گھروں میں محدود کردیا ہے۔ دنیا مایوس نظر آرہی ہے۔ فٹ پاتھ پر بھکاری تک نہیں ہیں۔
’’تو تم نے اِسے کاٹ لیا، تم لعنتی وحشی؟‘‘ اوچومیلوف کو اچانک ایک آواز سنائی دی۔ ’’لڑکے، اسے جانے نہیں دینا! قانون کے مطابق کاٹنا منع ہے! اسے پکڑو! آہ... آہ!‘‘
اسی دوران کتے کے چیخنے کی آواز آتی ہے۔ اوچومیلوف آواز کی سمت دیکھتا ہے اور اسے پچوگین کے لکڑی کے صحن سے باہر تین ٹانگوں پر بھاگتا ہوا ایک کتا نظر آتا ہے۔
سوتی قمیص پہنے ایک آدمی، جس کے واسکٹ کا بٹن نہیں ہے، اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ وہ اس کے پیچھے بھاگتا ہے، اور پھر زمین پر گرتے ہوئے کتے کی پچھلی ٹانگوں کو پکڑ لیتا ہے۔ وہ ایک بار پھر چیخا، ’’اسےجانے نہ دو!‘‘
دکان میں اونگھنے والے مالکان اور ان کے ملازمین باہر آجاتے ہیں، اور سبھی ایک ہجوم کی شکل میں جمع ہوجاتے ہیں۔
’’یہ کوئی جھگڑا معلوم ہورہا ہے، آفیسر!‘‘ پولیس والا سپرنٹنڈنٹ سے کہتا ہے۔
اوچومیلوف بائیں طرف مڑتا ہے اور تکبر کے انداز میں ہجوم کی طرف بڑھتا ہے۔
وہ دیکھتا ہے کہ مذکورہ شخص بغیر بٹن والے واسکٹ میں لکڑی کے صحن کے دروازے کے قریب کھڑا ہے۔ اس کا دایاں ہاتھ ہوا میں ہے اور وہ ہجوم کو اپنی انگلی دکھا رہا ہے جس سے خون بہہ رہا ہے۔ اوچومیلوف اسے پہچان لیتا ہے۔ اس شخص کا نام ہریوکن ہے جو پیشے سے سنار ہے۔ جس نے یہ سنسنی پھیلائی ہے، وہ ایک سفید بورزائے (کتے کی نسل) کتے کا بچہ ہے جس کی پیٹھ پر دھاریاں اور پیلے رنگ کا ایک نمایاں دھبہ ہے۔ وہ ہجوم کے بیچ میں اپنے اگلے پنجے پھیلائے زمین پر بیٹھا ہوا ہانپ رہا ہے۔ اس کی آنسوؤں سے بھری آنکھوں میں غم اور دہشت ہے۔ اسے اندازہ ہورہا ہے کہ وہ انسانوں کے درمیان پھنسا ہوا ہے اور شاید اس نے کسی جرم کا ارتکاب بھی کیا ہے۔ یہ بھیڑ اس کے ساتھ کیا کرے گی، اسے کوئی اندازہ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: جاں نثار دوست (آسکر وائلڈ)
’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ اوچومیلوف بھیڑ چیرتا ہوا آگے بڑھا۔ ’’تم یہاں کیا کررہے ہو؟ انگلی کیوں ہلا رہے ہو؟ یہ کس کی آواز تھی؟‘‘
’’مَیں یہاں سے خاموشی سے گزر رہا تھا۔ کسی کے معاملے میں کوئی مداخلت نہیں کر رہا تھا، آفیسر!‘‘ ہریوکن نے کھانستے ہوئے کہا۔ ’’مَیںاپنے دوست سے لکڑی کے بارے میں بات کر رہا تھا، جب اس گھٹیا جانور نے بغیر کسی وجہ کے میری انگلی کاٹ لی۔ مجمع اکٹھا کرنے کیلئے آپ مجھے معاف کر دیں، میں ایک کام کرنے والا آدمی ہوں۔ مَیں اچھا کام کرتا ہوں۔ کتے کے کاٹنے کے بدلے مجھے ہرجانہ دیا جانا چاہئے کیونکہ اب ایک ہفتے تک مَیں اس انگلی کو استعمال نہیں کرسکوں گا۔ آفیسر! یہ قانون بھی نہیں ہے کہ آپ کو کسی درندے کی تکلیف برداشت کرنا پڑے۔‘‘
اوچومیلوف کھانستے ہوئے اور اپنی ابرو اٹھاتے ہوئے سختی سے کہتا ہے، ’’بہت اچھا۔ یہ کس کا کتا ہے؟ مَیں اسے یونہی نہیں چھوڑوں گا۔ مَیں مالکان کو سکھاؤں گا کہ اپنے کتوں کو ساتھ رکھیں! انہیں یوں کھلا نہ چھوڑیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ شریف لوگوں کی دیکھ بھال کی جائے۔ اگر کتے پالنے والے افراد ضابطوں کی پابندی نہیں کریں گے تو ان پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ مَیں اس کتے کے مالک کو سکھاؤں گا کہ کتوں اور ایسے آوارہ مویشیوں کو رکھنے کا کیا مطلب ہے! میں اسے سبق دوں گا!یلدیرین!‘‘ پولیس والے سے مخاطب ہوتے ہوئے آفیسر نے کہا، ’’پتہ کرو یہ کس کا کتا ہے؟ ہے اور رپورٹ تیار کرو! اور بغیر کسی تاخیر کے کتے کا گلا گھونٹ دیا جائے! سنار کا اس قسم کا رویہ جائز ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ کس کا کتا ہے؟‘‘
’’مجھے لگتا ہے کہ یہ جنرل زیگالوف کا کتا ہے۔‘‘ بھیڑ سے آواز آتی ہے۔
’’جنرل زیگالوف! میرا کوٹ اتارنے میں میری مدد کرو یلدیرین۔ بہت گرمی ہے۔ شاید بارش ہونے والی ہے۔ ایک بات مجھے سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ یہ یہاں کیسے آیا؟ خاص طور پر تمہیں کاٹنے کیلئے؟‘‘ اوچومیلوف نے ہریوکن کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔ ’’یہ اتنا چھوٹا ہے کہ یقیناً تمہاری انگلی تک نہیں پہنچ سکتا۔ تمہاری انگلی کسی کیل میں آگئی ہوگی اور تم ہرجانہ لینے کیلئے یہ ڈراما کررہے ہو۔ ہم سب تمہارے جیسے افراد کو جانتے ہیں۔ تم جیسے لوگ کسی شیطان سے کم نہیں!‘‘
’’سنار نے مذاقاً اس کے چہرے پر سگریٹ بجھانے کی کوشش کی تھی۔ اپنے آپ کو بچانے کیلئے وہ اس پر جھپٹ پڑا۔ یہ ایک بے ہودہ آدمی ہے، آفیسر!‘‘
’’یہ جھوٹ ہے، آفیسر! جب تم نے دیکھا ہی نہیں تو جھوٹ کیوں بول رہے ہو؟ آفیسر ایک عقلمند اور شریف شخصیت ہیں، اور وہ فیصلہ کریں گے کہ کون جھوٹ بول رہا ہے اور کون سچ بول رہا ہے، اور خدا جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ اور اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو عدالت کو فیصلہ کرنے دو، یہ قانون میں لکھا ہے۔ آج کل ہم سب برابر ہیں۔‘‘
’’بحث مت کرو!‘‘ آفیسر نے عوام پر اپنا رعب جھاڑنے کی کوشش کی۔
’’نہیں، یہ جنرل کا کتا نہیں ہے۔‘‘ پولیس والے نے یقین کے ساتھ کہا، ’’جنرل کے پاس ایسا کتا نہیں ہے۔‘‘
’’کیا تم اس بارے میں پُر یقین ہو؟‘‘
’’ہاں، آفیسر!‘‘
’’میں بھی جانتا ہوں کہ جنرل کے پاس ایسے کتے نہیں ہیں۔ وہ قیمتی کتے پالتےہیں۔ اس قسم کے گھٹیا کتے وہ کبھی نہیں رکھیں گے۔ یہ ایک گھٹیا مخلوق ہے۔ اگر ایسا کتا پیٹرزبرگ یا ماسکو میں آ جائے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ وہاں کے لوگ اسے دیکھتے ہی اس کا گلا گھونٹ دیں گے! تم زخمی ہو ہریوکن۔ ہمیں اس کا بدلہ لینا چاہئے۔ وقت آ گیا ہے۔‘‘
’’پھر بھی! شاید یہ جنرل ہی کا ہو،‘‘ پولیس والے نے کچھ سوچتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔ ’’یہ اس کتے کے چہرے پر لکھا نہیں ہے کہ اس کا مالک کون ہے مگر ایک دن میں نے ان کے صحن میں ایسا ہی کتا دیکھا تھا۔‘‘
’’یہ یقینی طور پر جنرل کا کتا ہے!‘‘ ہجوم سے آواز آئی۔
’’اوہ، مجھے میرا کوٹ پہننے میں مدد کرو، یلدیرین! ہوا تیز ہورہی ہے۔ مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے، تم اسے جنرل کے پاس لے جاؤ، اور ان سے کہو کہ یہ کتا مجھے راستے پر ملا ہے، کیا یہ ان کا ہے؟ ان سے یہ بھی کہو کہ اسے باہر گلی میں نہ جانے دیں۔ یہ ایک قیمتی کتا ہو سکتا ہے۔کتا ایک نازک جانور ہے۔‘‘ آفیسر نے کہا اور ہریوکن کی طرف دیکھتے ہوئے سخت لہجہ میں کہا، ’’ اور تم اپنا ہاتھ نیچے رکھو۔اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ تم اپنی خونی انگلی دکھاؤ، یہ تمہاری اپنی غلطی سے ہوا ہے۔‘‘
’’یہ رہا جنرل کا باورچی، اس سے پوچھو۔ پروہر! ادھر آؤ، ڈیئر! اس کتے کو دیکھو... کیا یہ تمہارا ہے؟‘‘ پولیس والے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ہمارے پاس ایسا کتا نہیں ہے، اور نہ کبھی تھا!‘‘
’’پوچھنے میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے،‘‘ اوچومیلوف کہنے لگا، ’’یہ ایک آوارہ کتا ہے! اس کے بارے میں بات کرنے میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چونکہ وہ کہہ رہا ہے کہ یہ آوارہ کتا ہے تو یہ ایک آوارہ کتا ہی ہے۔ اسے فوراً ختم کردو۔ اسے گولی ماردو۔‘‘
’’یہ ہمارا کتا نہیں ہے،‘‘ پروہر جلدی سے آگے بڑھتے ہوئے کہنے لگا،’’یہ جنرل کے بھائی کا کتا ہے۔‘‘
’’تم یہ کہہ رہے ہو کہ جنرل کا بھائی ولادیمیر ایوانچ یہاں ہے؟‘‘ اوچومیلوف نے دریافت کیا، اور اس کا چہرہ جوش سے تمتمانے لگا۔ ’’کیا وہ دورے پر ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’اچھا،مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ چھوٹا کتا اس کا ہے۔ کتنا پیارا کتا ہے۔ معصوم جانور۔ ‘‘
پروہر نے کتے کو ساتھ لیا اور آگے بڑھ گیا۔ ہجوم ہریوکن پر ہنسنے لگا۔
’’مَیں تمہیں تمہاری ہوشیاری اور غلط بیانی کا سبق سکھاؤں گا۔‘‘ اوچومیلوف، ہریوکن کو دھمکی دیتا چوک کے پاس چلا گیا۔