Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: جاں نثار دوست

Updated: March 01, 2024, 3:00 AM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف آئرش ادیب آسکر وائلڈ کی شہرہ آفاق کہانی ’’دی ڈیووٹیڈ فرینڈ‘‘  The Devoted Friend کا اُردو ترجمہ۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

کہانی کا دوسرا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے

ایک صبح پرانے جوہڑ کے پاس واقع سوراخ سے ایک چوہے نے اپنا سر باہر نکالا۔ اس کی آنکھیں چمکیلی اور مونچھیں سرمئی تھیں۔ دُم سیاہ اور ربڑ کی طرح لمبی تھی۔ چھوٹی بطخیں تالاب کے ٹھنڈے پانی پر تیر رہی تھیں۔ وہ زرد رنگ کی انتہائی خوبصورت بطخیں تھیں۔ ان کی ماں روئی کے گالوں کی طرح سفید تھی جو اپنے بچوں کو پانی میں سر کے بل کھڑے ہونے کا طریقہ سکھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ اپنے بچوں سے کہہ رہی تھی:’’تم سماج میں بہتر مقام اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتے جب تک سر کے بل کھڑے ہونا نہ سیکھ لو۔‘‘ پھر وہ انہیں کر کے دکھاتی مگر چھوٹی بطخیں اپنی شرارتوں میں مصروف تھیں۔ وہ اتنی چھوٹی تھیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ معاشرے میں رہنے کا کیا فائدہ ہوتاہے۔’’کتنے نافرمان بچے ہیں۔‘‘ چوہے نے کہا۔ ’’یہ ڈوبنے ہی کے مستحق ہیں۔‘‘
’’ایسا نہیں ہے۔‘‘ بطخ نے جواب دیا، ’’ `ہر کسی کو آغاز کرنا ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ والدین سکھانے کے معاملے میں بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ‘‘
’’آہ! میں والدین کے جذبات کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا،‘‘ چوہے نے کہا۔ ’’میرا کوئی خاندان نہیں ہے۔ میں شادی شدہ ہوں نہ ارادہ ہے۔ محبت اپنی جگہ ایک بہترین جذبہ ہے مگر دوستی سے بہتر کوئی جذبہ نہیں۔ درحقیقت، میں دنیا میں ایسی کوئی چیز نہیں جانتا جو مخلص دوستی سے زیادہ بہتر اور نایاب ہو۔‘‘
’’کیا تم مخلص دوست کی تعریف بتاسکتے ہو؟‘‘ پاس والے درخت پر بیٹھی چھوٹی سبز چڑیا نے سوال کیا۔ 
’’ہاں، مَیں بھی یہ جاننا چاہتی ہوں۔‘‘ بطخ نے کہا، اور پھر تیرتی ہوئی تالاب کے دوسرے سرے تک چلی گئی، اور اپنے بچوں کو ایک اچھی مثال دینے کیلئے پھر سر کے بل کھڑی ہو گئی۔
’’یہ احمقانہ سوال ہے!‘‘ چوہے نے کہا۔ ’’میرے مطابق مخلص دوست وہ ہوگا جو صرف میرے لئے وقف ہوگا۔ جو مجھ پر جاں نثار کرنے سے بھی نہیں کترائے گا۔‘‘ 
’’اور تم بدلے میں کیا کرو گے؟‘‘ چھوٹے پرندے نے اپنے چھوٹے چھوٹے پروں کو پھڑپھڑاتے ہوئے سوال کیا۔ ’’میں تمہاری بات نہیں سمجھا۔‘‘ چوہے نے کہا۔ 
’’اس موضوع پر مَیں ایک کہانی سناتی ہوں۔‘‘ سبز چڑیا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’کیا یہ کہانی میرے بارے میں ہے؟‘‘ چوہے نے پوچھا۔ ’’اگر ایسا ہے تو میں اسے ضرور سنوں گا، کیونکہ مجھے کہانیاں سننے کا بڑا شوق ہے۔‘‘ ’’یہ تم پر منحصر ہے کہ تم اسے کیسے سمجھتے ہو۔‘‘ سبز چڑیا نے یہ کہتے ہوئے چوہے کی طرف اڑان بھری اور اس کے قریب آبیٹھی، پھر اس نے ایک جاں نثار دوست کی کہانی سنائی۔ 

’’ہینس‘‘ اور ’’ہیو‘‘ کی کہانی
کسی زمانے میں ہینس نامی ایک ایماندار اور غریب شخص ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ وہ ایک چھوٹی سی جھوپڑی میں تنہا رہتا تھا اور روزانہ اپنے باغ میں کام کرتا تھا۔ گاؤں بھر میں اس کے جیسا کوئی دوسرا خوبصورت باغ نہیں تھا۔ یہاں مختلف قسم کے پھول تھے۔ رنگین گلاب، مہکتے پھولوں کی سوغات، فرانسیسی پودے، اور زرد، بنفشی اور سفید للیاں۔ مہینوں اور موسموں کی مناسبت سے وہ پودوں کو بدلتا تھا، اس طرح اس کے باغ میں بہار آئی رہتی تھی۔ اس کے اطراف کا علاقہ ہمہ وقت معطر رہتا تھا۔
 ہینس کے کئی دوست تھے لیکن جاں نثار دوست ایک ہی تھا جس کا نام ’’ہیو‘‘ وہ مِل مالک (چکی کا مالک) تھا۔ ہیو بہت امیر تھا۔ وہ ہینس کا اتنا اچھا دوست تھا کہ اس کے باغ کے پاس سستائے بغیر اپنے گھر نہیں جاتا تھا۔ اس کے باغ سے اچھی خوشبو والی جڑی بوٹیاں، اور مٹھی بھر بیر بھی جیبوں میں بھر لیا کرتا تھا۔ موسمی پھول تو ہر وقت اس کیلئے دستیاب رہتے تھے۔
’’دوستوں میں سب کچھ مشترک ہونا چاہئے۔‘‘ ہیو کہتا اور ہینس سر ہلا کر مسکرا دیتا۔ ایسے عظیم خیالات کے حامل دوست ہونے پر اسے فخر تھا۔ پڑوسی اکثر کہتے کہ ہیو، ہینس کو بدلے میں کچھ نہیں دیتا حالانکہ اس کی چکی میں آٹے کی سو بوریاں، دودھ دینے والی چھ گائیں اور اونی بھیڑوں کا ذخیرہ ہے مگر ہینس نے ان چیزوں پر کبھی توجہ نہیں دی۔ اسے ہیو کی سچی دوستی پر فخر تھا۔ 
موسم گرما، بہار اور خزاں میں ہینس کی خوشی دیدنی ہوتی۔ وہ دن بھر اپنے باغ میں کام کرتا مگر جب سردیاں آتیں تو بازار میں فروخت کرنے کیلئے اس کے پاس پھول نہیں ہوتے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ سرما میں اسے بھوکے پیٹ سونا پڑتا۔ سردیوں میں اس کی تنہائی مزید بڑھ جاتی تھی کیونکہ اس موسم میں ہیو اس سے ملنے نہیں آتا تھا۔
ہیو اپنی بیوی سے کہتا، ’’جب تک برف رہتی ہے ہینس کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جب ایسا موسم ہو تو لوگوں کے پاس نہیں جانا چاہئے۔ ایسے موسم میں ان کے پاس جانا انہیں پریشان کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ دوستی کے بارے میں کم از کم میرا خیال یہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ میں صحیح ہوں، لہٰذا میں موسم بہار کے آنے تک انتظار کروں گا، اور پھر اس سے ملاقات کیلئے جاؤں گا۔ اس طرح وہ مجھے گلابوں کی ایک بڑی ٹوکری دے سکے گا، ایسا کرنے سے اسے خوشی ملے گی۔‘‘ 
’’آپ دوسروں کا بہت سوچتے ہیں،‘‘ بیوی نے جواب دیا۔ وہ عالیشان آتشدان کے پاس پڑی آرام دہ کرسی پر بیٹھی تھی۔ ’’دوستی کے متعلق آپ کے خیالات جان کر اچھا لگتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پادری بھی آپ جیسی خوبصورت باتیں نہیں کر سکتا۔‘‘ 
’’کیا ہم ہینس کو یہاں نہیں بلاسکتے؟‘‘ ہیو کے چھوٹے بیٹے نے کہا۔ ’’اگر غریب ہینس مشکل میں ہے تو میں اسے اپنا آدھا دلیہ دے دوں گا، اور اسے اپنے سفید خرگوش دکھاؤں گا۔‘‘
’’تم انتہائی بیوقوف لڑکے ہو،‘‘ ہیو نے کہا ’’تمہیں اسکول بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر ہینس یہاں آئے، ہمارا گرم آتشداں، مختلف پکوان اور ملبوسات دیکھے تو حسد میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ حسد ایک انتہائی خوفناک چیز ہے۔ یہ کسی بھی شخص کو برباد کرسکتی ہے اور مَیں ہینس کو حسد میں مبتلا نہیں ہونے دوں گا۔ میں اس کا بہترین دوست ہوں البتہ، وہ بطور قرض مجھ سے آٹا لے سکتا ہے مگر میں اسے آٹا نہیں دوں گا کیونکہ کاروبار ایک طرف اور دوستی ایک طرف ہے۔‘‘
’’آپ بہت اچھی باتیں کرتے ہیں!‘‘ ہیو کی بیوی نے گرم مشروب پیتے ہوئے کہا۔ 
’’بہت سے لوگ اچھا کام کرتے ہیں،‘‘ ہیو نے جواب دیا؛ ’’لیکن بہت کم لوگ اچھی بات کرتے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اچھی بات کرنا ایک فن ہے جبکہ کچھ لوگوں کو بات صرف اس لئے کرنی ہوتی ہے کہ وہ بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے چھوٹے بیٹے کو سخت نگاہوں سے دیکھا، جو اپنی کرسی پر بیٹھا خاصا شرمندہ نظر آرہا تھا۔ 
’’کیا کہانی ختم ہوگئی؟‘‘ چوہے نے سوال کیا۔
سبز چڑیا نے کہا، ’’ابھی تو کہانی شروع ہوئی ہے۔‘‘ 
’’اچھا! مجھے ہیو کا کردار بہت پسند آیا۔ اس کے اور میرے خیالات ایک سے ہیں۔‘‘ چوہے نے کہا۔

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: مجوس کا تحفہ (او ہنری)

سبز چڑیا نے آگے کی کہانی سنائی:
پھر گلابوں کے کھلنے کا موسم آگیا اور ہیو نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ ہینس سے ملنے جائے گا۔ 
’’کتنا اچھا دل ہے آپ کا !‘‘ بیوی نے کہا، ’’آپ ہمیشہ دوسروں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں، اور یاد رکھیں کہ آپ پھولوں کی بڑی ٹوکری ساتھ لے جاتے ہیں۔‘‘ چنانچہ ہیو نے ٹوکری لی اور ہینس کی جھوپڑی کی طرف بڑھ گیا۔’’صبح بخیر، ہینس!‘‘ ہیو نے کہا۔ 
’’صبح بخیر،‘‘ ہینس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔’’تمہارا موسم سرما کیسا رہا؟‘‘ ہیو نے پوچھا۔
’’بالکل ٹھیک،‘‘ ہینس نے خوشدلی سے جواب دیا۔ ’’پوچھنے کیلئے تمہارا شکریہ۔ اب بہار آ گئی ہے، اور میں بہت خوش ہوں، پھول بھی کھل رہے ہیں۔‘‘ 
ہیو نے کہا، ’’ہم سردیوں میں اکثر تمہاری باتیں کرتے تھے۔‘‘ ’’یہ تمہاری اعلیٰ ظرفی ہے، ورنہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں تم مجھے بھول نہ جاؤ۔‘‘ ہینس نے کہا۔ 
’’ہینس! ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ دوستی اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوتی۔ واہ! یہ گلاب کتنے پیارے ہیں!‘‘ ہیو نے بیک وقت دو باتیں کہیں۔ 
’’یقیناً،‘‘ ہینس نے کہا، ’’میری خوش قسمتی ہے کہ اس مرتبہ کافی پھول کھلے ہیں جنہیں بازار میں فروخت کرکے مَیں اپنی ہاتھ ریڑھی دوبارہ خریدلوں گا۔‘‘ 
’’کیا تم نے اپنی ہاتھ ریڑھی بیچ دی؟ یہ تم نے ایک احمقانہ کام کیا ہے!‘‘
’’مجھے معلوم ہے،‘‘ ہینس نے کہا، ’’مجھے مجبوراً بیچنی پڑی۔ تمہیں معلوم ہے کہ موسم سرما میرے لئے سخت ہوتا ہے۔ میرے پاس روٹی خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ اس لئے مَیں نے چاندی کے بٹن والے کوٹ کے بٹن بیچ دیئے، پھر چاندی کی زنجیر، پھر بڑا پائپ اور آخر میں ہاتھ ریڑھی مگر اب مَیں یہ سب دوبارہ خریدوں گا۔‘‘ 
’’ہینس!‘‘ ہیو نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا، ’’میں تمہیں اپنی ہاتھ ریڑھی دوں گا جو بہت اچھی حالت میں نہیں ہے؛ مختلف جگہوں سے ٹوٹ گئی ہے لیکن اس کے باوجود میں تمہیں دوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ مجھے بہت عزیز ہے اور دنیا جانتی ہے کہ میں اسے اپنے سے الگ نہیں کرسکتا لیکن تمہارے لئے میں ایسا کروں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سخاوت ہی دوستی کا نچوڑ ہے، اورمیں نے اپنے لئے ایک نئی ہاتھ ریڑھی لے لی ہے۔‘‘ 
’’یہ تمہاری سخاوت ہے،‘‘ ہینس نے کہا۔ اس کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ ’’میں بآسانی اس کی مرمت کر لوں گا۔ میرے پاس لکڑی کا ایک تختہ ہے۔‘‘
’’لکڑی کا تختہ!‘‘ ہیو نے چونک کر کہا۔ ’’میرے گودام کی چھت کیلئے مجھے ایک تختہ درکار ہے۔ چھت میں سوراخ ہوگیا ہے۔ اگر میں نے اسے بند نہیں کیا تو میری مکئی گیلی ہو جائے گی۔ خوش قسمتی سے تم نے تختہ کا ذکر کیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کس طرح ایک اچھا عمل دوسرے اچھے عمل کو جنم دیتا ہے۔ میں نے تمہیں اپنی ہاتھ ریڑھی دی اور اب تم مجھے اپنا تختہ دے رہے ہو۔ یقیناً، ہاتھ ریڑھی کی قیمت تختے سے کہیں زیادہ ہے مگر سچی دوستی میں ایسی چیزیں آڑے نہیں آتیں۔‘‘

دوسرا حصہ
’’یقیناً،‘‘ اور پھر ہینس اپنے ٹوٹے پھوٹے سائبان سے تختہ نکال لایا۔ 
ہیو نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’یہ زیادہ بڑا نہیں ہے، اگر میرے گودام کی چھت اس سے ٹھیک ہوگئی تو تمہارے پاس کا ایک بھی ٹکڑا نہیں نہیں بچے گا اور تم اپنی ہاتھ ریڑھی کی مرمت نہیں کر سکوگے۔ مگر اس میں میری کوئی غلطی نہیں ہے۔ اب جیسا کہ میں نے تمہیں اپنی ہاتھ ریڑھی دے دی ہے تو مجھے یقین ہے کہ تم مجھے اس کے بدلے میں کچھ پھول بھی دینا چاہو گے۔ یہ رہی ٹوکری۔ مجھے یقین ہے کہ تم اسے پوری طرح بھردوگے۔‘‘ 
’’کافی بڑی ٹوکری ہے،‘‘ ہینس نے افسوس سے کہا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے اسے بھر دیا تو اس کے پاس بازار میں فروخت کرنے کیلئے کوئی پھول نہیں بچے گا، اور وہ اپنے چاندی کے بٹن واپس لینے کیلئے بہت بے چین تھا۔
’’ٹھیک ہے،‘‘ ہیو نے جواب دیا، ’’میں نے تمہیں اپنی ہاتھ ریڑھی دی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ تم سے چند پھول مانگ کر میں زیادتی کررہا ہوں۔ میں غلط ہو سکتا ہوں، لیکن مجھے یہ سوچنا چاہئے تھا کہ دوستی، سچی دوستی، کسی بھی قسم کی خود غرضی سے پاک ہے۔‘‘
’’میرے پیارے دوست، میرے سب سے اچھے دوست،‘‘ ہینس نے کہا، ’’میرے باغ کے تمام پھول تم پر قربان۔ میں اپنے چاندی کے بٹن کبھی اور خرید لوں گا۔‘‘ پھر اس نے ہیو کی بڑی ٹوکری پھولوں سے بھر دی۔
’’الوداع، ہینس۔‘‘ ہیو نے کہا اور اپنے کندھے پر تختہ اور ہاتھ میں بڑی ٹوکری لئے اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔ 
’’الوداع،‘‘ ہینس نے کہا۔ وہ ہیو کی جانب سے ملنے والی ٹوٹی ہوئی ہاتھ ریڑھی کے متعلق بہت خوش تھا۔
 اگلے دن وہ پورچ کے سامنے باغبانی کررہا تھا کہ اس نے سڑک پر ہیو کی آواز سنی۔ وہ سیڑھی سے چھلانگ لگا کر باغ کی طرف بھاگا۔ `وہاں ہیو تھا جس کی پیٹھ پر آٹے کی ایک بڑی بوری تھی۔
ہیو نے کہا، ’’پیارے ہینس! کیا تم یہ آٹے کی بوری بازار تک لے جاسکوگے؟‘‘ 
’’اوہ، میں معذرت خواہ ہوں،‘‘ ہینس نے کہا، ’’ میں آج بہت مصروف ہوں۔ مجھے باغ میں بہت سے کام کرنے ہیں۔‘‘ 
 ’’ٹھیک ہے،‘‘ ہیو نے کہا، ’’میرا خیال ہے کہ اب جبکہ مَیں اپنی ہاتھ ریڑھی تمہیں دینے جارہا ہوں تمہارا انکار کرنا غیر دوستانہ ہے۔‘‘
’’اوہ، ایسا مت کہو،‘‘ ہینس نے کہا، ’’میں تمہارے ساتھ ایسا نہیں کرسکتا۔‘‘ پھر وہ اپنے سر پر ٹوپی جما کر آٹے کی بوری کندھوں پر اٹھا کر بازار کی طرف بھاگا۔ 
دھوپ زبردست تھی۔ سڑکوں پر دھول اُڑ رہی تھی۔ ہینس تھک گیا لیکن بازار پہنچ کر ہی دم لیا۔ وہاں کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد اس نے آٹے کی بوری اچھی خاصی قیمت میں بیچی اور پھر فوراً گھر لوٹ آیا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ اگر دیر ہوگئی تو راستے میں کوئی اسے لوٹ نہ لے۔ 
ہینس نے سوچا کہ ’’آج کا دن بڑا سخت تھا مگر خوشی اس بات کی ہے کہ میں نے اپنے دوست کو ناراض نہیں کیا۔ وہ میرا سب سے اچھا دوست ہے۔ وہ مجھے اپنی ہاتھ ریڑھی دینے والا ہے۔‘‘ 
اگلی صبح ہیو پیسے لینے کیلئے آیا مگر ہینس اتنا تھکا ہوا تھا کہ اب تک سو رہا تھا۔ 
ہیو کو یہ پسند نہیں آیا، وہ کہنے لگا، ’’تم بہت سست ہو۔ یہ سوچ کر کہ میں تمہیں ہاتھ ریڑھی دینے جارہا ہوں، مجھے لگتا تھا کہ تم شاید زیادہ محنت کرو۔ سستی بہت بڑا گناہ ہے، اور میں یقیناً اسے پسند نہیں کرتا۔ میرے کسی بھی دوست کو بیکار یا سست نہیں ہونا چاہئے۔ تمہیں میرے اس طرح صاف صاف بات کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ ایک مطلب پرست دوست تمہیں خوش کرنے کیلئے دلکش باتیں کہہ سکتا ہے مگر ایک سچا دوست ناگوار باتیں بھی کہتا ہے تاکہ وہ اپنے دوست کو درست راہ دکھا سکے۔‘‘
’’میں معذرت خواہ ہوں،‘‘ ہینس نے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا، ’’لیکن میں اتنا تھکا ہوا تھا کہ میں نے سوچا کہ تھوڑی دیر کیلئے بستر پر لیٹ کر پرندوں کی چہچہاہٹ سن لوں۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے، کوئی بات نہیں۔‘‘ ہیو نے اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ ’’مَیں چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ میرے گھر چلو تاکہ میرے گودام کی چھت ٹھیک کرسکو۔‘‘ 
بیچارہ ہینس اپنے باغ میں کام کرنے کیلئے بے چین تھا کیونکہ اس کے پھولوں کو دو دن سے پانی نہیں ملا تھا لیکن وہ ہیو کو انکار کرنا پسند نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ اس کا بہت اچھا دوست تھا۔
’’کیا تمہیں لگتا ہے کہ اگر میں کہوں کہ میں مصروف ہوں تو یہ غیر دوستانہ ہوگا؟‘‘ اس نے شرمیلی اور ڈرپوک آواز میں پوچھا۔
’’ٹھیک ہے،‘‘ ہیو نے جواب دیا،’’مجھے نہیں لگتا کہ میں تم سے زیادہ مانگ رہا ہوں کیونکہ میں تمہیں اپنی ہاتھ ریڑھی دینے والا ہوں لیکن اگر تم انکار کروگے تو میں خود جا کر چھت کی مرمت کرلوں گا۔‘‘ 
’’اوہ! کوئی بات نہیں،‘‘ ہینس نے کہا۔ بستر سے چھلانگ لگا کر کپڑے پہنے اور ہیو کے گودام چلا گیا۔
`اس نے سارا دن وہاں کام کیا، غروب آفتاب تک، اور غروب آفتاب کے وقت ہیو یہ دیکھنے آیا کہ کام کیسا چل رہا ہے۔
’’کیا چھت ٹھیک نہیں ہوئی؟‘‘ ہیو نے خوشگوار آواز میں پکارا۔
’’یہ کافی حد تک ٹھیک ہو گئی ہے،‘‘ ہینس نے سیڑھی سے نیچے آتے ہوئے جواب دیا۔
’’آہ!‘‘ ہیو نے کہا، ’’دنیا کا سب سے خوشگوار کام دوسروں کے کام آنا ہے۔‘‘ 
’’تمہاری اس قسم کی باتیں سننا کسی اعزاز سے کم نہیں۔‘‘ ہینس نے جواب دیا۔ پھر وہ نیچے بیٹھ گیا اور پیشانی پر آئے پسینے کو پونچھتے ہوئے کہنے لگا، ’’مجھے لگتا ہے کہ تمہارے جیسے خوبصورت خیالات میرے کبھی نہیں ہوسکتے۔‘‘
’’اوہ! تم بھی اچھی باتیں کرنے لگوگے، فکر مت کرو۔ مگر اس کیلئے تمہیں مزید تکلیفیں اٹھانا ہوں گی۔ فی الحال تم صرف دوستی نبھا سکتے ہو۔‘‘ ہیو نے کہا۔ 
’’کیا تم واقعی سوچتے ہو کہ میرے خیالات اتنے زرین ہوں گے؟‘‘ ہینس نے پوچھا۔
’’مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے،‘‘ ہیو نے جواب دیا۔ ’’لیکن اب جبکہ تم نے چھت ٹھیک کر لی ہے تو بہتر ہے کہ گھر جا کر آرام کرو، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ تم کل میری بھیڑوں کو پہاڑوں پر چرانے کیلئے لے جاؤ۔‘‘بیچارہ ہینس کچھ کہنے سے ڈرتا تھا۔ 
اگلی صبح ہیو اپنی بھیڑوں کے ساتھ آگیا اور ہینس انہیں لے کر چرا گاہ کی طرف نکل گیا۔ اس کا پورا دن وہاں صرف ہوگیا۔ واپس آیا تو اتنا تھکا ہوا تھا کہ اپنی کرسی ہی پر سوگیا اور پھر صبح سورج اچھی طرح نکلنے کے بعد ہی اس کی آنکھ کھلی۔ 
 ’’آج کا دن میرے باغ میں گزارنا خوشگوار ہوگا،‘‘ اس نے خود کلامی کی اور کام میں لگ گیا۔ 
`لیکن وہ اپنے باغ اور پھولوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے سے قاصر تھا کیونکہ ہیو کسی نہ کسی بہانے سے ہمیشہ اس کے پاس آتا اور اپنے کام ہینس سے کرواتا۔ کام کی نوعیت ایسی ہوتی کہ ہینس کا پورا دن ہیو کا کام کرنے ہی میں نکل جاتا۔ وہ اکثر سوچتا کہ اس طرح اس کا باغ تباہ ہوجائے گا لیکن اپنے دل کو تسلی دیتا کہ ہیو اس کا اچھا دوست ہے۔ اس کی مدد کرنا بھی میرا فرض ہے۔ وہ مجھے اپنی ہاتھ ریڑھی دینے والا ہے۔ اس جیسا سخی دنیا میں شاید ہی کوئی ہے۔ اس کے عوض مَیں ہیو کے تھوڑے کام تو کرہی سکتا ہوں۔ 

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا ترجمہ: معمر پری زاد (گیبرئیل گارسیا مارکیز)

ہینس، ہیو کیلئے کام کرتا رہا، اور اس نے دوستی کے متعلق ہر طرح کی خوبصورت باتیں ہینس کو کہیں جنہیں ہینس نے ایک نوٹ بک میں لکھ لیا۔ وہ انہیں رات میں پڑھا کرتا تھا۔ 
ایک شام ہینس آتشداں کے قریب بیٹھا تھا کہ کسی نے دروازے پر زوردار دستک دی۔ باہر تیز ہوا چل رہی تھی۔ آج طوفان آنے والا تھا۔ اسی دوران دوسری اور پھر تیسری دستک ہوئی جو کافی تیز تھی۔ 
’’ شاید کوئی مسافر ہے،‘‘ ہینس نے سوچا اور دروازے کی طرف دوڑا۔ 
دروازے پر ہیو ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے ہاتھ میں لمبی چھڑی لئے کھڑا تھا۔
’’پیارے ہینس!‘‘ ہیو نے پکارا، ’’میں بڑی مصیبت میں ہوں، میرا چھوٹا بیٹا سیڑھی سے گر گیا ہے۔ میں ڈاکٹر کے پاس جا رہا ہوں لیکن وہ بہت دور رہتا ہے، اور آج کی رات کافی خطرناک ہے۔ گھر پر رہنا بھی ضروری ہے۔ تبھی خیال آیا ہے کہ اگر میرے بجائے تم ڈاکٹر کو لینے چلے جاؤ تو بہتر ہو گا۔ تم جانتے ہو کہ میں تمہیں اپنی ہاتھ ریڑھی دینے والا ہوں، اور اس کے بدلے میں تم میرے لئے اتنا تو کر ہی سکتے ہو۔‘‘ 
’’یقیناً،‘‘ ہینس نے کہا، ’’مَیں ابھی گھر سے نکلتا ہوں اور فوراً اسے لے کر تمہارے گھر پہنچتا ہوں لیکن تم مجھے اپنی لالٹین دے دو تاکہ اندھیرے میں مَیں کہیں کسی کھائی میں نہ گر جاؤں۔‘‘ 
ہیو نے جواب دیا، ’’میں معذرت خواہ ہوں۔ یہ میری نئی لالٹین ہے، اگر یہ خراب ہوگئی تو میرا بڑا نقصان ہوجائے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، کوئی بات نہیں، میں اس کے بغیر جاتا ہوں۔‘‘ ہینس نے کہا، پھر اس نے اپنا فر کوٹ، اور اپنی گرم سرخ رنگ کی ٹوپی اتار دی، اور گلے میں مفلر باندھ کر نکل پڑا۔ 
طوفان بہت خوفناک تھا! رات اتنی سیاہ تھی کہ ہینس بمشکل کچھ دیکھ سکتا تھا۔ ہوا اتنی تیز تھی کہ وہ مشکل سے اپنے قدم رکھ پارہا تھا۔ بہرحال وہ بہت ہمت والا تھا، اور تقریباً تین گھنٹے پیدل چلنے کے بعد وہ ڈاکٹر کے گھر پہنچا، اور دروازے پر دستک دی۔
’’کون ہے ؟‘‘ ڈاکٹر نے اپنے بیڈ روم کی کھڑکی سے سر نکال کر پکارا۔
’’ہینس، ڈاکٹر۔‘‘
’’تمہیں کیا چاہئے، ہینس؟‘‘ 
’’ہیو کا بیٹا سیڑھی سے گرگیا ہے، اسے زبردست چوٹیں آئی ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ مَیں تمہیں لے کر فوراً اس کے گھر پہنچوں۔‘‘ 
’’ٹھیک ہے!‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔ پھر اس نے اپنے گھوڑے، اپنے بڑے جوتے، اور اپنی لالٹین منگوائی، اور نیچے آیا، اور ہیو کے گھر کی سمت روانہ ہوا۔ ہینس اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔
 لیکن طوفان کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ ہینس کو نظر نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ آخر کار وہ راستہ بھول گیا۔ دفعتاً اس کا پاؤں پھسلا اور وہ ایک گہرے گڑھے میں جاگرا۔ گڑھے میں اس قدر کیچڑ اور پانی بھرا تھا کہ ہینس اس سے نکل ہی نہیں سکا اور ڈوب گیا۔ 
اگلے دن کچھ چرواہوں نے اس کی لاش تیرتی ہوئی پائی۔ وہ اسے اس کی چھوٹی جھوپڑی میں لے آئے۔ `ہر کوئی ہینس کے جنازے میں شریک تھا کیونکہ وہ بہت مشہور اور سبھی کے کام آنے والا ایک ملنسار شخص تھا۔ سب سے زیادہ غمگین ہیو نظر آرہا تھا۔ 
’’چونکہ میں اس کا سب سے اچھا دوست تھا،‘‘ ہیو نے کہا،’’اس لئے جنازے میں مجھے بہترین جگہ ملنی چاہئے۔‘‘ چنانچہ وہ ایک لمبا سیاہ چادر پہنے جنازے کے بالکل سرہانے کھڑا ہوگیا اور بار بار ایک بڑے رومال سے اپنی آنکھیں پونچھتا رہا۔
’’ہینس کی موت پورے گاؤں کیلئے بڑا نقصان ہے،‘‘ لوہار نے کہا۔ جب ہینس کو دفن کردیا گیا تو سبھی ایک سرائے میں بیٹھ کر مشروبات اور میٹھے پکوانوں سے لطف اندوز ہونے لگے۔ 
ہیو کہنے لگا، ’’سب سے بڑا نقصان میرا ہوا ہے۔ مَیں اسے ہاتھ ریڑھی نہیں دے سکا اور اب اس کا کیا کرنا ہے مجھے نہیں معلوم۔ یہ میرے سینے پر ایک بوجھ ہے۔ اگر مَیں نے اسے فروخت کردیا تو آئندہ اس بات کا خیال رکھوں گا کہ کسی کو دوبارہ کوئی چیز نہ دوں۔ سخی آدمی کو سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
’’اچھا؟‘‘ چوہے نے ایک طویل توقف کے بعد کہا۔
’’کہانی ختم ہوگئی۔‘‘سبز چڑیا نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔
’’لیکن ہیو کا کیا ہوا؟‘‘ چوہے نے پوچھا۔ 
’’اوہ! مَیں نہیں جانتی۔‘‘ چڑیا نے جواب دیا، ’’اور مجھے اس کی پرواہ بھی نہیں ہے۔‘‘ 
چوہے نے کہا، ’’ اس بات سے سمجھ میں آتا ہے کہ تم میں ہمدردی نام کو بھی نہیں ہے۔‘ ‘
’’اوہ! مجھے لگتا ہے کہ تم کہانی کا سبق ہی نہیں سمجھ سکے۔‘‘ چڑیا نے اس کی بات پر جواب دیا۔
’’کیا؟‘‘ چوہا چیخا۔’’کیا تم کہنا چاہتی ہوں کہ اس کہانی میں کوئی سبق بھی ہے؟‘‘ 
’’یقیناً!‘‘ چڑیا نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ چوہے نے غصے سے کہا، ’’میرا خیال ہے کہ تمہیں یہ بات کہانی سنانے سے پہلے بتانی چاہئے تھی۔ اگر تم ایسا کرتی تو میں یقیناً تمہاری بات سمجھ پاتا۔‘‘ اس نے غصے سے اپنی لمبی دُم ہلائی اور اپنے بل میں گھس گیا۔
’’تمہیں چوہا کیسا لگتا ہے؟‘‘ سبز چڑیا نے بطخ سے پوچھا جو کچھ دیر بعد تیرتی ہوئی ان کے پاس آگئی تھی۔ 
’’اس کے بعض خیالات اچھے ہیں لیکن مَیں ایک ماں ہوں۔ اس لئے مَیں اس کی ہر بات کو درست نہیں مان سکتی۔‘‘
’’مجھے لگتا ہے کہ مَیں نے اسے ناراض کردیا ہے۔‘‘ سبز چڑیا نے جواب دیا۔ ’’لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے اسے ایک اخلاقی اور سبق آموز کہانی سنائی ہے۔‘‘
’’آہ!‘‘ بطخ نے کہا،’’آج کی دنیا میں اخلاقی کہانیاں سنانا بہت خطرناک ہے۔‘‘ 
اور مَیں اس کی بات سے متفق ہوں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK