• Sat, 07 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ریچھنی کا پیار

Updated: September 16, 2023, 12:53 PM IST | MK Pasha | Mumbai

ایک شخص اپنی ساتھی کے ساتھ دریا کنارے شکار کے لئے جاتا ہے۔ وہاں اُسے ایک ریچھنی اور اس کے دو بچے نظر آتے ہیں۔ اس شخص کو ریچھنی کے بچے پیارے لگتے ہیں اور وہ اسے پکڑنے کا منصوبہ بناتا ہے، پھر کیا ہوا؟ یہ جاننے کیلئے پڑھئے دلچسپ کہانی:

Photo. INN
تصویر:آئی این این

ایک دن میں اراکیؔ کے ساتھ، جو رکشا چلاتا تھا، شکار کیلئے دریائے تویاما گیا۔ راستے میں میست سوشی گاؤں میں ہم ایک رات کیلئے ٹھہرے۔ ہم جس سرائے میں ٹھہرے، وہاں ایک ریچھ کا بچہ کتے کی طرح زنجیر سے بندھا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں لکڑی کی ڈنڈی تھی جس کو وہ زمین پر بار بار مار رہا تھا۔ اس کا بھولا بھالا چہرہ اور حرکتیں جانوروں کی طرح نہیں بلکہ شریر انسانی بچوں کی طرح معلوم ہوتی تھیں ۔ اس کی یہ حرکتیں اتنی پیاری تھیں کہ میں اسے شوق سے دیکھنے لگا تو پیچھے کھڑے اراکی نے کہا، ’’صاحب! ہوسکتا ہے کہ دریائے تویاما کی وادی میں ہمیں بھی ایسا کوئی ریچھ مل جائے۔‘‘ ہم ۱۰؍ دنوں کیلئے کھانے کا ذخیرہ لیکر دریائے تویاما کے بہاؤ کے اوپر والے حصے پر دور تک گئے۔ ہمیں چٹانوں کے درمیان ٹھہرنے کیلئے ایک محفوظ جگہ مل گئی۔ تیسرے دن اچانک دریا کے کنارے سے اراکی کی آواز آئی، ’’صاحب! ادھر آیئے!‘‘ ’’کیا ہوا؟ یہ سوچتے ہوئے مَیں جلدی سے چٹان سے اتر کر اس کی طرف گیا۔ پنجوں کے بڑے بڑے نشان تھے جو ریچھ کے پنجے کے تھے۔ اراکی نے اپنی انگلیوں سے ان نشانات کو ناپتے ہوئے کہا، ’’یہ ایک بہت بڑی ریچھنی کے پنجوں کے نشانات ہیں ۔‘‘ ’’ریچھ کا بچہ بھی ساتھ ساتھ آیا ہوگا۔‘‘ مَیں نے کہا۔’’جی! بچے تو دو ہیں ۔‘‘ اراکی نے نشانات کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’کل رات جب ہم سو رہے تھے، تب یہ ریچھنی اپنے بچوں کے ساتھ یہاں سے گزر کر دریا کے اوپر والے حصے کی طرف گئی ہوگی!‘‘ مَیں نے کہا ’’میرا دل چاہتا ہے کہ ریچھ کا بچہ پکڑیں ۔‘‘ اراکی نے سنجیدہ چہرہ بنا کر کہا۔ ’’مگر یہ کام اپنی جان خطرے میں ڈال کر کرنا ہوگا۔‘‘ مَیں نے یہ سن کر اس خطرناک کام کو زیادہ ذوق شوق سے کرنا چاہا اور کہا، ’’سنو، اراکی! میری مدد کرو! زیادہ پیسے دوں گا۔‘‘ مگر اراکی جواب دیئے بغیر اپنی مٹھی سے پیشانی رگڑ رہا تھا۔ ایک دن صبح سویرے جب میں اس جگہ سے نکلا تو اراکی کی ہلکی ہلکی آواز آئی، ’’صاحب! صاحب!‘‘ اراکی دریا کے اوپر والے حصے کی طرف انگلی سے اشارہ کر رہا تھا۔ جیسے ہی میں نے اس طرف دیکھا، بے اختیار میرے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی، ’’واہ!‘‘ تیزی سے بہتے ہوئے دریا کے دوسرے کنارے پر ایک بہت بڑی ریچھنی آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ یہ میرے لئے پہلا موقع تھا کہ میں نے ایک جنگلی ریچھنی کو دیکھا۔ ’’یہ کل رات والی ریچھنی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ میری توجہ پہلے صرف بڑی ریچھنی کی طرف تھی۔ اراکی کی بات سن کر غور سے دیکھا تو بڑی ریچھنی کے پیچھے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی آہستہ آہستہ چلے جا رہے تھے۔ وہ اتنے چھوٹے تھے کہ ایک ہاتھ سے پکڑے جاسکتے تھے۔
 آسمان پر صبح کا اجالا نمودار ہو رہا تھا اور وادی پر ہلکی گلابی سی روشنی پھیل رہی تھی۔ اچانک بڑی ریچھنی اپنے پچھلے دو پیروں پر کھڑی ہوگئی۔ ریچھنی نے اپنے سامنے پڑی ایک بڑی چٹان دونوں ہاتھوں سے اٹھا لی تو اس کے دونوں بچے ایک دوسرے سے لڑتے اور لڑھکتے ہوئے چٹان کے نیچے چلے گئے اور کچھ ڈھونڈ کر شوق سے کھانے لگے۔ اراکی نے کہا، ’’کیکڑے ہیں .... کیکڑے کھا رہے ہیں ۔‘‘ بڑی ریچھنی نے اردگرد پانچ چھ چٹانیں باری باری اٹھائیں اور بچے ان کے نیچے کے کیکڑے کھاتے رہے۔ پھر ریچھنی تیزی سے پہاڑ پر اوپر کی طرف چڑھنے لگی۔ شایدوہ تھک گئی تھی یا اس نے سوچا ہوگا کہ اتنے کیکڑے بچوں کے لئے کافی ہیں ۔ وہ اپنے بچوں کو لے کر آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔
 پہاڑوں کے دامن میں ایک دریائی میدان تھا۔ ہم مچھلی پکڑنے کی چھڑی تو کندھے پر رکھ کر میدان کے سیدھی جانب مڑے تو حیران ہو کر رک گئے۔ میدان میں تقریباً دس میٹر آگے وہ ریچھنی لیٹی ہوئی دکھائی دی۔ شاید وہ سو رہی تھی۔ اس کے دونوں بچے آپس میں سر سے سر ملا کر دودھ پی رہے تھے۔ ہم اتنی احتیاط سے وہاں سے ہٹ گئے کہ ذرا سی آہٹ بھی پیدا نہ ہوئی اور پھر شمشاد کے ایک درخت پر چڑھ گئے۔ شمشاد کی ایک شاخ پہاڑوں کے اوپر سے دریا کے درمیان کی طرف پھیلی ہوئی تھی۔ ہم نے سوچا کہ اس شاخ پر سے چھپ کر ریچھوں کو زیادہ غور سے دیکھیں ۔ ریچھ کے ایک بچے نے سر اُٹھایا اور اپنا ایک ہاتھ اُٹھا کر دوسرے بھائی کے سر پر تھپڑ مار دیا۔ وہ بھی اپنے بھائی کی طرف جھپٹا۔ ریچھ کے دونوں بچے کشتی لڑتی ہوئے بچوں کی طرح ایک دوسرے پر جھپٹتے ہوئے لڑھکنے لگے۔ ریچھنی تو اپنے بچوں کو نظرانداز کئے سو رہی تھی۔ کشتی لڑتے اور ساتھ ہی ایک کیکڑے کے پیچھے دوڑتے ہوئے دونوں بچے اپنی ماں سے چودہ پندرہ میٹر دور چلے گئے۔ ایک بچہ اچانک پریشان ہوگیا اور جلدی سے اپنی ماں کی طرف واپس چلا گیا۔ لیکن دوسرا بچہ جو شاید بہادر تھا، آرام سے دریا کے کنارے ٹہلنے لگا۔
 ’’اب تو ہم یقیناً ریچھ کا بچہ پکڑ سکیں گے۔‘‘ مَیں نے اراکی سے کہا جو درخت کی شاخ پر میرے قریب بیٹھا ہوا تھا۔ ’’نہیں ! ایسا کرنا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔‘‘ ’’مگر ریچھنی تو سو رہی ہے، بالکل جیسے مر گئی ہو۔‘‘ اراکی نے خاموشی سے اپنا سر ہلایا۔ پھر اس نے جیب سے اخروٹ نکالے اور شاخ پر کھڑے ہو کر ان کو ریچھ کے بچے کی طرف پھینک دیا۔ دو تین اخروٹ بہتے ہوئے دریا میں ایک آواز کے ساتھ گرے لیکن چند اخروٹ بچے کے قریب والی چٹان سے جا ٹکرائے۔ اتنی زور دار آواز تو نہ تھی مگر اس ریچھ کے بچے کیلئے یہ آواز عجیب سی تھی۔ وہ محتاط ہوگیا اور کوں کوں کرتا ہوا اپنے قریب والی چٹان پر چڑھ گیا۔ بچوں کے شور کے باوجود ریچھنی سو رہی تھی۔ نہ جانے پھر اُسے کیا محسوس ہوا کہ اچانک اٹھ گئی۔ ہلکی مگر خوفناک آواز سے غرا کر اس بچے کے قریب والی چٹان تک پہنچی اور اردگرد غور سے دیکھنے لگی۔ ہم سانس روکے بیٹھے تھے۔ ریچھنی نے کوئی عجیب چیز نہیں دیکھی مگر اس نے اپنے نتھنے پھیلائے اور اسے ایسا لگا جیسے یہ جگہ مناسب نہیں ہے۔ وہ اپنے بچوں کو لے کر دریا کے اوپر والے حصے کی طرف چلی گئی۔
 اراکی نے ہلکی آواز سے کہا، ’’صاحب! اب ہم ریچھ کے بچے کو پکڑ سکیں گے، جلدی آیئے۔‘‘ اراکی ریچھنی سے بہت ڈرتا تھا مگر وہ بے خوفی سے دوڑتا ہوا آیا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ ’’وہ ریچھ کا بچہ اکیلے کھیل رہا ہے۔ اس کے قریب ریچھنی نظر نہیں آرہی۔ اگر آپ اس بچے کو پکڑنا چاہتے تو اسے ابھی پکڑنا ہوگا۔‘‘ ’’اچھا! چلو۔‘‘ میں اپنی چھڑی پھینک کر اراکی کے پیچھے چلا۔ اس دن ہم معمول کے بجائے تقریباً تین کلو میٹر دریا کے اوپر والے حصہ تک آئے تھے۔ پانچ چھ میٹر آگے ایک بڑا آبشار تھا جہاں اس دریا کا آخری سرا تھا۔ریچھ کا بچہ اس آبشار کے نیچے والے میدان میں نہ جانے اکیلا کیسے کھیل رہا تھا۔ اراکی میرے چہرے کو دیکھ کر مسکرایا۔ ہم نے ایک منصوبہ بنایا کہ اس بچےکو آبشار کی طرف لے جاکر پکڑیں ۔ ریچھ کا بچہ صورت دیکھتے ہی جلدی سے دشوار گزار پہاڑوں کی طرف بھاگنے لگا۔ اگر وہ چٹانوں کے پیچھے بھاگ گیا تو اس کو پکڑنا مشکل تھا۔ اس لئے ہم نے پتھروں اور درخت کی چھوٹی شاخوں کو پہاڑی راستے کی طرف پھینکا تاکہ بچہ اس طرف نہ جاسکے۔ وہ لڑھکے ہوئے چل رہا تھا، مگر ادھر اُدھر دوڑتے ہوئے ہمارے ہاتھوں سے بڑی صفائی سے بچتا جا رہا تھا، لیکن ہم نے اپنے منصوبے کے مطابق آہستہ آہستہ اُسے آبشار کی طرف بھگایا۔ عین اسی وقت ریچھنی کے غرانے کی آواز آئی۔
 ہم حیران ہوگئے اور ہمارے پسینے چھوٹ گئے، مگر دوسرے ہی لمحے بے اختیار ہمارے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ اس لئے کہ وہ ریچھنی تو اس چٹان پر کھڑی تھی جس سے آبشار بہت تیزی سے گر رہا تھا۔ آبشار کی اونچائی تقریباً تیس میٹر تھی اور اس کے اطراف میں خطرناک اور نوک دار چٹانیں تھیں ۔ اس کے علاوہ آبشار کے نچلے حصے میں ہر طرف بڑی بڑی چٹانیں نظر آرہی تھیں ۔ اگر وہ اوپر سے اچھل کر گر گئی تو مر جائے گی۔ ادھر پہاڑی راستہ بہت لمبا تھا۔ اس راستے سے نیچے آنے میں وقت لگتا تھا۔
 ریچھنی کا بچہ تو اپنی ماں کی آواز سنتے ہی دریا کے کنارے ایک اخروٹ کے درخت پر تیزی سے چڑھ گیا۔ شاید ریچھنی نے اسے کوئی اشارہ کیا ہو۔ مجھے اس وقت پتہ چلا کہ ریچھ کا بچہ اتنی آسانی سے درخت پر چڑھ سکتا ہے۔ وہ بچہ درخت کی سب سے اونچی شاخ پر چڑھ گیا۔ اب اسے پکڑنا پہلے کے مقابلے میں نسبتاً آسان ہوگیا تھا۔ ہم دونوں اس کو پکڑنے کے لئے اس اخروٹ کے درخت پر چڑھنے لگے۔
 ’’صاحب! اب کام آسان ہوگیا ہے۔‘‘ اراکی نے خوشی سے کہا۔ ریچھ کا بچہ اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس شاخ پر شدید غمگین آواز میں کوں کوں کرنے لگا۔ اچانک ہم چیخ کر درخت کے اوپر سے گر گئے۔ پھر ہم پہاڑی کے دامن میں شمشاد کے بڑے درخت پر چڑھنے لگے۔ چونکہ آبشار کی آواز سے زیادہ بھاری آواز ہمارے قریب سے آئی اور ہمیں ایسا لگا جیسے وہ چٹان ٹوٹ گئی ہو۔ ہم نے سوچا کہ شاید کوئی اور ریچھ آگیا ہے مگر وہ ریچھنی کے غرانے کی ہولناک آواز تھی۔ ریچھنی آبشار کے اوپر والی چٹان پر کھڑی ہمیں غور سے دیکھ رہی تھی۔
 مَیں نے اس سے پہلے اتنی ہولناک آواز نہیں سنی تھی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔ اسی وقت ریچھنی فضا میں اچھلی اور چٹان سے غائب ہوگئی۔ وہ آبشار کے اوپر سے خود ہی نیچے گر گئی۔ دھڑام.... زور دار آواز کے ساتھ پانی کی شدید بوچھاڑ اوپر اٹھی اور ریچھنی آبشار میں ڈوب گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھر نمودار ہوئی اور بغیر تیرتے ہوئے پانی کے تیز بہاؤ سے بمشکل دریا کے کنارے تک پہنچی۔ وہ خاص نڈھال نظر آرہی تھی۔ اس نے اپنا سر ایک چٹان پر رکھ دیا۔ بے چاری شاید مر گئی ہے، مجھے اور اراکی کو بہت زیادہ صدمہ ہوا۔ ہم اپنے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکال سکے۔ آہستہ آہستہ اندھیرا پھیلنے لگا مگر ہمارا دل نہ چاہ رہا تھا کہ وہاں سے رخصت ہوں ۔ ہم کافی دیر تک اس ریچھنی کو دیکھتے رہے۔ اچانک ریچھنی اپنے جسم کو حرکت دینے لگی۔
 ’’اوہو!‘‘ یہ تو زندہ ہے۔ اراکی بڑی خوشی سے چلّایا۔ مَیں صرف جی جی کہتے ہوئے سر کو ہلا رہا تھا کیونکہ اگر مَیں زیادہ زور سے کچھ اور کہتا تو شاید آنکھوں سے آنسو گرنے لگتے۔ ریچھنی نے آہستہ سے اپنے سر کو ہلایا اور پھر انگڑائی لیتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو آگے کی طرف پھیلا دیا۔ ریچھنی اٹھی مگر پھر بے بسی سے بیٹھ گئی۔ یہ حرکت دو تین دفعہ دہرا کر آخر وہ ٹھیک ٹھاک اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی۔ جب ریچھنی اٹھ گئی تو ریچھ کا بچہ اخروٹ کے درخت سے اتر کر ماں کے پاس پہنچ گیا اور ریچھنی سے لپٹتے ہوئے کوں کوں کرنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد ریچھنی نسبتاً ٹھیک ٹھاک طریقے سے چلتے ہوئے اپنے بچے کے ساتھ چلی گئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK