یہ ایک بہادر لڑکے کی کہانی ہے جو اپنی جان پر کھیل کر ایک بچے کی جان بچاتا ہے۔
EPAPER
Updated: August 30, 2025, 2:29 PM IST | Mumbai
یہ ایک بہادر لڑکے کی کہانی ہے جو اپنی جان پر کھیل کر ایک بچے کی جان بچاتا ہے۔
اسلم میاں کے والد اپنی طالب علمی کے زمانے میں ایک اچھے کھلاڑی رہ چکے تھے۔ انہوں نے مختلف کھیلوں کے مقابلے میں طرح طرح کے خوبصورت شیلڈ، مختلف چھوٹے بڑے کپ اور چم چم کرتے تمغے حاصل کئے تھے۔ یہ ایک بڑے سے شو کیس میں سلیقے سے سجا کر رکھے ہوئے تھے لیکن شو کیس کا اوپری خانہ خالی تھا۔ اُن کی بڑی تمنّا تھی کہ اُن کا بیٹا اسلم بھی ان کی طرح مشہور کھلاڑی بنے اور جب وہ کسی مقابلے میں کوئی انعام حاصل کرے تو اُس خانے میں رکھا جائے۔ شو کیس میں سجے ہوئے انعامات کو دیکھ کر اسلم میاں کے دل میں بھی یہ خواہش اُبھرتی کہ مَیں بھی اپنے ابّو کی طرح ایک اچھا کھلاڑی بنوں اور ڈھیر سارے انعامات حاصل کروں۔
ایک دن اسکول میں ہیڈ ماسٹر صاحب نے اعلان کیا کہ اِس سال یوم ِ آزادی کے موقع پر پڑوس کے گاؤں میں تیراکی کا مقابلہ ہوگا جس میں آس پاس کے گاؤں کے اسکولوں کے بچّے شریک ہوں گے۔ اُن کے اسکول سے بھی کھلاڑی مقابلے میں شریک کئے جائیں گے۔
یہ سن کر اسلم میاں نے سوچا کاش مَیں اچھا تیراک ہوتا تو اس مقابلے میں حصہ لیتا! انہوں نے یہ خبر اپنے والد کو سنائی۔ انہوں نے کہا، ’’مَیں تمہیں تیرنا سکھاؤں گا۔ تم اِس مقابلے میں ضرور حصہ لو گے۔‘‘
بس اُسی دن سے انہوں نے اسلم میاں کو گاؤں کی ندی میں تیرنا سکھانا شروع کر دیا۔ کچھ ہی دنوں میں اسلم میاں نے تیراکی میں مہارت حاصل کر لی۔ انہیں اسکول کی جانب سے مقابلے میں شرکت کرنے کے لئے چُن لیا گیا۔ مقابلے کے قانون اور اصول سمجھا دیئے گئے اور اس بات کی تاکید کی گئی کہ وہ مقررہ وقت پر مقابلہ گاہ میں حاضر ہوجائیں۔
آخر مقابلے کا دن آپہنچا۔ اسلم میاں کے والد کی طبیعت ناساز تھی اس لئے وہ اسلم میاں کے ساتھ نہ جاسکے۔ انہوں نے اور اسلم کی والدہ نے اسلم میاں کو دعائیں دیں اور رخصت کیا۔ مقابلے کے لئے گھر سے نکلے تو اُن کی چھوٹی بہن عالیہ بھی اُن کے ساتھ ہو لی۔ راستے میں جب وہ ندی کے قریب سے گزر رہے تھے، انہیں ایک چیخ سنائی دی۔ دونوں ٹھٹک کر کھڑے ہوگئے۔ اتنے میں دوبارہ چیخ بلند ہوئی۔
’’بچاؤ.... بچاؤ.... ارے کوئی میرے بچّے کو بچاؤ۔‘‘
آواز ندی کی جانب سے آرہی تھی۔ اسلم میاں اور عالیہ دونوں دوڑتے ہوئے ندی کی طرف لپکے۔ دیکھا کہ ایک عورت کنارے پر کھڑی چیخ رہی ہے۔
’’ارے بھیّا، میرے منوہر کو بچاؤ۔ وہ کھیلتے کھیلتے پانی میں گِر پڑا ہے۔‘‘
اسلم میاں نے ندی کے بہتے ہوئے پانی کی طرف دیکھا تو دور ایک چھوٹا سا بچّہ پانی کی لہروں میں ڈوبتا اُبھرتا بہہ رہا تھا۔ سوچنے کا وقت نہیں تھا۔ وہ جھٹ پانی میں کود پڑے اور تیزی سے تیرتے ہوئے بچّے کی طرف بڑھنے لگے۔ تیراکی کی مشق اُن کے کام آئی۔ جلد ہی وہ ڈوبتے ہوئے بچّے کے قریب پہنچ گئے اور اُسے پکڑ لیا۔ بچّہ گھبرایا ہوا تھا۔ اسلم میاں سے بُری طرح لپٹ گیا۔ اُنہیں تیرنا مشکل ہو رہا تھا۔ لیکن وہ حواس قائم رکھتے ہوئے کسی طرح بچے کو کنارے تک لے آئے۔ عورت نے جھپٹ کر بچّے کو اپنی گود میں لے لیا۔ ڈبکیاں کھاتے وقت کافی پانی اس کے پیٹ میں چلا گیا تھا۔ اسلم میاں کے کہنے پر عورت نے اُسے زمین پر اوندھا لٹایا اور اس کی پشت کو دبایا۔ پیٹ دبنے سے سارا پانی منہ کے راستے باہر نکل آیا۔ بچّہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اسلم میاں نے بچّے کے تلوؤں کو سہلایا۔ عورت نے خشک کپڑے سے اُس کے جسم کو رگڑا۔ بچّے نے آنکھیں کھولیں تو عورت کی جان میں جان آئی۔ اس نے اسلم میاں کو گلے لگا کر دعائیں دیں۔ عالیہ کو پیار کیا۔ پھر اچانک جیسے اُسے کچھ یاد آگیا۔ اُس نے اپنی ساڑی کے پلّو میں لگی ہوئی گِرہ کو پھرتی سے کھولا۔ اس میں کچھ سکّے تھے۔ اس نے پانچ روپے کا ایک سکّہ چُن کر اسلم میاں کو دینا چاہا مگر اسلم میاں نے لینے سے انکار کر دیا۔ وہ عورت رو پڑی اور بولی، ’’بیٹا! مَیں غریب تمہیں اور کیا دے سکتی ہوں۔ اپنے بچّے کی جان بچنے کی خوشی میں تمہیں مٹھائی کھانے کے لئے دے رہی ہوں۔ اگر لے لو تو مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
اُس کی خوشی کے لئے اسلم میاں نے وہ سکّہ لے لیا۔
اب اسلم میاں اپنی بہن کو ساتھ لئے دوڑتے بھاگتے مقابلہ گاہ پہنچے۔ مقابلہ شروع ہوچکا تھا۔ کسی نے اُن سے کہا کہ تین بار تمہارا نام پکارا گیا تھا لیکن تم موجود نہ تھے اس لئے تمہارا نام مقابلے سے خارج کر دیا گیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسلم میاں کو دیکھا تو بہت ناراض ہوگئے۔ اسلم میاں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ انہوں نے سوچا گھر میں بھی ابّو نہ جانے کیا کہیں گے! آخر اُداس اور مایوس بھاری بھاری قدموں سے بہن کے ساتھ گھر لوٹ آئے۔
والد نے پوچھا، ’’کیا بات ہے؟ یہ رونی صورت کیوں بنا رکھی ہے؟‘‘
اسلم میاں کیا کہتے.... گردن جھکائے کھڑے رہے۔ اُن کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرتے رہے۔ تب عالیہ نے بڑھ کر والد کو سارا واقعہ کہہ سنایا۔
’’اوہ! تو یہ بات ہے.... کہاں ہے وہ سکّہ؟‘‘ والد نے پوچھا۔
اسلم میاں نے سہمے ہوئے انداز میں جیب سے وہ سکّہ نکال کر والد صاحب کو دے دیا۔ والد چند لمحوں تک عجیب سی نظروں سے اُس سکّے کو دیکھتے رہے جیسے پانچ روپے کا سکّہ انہوں نے پہلی بار دیکھا ہو۔ پھر اُن کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ آگئی۔ انہوں نے وہ سکّہ شو کیس کے اوپری خانے میں رکھ دیا اور جھک کر اسلم میاں کی پیشانی چوم لی۔
(درسی کتاب سے ماخوذ)