کنجوس جوہری کے بہت کم دوست تھے۔ وہ اپنے دوستوں پر بھی پیسہ خرچ نہ کرتا، بلکہ ان ہی سے کھانے پینے کی توقع رکھتا۔ چونکہ وہ باتیں بنانے کا ماہر تھا، اس لئے کچھ لوگ اس کے دوست بن گئے تھے اور کبھی کبھی اسے کھلا پلا دیتے تھے۔
EPAPER
Updated: December 27, 2025, 12:30 PM IST | Mehroz Iqbal | Mumbai
کنجوس جوہری کے بہت کم دوست تھے۔ وہ اپنے دوستوں پر بھی پیسہ خرچ نہ کرتا، بلکہ ان ہی سے کھانے پینے کی توقع رکھتا۔ چونکہ وہ باتیں بنانے کا ماہر تھا، اس لئے کچھ لوگ اس کے دوست بن گئے تھے اور کبھی کبھی اسے کھلا پلا دیتے تھے۔
بہت دنوں کی بات ہے۔ کسی قصبے میں ایک جوہری رہا کرتا تھا۔ قصبہ چونکہ چھوٹا تھا اس لئے یہاں کے رہنے والے تقریباً سبھی لوگ ایک دوسرے سے واقف تھے۔ جوہری کے متعلق یہ بات مشہور تھی کہ وہ اپنے آپ پر اور بیوی بچوں پر تو خاصی رقم خرچ کرتا تھا، لیکن وہ دوسروں پر کسی مطلب کے بغیر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتا۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا فقیر اس کے پاس آ جاتا تو جو ہری اس کو اس بری طرح جھڑکتا کہ بے چارہ بھکاری پھر کبھی بھول کر بھی اس طرف کا رخ نہ کرتا۔
کنجوس جوہری کے بہت کم دوست تھے۔ وہ اپنے دوستوں پر بھی پیسہ خرچ نہ کرتا، بلکہ ان ہی سے کھانے پینے کی توقع رکھتا۔ چونکہ وہ باتیں بنانے کا ماہر تھا، اس لئے کچھ لوگ اس کے دوست بن گئے تھے اور کبھی کبھی اسے کھلا پلا دیتے تھے۔
اسی قصبے میں ایک دھوبی رہا کرتا تھا۔ وہ جوہری کے بالکل برعکس تھا۔ اسکے پاس ضرورت سے زیادہ جو پیسہ ہوتا، وہ دوستوں اور ضرورتمندوں پر خرچ کر دیا کرتا۔ جب شاہی دھوبی بیمار ہو جاتا تو وہ بادشاہ کے کپڑے بھی دھویا کرتا۔ وہ لوگوں میں بڑا ہر دل عزیز تھا۔ وہ دھوبی تھا، مگر لوگ جوہری سے زیادہ اس کی عزت کرتے تھے۔
ایک شام دھوبی کام ختم کرکے اپنے دوستوں سے گپ شپ کر رہا تھا کہ کنجوس جوہری کا ذکر چھڑ گیا۔ ایک دوست نے کہا، ’’اس جیسا کنجوس انسان تو ہم نے اپنی زندگی میں دیکھا نہ سنا۔‘‘ دوسرے دوست نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی، ’’اس نے آج تک کسی کو ایک گلاس پانی نہیں پلایا۔‘‘ دھوبی بولا، ’’مَیں اس کنجوس جوہری سے چائے پانی تو ایک طرف رہا۔ کھانا تک کھا سکتا ہوں۔‘‘
تمام دوستوں نے زور دار قہقہہ لگایا۔ ایک دوست نے ٹانگیں پھیلاتے ہوئے کہا، ’’بڑے بڑے تیس مار خاں اس سے چائے تک نہیں پی سکے، بھلا تم کھانا کیسے کھاؤ گے؟‘‘
دھوبی نے کہا، ’’آخر تم لوگوں کو میری بات پر یقین کیوں نہیں آ رہا؟‘‘
’’جب اس کنجوس جوہری سے کوئی چیز کھانا ممکن نہیں تو یقین کیسے آئے گا؟‘‘
دھوبی نے کہا، ’’اگر مَیں نے اس سے کھانا کھا لیا تو تم مجھے کیا انعام دو گے؟‘‘
ایک دوست بولا، ’’ہم سب مل کر تمہاری ایک شاندار دعوت کریں گے۔‘‘
دھوبی بولا، ’’تو پھر ٹھیک ہے۔ مَیں کل دوپہر کا کھانا جوہری کے گھر کھاؤں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ہم بھی وہاں آئیں گے۔‘‘ سب نے ایک زبان ہو کر کہا۔
دھوبی رات دیر تک کنجوس جوہری سے کھانا کھانے کی ترکیب سوچتا رہا۔ آخر ایک ترکیب اس کی سمجھ میں آ ہی گئی۔
دھوبی نے اگلے دن ایک خالی ڈبہ لیا اور جوہری کے گھر جا پہنچا۔ اسے معلوم تھا کہ جوہری اس وقت دوپہر کا کھانا کھاتا ہے۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ’’کون ہے؟‘‘ اندر سے جوہری کی آواز آئی۔ ’’مَیں ہوں، دھوبی۔‘‘
’’تمہیں معلوم نہیں، یہ میرے کھانے کا وقت ہے؟‘‘ جوہری بیزاری سے بولا۔
دھوبی نے ادب سے جواب دیا، ’’معلوم ہے جناب! لیکن اس وقت مَیں آپ کے پاس ضروری کام سے آیا ہوں۔‘‘ ’’کون سا کام؟‘‘
دھوبی نے کہا، ’’آپ دروازہ کھولئے۔ ایک ہیرے کے بارے میں بات کرنی ہے۔‘‘
ہیرے کا نام سنتے ہی جوہری کے منہ میں پانی بھر آیا اور اس نے فوراً دروازہ کھول دیا۔ دھوبی کے ہاتھ میں ڈبہ دیکھ کر وہ سمجھا کہ اس میں ہیرا ہے، جسے دھوبی بیچنے آیا ہے۔ جوہری کو یہ بات بھی معلوم تھی کہ دھوبی کبھی کبھی شاہی محل میں کپڑے دھوتا ہے۔ اس نے سوچا: بہت ممکن ہے، میلے کپڑوں میں بھولے سے کوئی ہیرا آگیا ہو۔
جوہری نے کہا، ’’باہر کیوں کھڑے ہو، ادھر آجاؤ۔ بیٹھ کر آرام سے باتیں ہوں گی۔‘‘
دھوبی، جوہری کے گھر میں داخل ہوگیا۔ اس وقت دسترخوان پر کھانا چنا جا چکا تھا، جس کی خوشبو سے دھوبی کی آنتیں قل ہو اللہ پڑھنے لگیں۔
’’مرغی کے انڈے کے برابر ہیرے کی آج کل کیا قیمت ہے؟‘‘ دھوبی نے اطمینان سے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
یہ سن کر جوہری کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ اس نے سوچا کہ ڈبے میں ضرور کوئی بڑا ہیرا ہے، جو دھوبی کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ مَیں اسے بیوقوف بنا کر قیمتی ہیرے کو اپنے قبضے میں لے لوں گا۔ بھلا اسے ہیرے کے بارے میں کیا معلوم۔
’’ہاں تو بتائیے! مرغی کے انڈے کے برابر ہیرے کے کیا دام چل رہے ہیں؟‘‘ جوہری کو خاموش دیکھ کر دھوبی نے دوبارہ پوچھا۔
جوہری نے دعوت دی، ’’آؤ، پہلے کھانا شروع کرو، ہیرے کی باتیں کھانے کے بعد ہوتی رہیں گی۔‘‘ دھوبی تو اسی انتظار میں تھا۔ فوراً لذیذ کھانوں پر ہاتھ صاف کرنے لگا۔ پلاؤ، شامی کباب، شاہی ٹکڑوں اور گاجر کے حلوے کو جلدی جلدی حلق سے نیچے اتارنے لگا۔ جوہری نے اپنے دل میں کہا: کوئی بات نہیں بچو! اڑا لو میرا مال، جتنا اڑا سکو۔ مَیں نے بھی تم سے چند سکوں میں ہیرا نہ ہتھیایا تو جوہری کا کام چھوڑ دوں گا۔
دھوبی نے کہا، ’’سنا ہے، مرغی کے انڈے جتنے ہیرے بڑے نایاب ہوتے ہیں۔‘‘
جوہری نے چالاکی سے کہا، ’’ہیروں کی قیمت آج کل گری ہوئی ہے۔ ایک زمانہ تھا، جب ہیروں کے دام بہت چڑھے ہوئے تھے، لیکن جب سے نقلی ہیرے بننے شروع ہوئے ہیں، اصلی ہیروں کی مانگ تقریباً ختم ہو چکی ہے۔‘‘
’’پھر بھی آخر اتنا بڑا ہیرا کتنے کا ہوگا؟‘‘ دھوبی شامی کباب منہ میں رکھتے ہوئے بولا۔
’’یہی کوئی پچاس ساٹھ روپے کا۔‘‘ جوہری نے ڈبے کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’اتنے بڑے ہیرے کی اتنی کم قیمت!‘‘ دھوبی نے رومال سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’صحیح قیمت تو ہیرا دیکھنے کے بعد ہی بتائی جاسکتی ہے۔ آج کل تو نقلی ہیرے بھی اصلی کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ جوہری نے ملازم کو خالی برتن لے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’بڑی مہربانی جوہری صاحب! آپ نے ہیروں کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔‘‘ دھوبی جوتا پہنتے ہوئے بولا۔
جب وہ ڈبہ اٹھا کر دروازے کی طرف بڑھا تو جوہری بڑا سٹپٹایا اور بولا، ’’کیا تم ہیرا نہیں دکھاؤ گے؟ بیچنے کا ارادہ بدل دیا ہے کیا؟ نقلی ہیرے کے بھی کچھ نہ کچھ پیسے تو مل ہی جائیں گے۔‘‘
دھوبی نے پُر اعتماد لہجے میں کہا، ’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، جوہری صاحب! میرے پاس نہ نقلی ہیرا ہے نہ اصلی۔ بھلا غریبوں کے پاس بھی ہیرے ہوا کرتے ہیں؟‘‘
’’تو، تو پھر میرے پاس کس لئے آئے تھے؟‘‘
’’چند دوستوں سے میری شرط لگی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مرغی کے انڈے جتنا ہیرا ہوتا نہیں، جبکہ مَیں کہتا ہوں کہ ہوتا ہے۔ بس یہی بات آپ سے پوچھنے چلا آیا تھا۔‘‘
’’مکار! دغا باز! نکال میرے کھانے کے پیسے، ورنہ تیری چمڑی ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔‘‘ جوہری ایک بڑا سا ڈنڈا لے کر اس کی طرف جھپٹا۔
شور و غل کی آواز سن کر کئی لوگ جمع ہوگئے، جن میں دھوبی کے دوست بھی تھے۔ اتنے میں دھوبی نے چلانا شروع کر دیا، ’’ارے! میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ تمہارے کھانے نے میرے پیٹ میں درد کر دیا ہے۔ دوا کے پیسے نکالو، ورنہ تمہیں پولیس کے حوالے کر دوں گا۔‘‘
لوگوں نے جب یہ سنا تو انہوں نے سوچا کہ جوہری تو کسی کو ایک گلاس پانی تک نہیں پلاتا، پھر اس نے دھوبی کو کھانا کیسے کھلا دیا؟ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ وہ سب مل کر بولے: ’’دھوبی کو دوا کے پیسے دو، ورنہ تمہیں پولیس کے حوالے کر دینگے۔‘‘
اب تو جوہری بڑا گھبرایا۔ وہ پولیس سے بہت ڈرتا تھا۔ جی کڑا کرکے اس نے دھوبی کو دوا کے پیسے دیئے اور اپنی جان چھڑائی۔ جب دھوبی دوستوں کے ساتھ دکان پر پہنچا تو انہوں نے اس سے کہا، ’’بھئی مان گئے! آج شام ہمارے طرف سے تمہاری دعوت ہے۔‘‘