ایک غریب شخص کی کہانی جسے ذہانت وزیر بنا دیتی ہے۔
اگلے وقتوں میں ایک بادشاہ تھا۔ اس کی سلطنت میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا، کمی تھی تو صرف ایک وزیر کی۔ بادشاہ کی نگاہ میں یوں تو بہت سے لوگ تھے۔ مگر انہیں وہ وزارت کے قابل نہیں سمجھتا تھا اور جنہیں سمجھتا تھا اُنہیں اُن کی عقلمندی کا امتحان لئے بغیر رکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے ساری سلطنت میں اعلان کر دیا کہ وہی شخص اس کا وزیر ہوگا جو سب سے زیادہ عقلمند ہوگا اور عقلمندی کے امتحان میں کامیاب ہوگا۔
تم جانو ہر شخص بادشاہ کا وزیر بننا چاہے گا۔ شہر کا ہر امیر اور ہر رئیس خود کو سب سے زیادہ اس عہدے کا حقدار سمجھ رہا تھا۔ سب ہی امیر جمع ہوئے اور ان سب کو بادشاہ کی طرف سے شاہی مہمان خانے میں ٹھہرایا گیا۔
روز کی طرح بادشاہ دربار میں بیٹھا تھا کہ پھٹے کپڑوں میں ایک پریشان حال آدمی آیا اور کہنے لگا، ’’مَیں بھی وزارت کے مقابلے میں حصہ لینا چاہتا ہوں۔‘‘
بادشاہ حیران تھا کہ یہ بدحال حقیر فقیر آخر کس بَل بُوتے پر وزیر بننا چاہتا ہے۔ چنانچہ یہی سوچ کر بادشاہ نے اس سے پوچھا ’’تم خود کو آخر کس بنا پر وزارت کے قابل سمجھتے ہو؟‘‘
اجنبی نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا ’’حضور کا ہم زلف ہی وزیر ہوسکتا ہے۔‘‘ بادشاہ نے غصے سے بے قابو ہوتے ہوئے حقارت بھرے لہجے میں پوچھا ’’تم اور میرے ہم زلف؟‘‘
اجنبی نے بادشاہ کے آگے جھکتے ہوئے کہا ’’سرکار امیری اور غریبی دو بہنیں ہیں۔ ایک بہن یعنی غریبی میرے گھر آئی اور دوسری بہن یعنی امیری آپ کے گھر گئی۔ اب آپ ہی فرمایئے کہ مَیں اور آپ ہم زلف ہوئے یا نہیں؟‘‘
بادشاہ، اجنبی کا یہ معقول جواب سُن کر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا، اور اُسے بھی وزارت کے امیدواروں میں شریک کر لیا۔
دوسرے دن بادشاہ تمام امیدواروں کو شکار پر لے گیا۔ جنگل پہنچنے کے بعد بے چارہ اجنبی شاہی قافلے سے بچھڑ کر جنگل میں بھٹکنے لگا، اسی دوران اس کی ملاقات چند پریشان اور مصیبت زدہ تاجروں سے ہوگئی جو کسی چیز کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ اجنبی نے انہیں دیکھ کر پوچھا ’’آپ حضرات کا غالباً اونٹ غائب ہوگیا ہے اور آپ اُسے ڈھونڈ رہے ہیں۔‘‘
تاجر اس امید میں کہ یہ آدمی کھوئے ہوئے اونٹ کی تلاش میں اُن کی مدد کریگا، بولے ’’ہاں!‘‘
اجنبی نے کہا ’’اس کی سیدھی آنکھ غالباً بے کار ہے اور وہ بائیں پیر سے لنگڑا کر چلتا ہے۔‘‘
اب تو تینوں تاجروں کو یقین ہوگیا کہ یہ شخص ضرور اونٹ کھوج نکالے گا۔ انہوں نے کہا ’’ہاں جناب! آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘‘
اجنبی بولا ’’اور وہ ایک اگلے دانت سے بھی محروم ہے....‘‘
تینوں تاجر خوش ہوتے ہوئے ایک ساتھ کہنے لگے ’’ہاں ہاں وہی، آپ نے کہاں دیکھا ہے اُسے؟‘‘ اجنبی نے اُن کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے دریافت کیا ’’کیا اس کی پیٹھ پر گیہوں اور شہد لدا ہوا تھا؟‘‘
تاجر خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے بولے ’’سولہ آنے وہی ہے۔ کیا آپ نے اُسے کہیں باندھ رکھا ہے؟‘‘
اجنبی نے سٹپٹاتے ہوئے کہا ’’نہیں جناب، مَیں نے کوئی اونٹ نہیں دیکھا، مَیں تو بس یوں ہی پوچھ رہا تھا۔‘‘
اجنبی کے اس جھوٹ پر پہلے تو تاجر بھونچکا رہ گئے، اور انہیں یقین ہی نہیں آیا کہ ایسی بات اجنبی کس طرح کہہ سکتا ہے؟ مگر اس سنسان جنگل میں اس وقت اسکے سوا دوسرا کون تھا جس پر شبہ کرتے؟ اس لئے تاجر اجنبی کی ڈھٹائی پر خوب بگڑے اور اُسے پکڑ کر مارتے ہوئے بادشاہ کے پاس لے گئے اور بادشاہ کو یقین دلایا کہ اس شخص نے ہی اونٹ چُرایا ہے۔ بات ہی کچھ ایسی تھی کہ بادشاہ بھی دلچسپی لئے بغیر نہ رہ سکا۔ بادشاہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اجنبی چور نہیں ہوسکتا۔ مگر بادشاہ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اجنبی نے اونٹ نہیں دیکھا تو پھر اس کے متعلق تمام باتیں کس طرح بتا دیں اور اگر دیکھا ہے تو جھوٹ کیوں بول رہا ہے؟ یہی سب کچھ سوچ کر بادشاہ نے اجنبی سے پوچھا ’’جب تم نے اونٹ نہیں دیکھا تو پھر تم نے ان لوگوں سے اونٹ کے بارے میں کیوں پوچھا؟‘‘
اجنبی نے جواب دیا ’’حضور میں نے اونٹ کے پیروں کے نشان دیکھے تھے، اس لئے اس نتیجے پر پہنچا کہ انہیں اونٹ کی تلاش ہے۔‘‘
بادشاہ نے پھر پوچھا ’’لیکن یہ تم نے کس طرح بتایا کہ اُس کی سیدھی آنکھ بے کار ہے اور وہ بائیں پیر سے لنگڑا کر چلتا ہے؟‘‘
اجنبی بولا ’’جہاں پناہ! مَیں نے یہ بات خاص طور پر محسوس کی کہ جانور جدھر سے گزرا ہے۔ اُدھر کی صرف بائیں طرف کی گھاس اس نے کھائی ہے اور اسکے پیروں کے نشانوں میں سے ایک پیر کا نشان کچھ دھندلا دھندلا سا تھا، چونکہ اس کی سیدھی آنکھ بے کار تھی، اسلئے اسے صرف بائیں طرف کی گھاس نظر آرہی تھی۔ چنانچہ اس نے وہی کھائی۔‘‘
بادشاہ نے کہا ’’بہت خوب! تم بہت زیادہ ہوشیار ہو، مگر تم نے اسکے اگلے دانتوں کے بارے میں کیسے کہا کہ ان میں سے ایک گرا ہوا ہے؟‘‘
اجنبی نے بتایا ’’اس وجہ سے کہ اونٹ نے جہاں جہاں گھاس پر منہ مارا ہے وہاں بیچ میں کچھ گھاس بچ گئی ہے۔ یہی بات ظاہر کررہی تھی کہ اونٹ اپنا ایک دانت کھو چکا ہے۔‘‘
بادشاہ خوش ہو کر بولا ’’بہت خوب، بہت خوب! اب یہ بھی بتا دو کہ تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ اس پر سامان لدا ہوا تھا اور سامان بھی کس قسم کا؟‘‘
اجنبی نے جواب دیا ’’سرکار بہت آسانی سے! کیونکہ جہاں اونٹ کے پیروں کے نشان تھے اس کے ایک طرف ڈھیر ساری چیونٹیاں تھیں اور دوسری طرف شہد کی مکھیاں! چیونٹیاں تو گیہوں کے لئے جمع ہوئی تھیں۔ اور مکھیاں شہد کھانے کے لئے آئی تھیں۔‘‘
اجنبی کی عقلمندی پر بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اُس نے تاجروں کو اونٹ اور سامان کے پیسے دے کر اور وزارت کے تمام امیدواروں کو یہ کہہ کر رخصت کر دیا ’’مجھے جیسے وزیر کی ضرورت تھی وہ مَیں نے پا لیا۔‘‘ اس کے بعد اس نے اجنبی کو عاقل خاں اور ہوشیار جنگ کا خطاب دے کر اپنا وزیر بنا لیا۔