نہرو چاچا کو موٹر میں جاتے تو بہت سے لوگوں نے دیکھا ہوگا لیکن عام لوگوں تک پہنچنے کے لئے اپنی زندگی میں انہوں نے ہر قسم کی سواری کا استعمال کیا ہے۔
EPAPER
Updated: August 16, 2025, 3:53 PM IST | Khawaja Ahmad Abbas | Mumbai
نہرو چاچا کو موٹر میں جاتے تو بہت سے لوگوں نے دیکھا ہوگا لیکن عام لوگوں تک پہنچنے کے لئے اپنی زندگی میں انہوں نے ہر قسم کی سواری کا استعمال کیا ہے۔
نہرو چاچا کو موٹر میں جاتے تو بہت سے لوگوں نے دیکھا ہوگا لیکن عام لوگوں تک پہنچنے کے لئے اپنی زندگی میں انہوں نے ہر قسم کی سواری کا استعمال کیا ہے۔
۱۹۳۶ء سے پہلے بھی جب ہوائی جہاز کی سواری کو خطرناک سمجھا جاتا تھا وہ آزادی کا پیغام پہنچانے کے لئے ایک چھوٹے سے ہوائی جہاز میں اُڑ کر ملک کے کونے کونے میں جاتے تھے۔ لاکھوں گاؤں والوں نے اپنی زندگی میں پہلا ہوائی جہاز اسی وقت دیکھا جب نہرو چاچا ان کے پاس پہنچے۔
مگر وہ صرف ہوائی جہاز ہی میں سفر نہیں کرتے تھے (ہوائی جہاز ہر جگہ تھوڑا ہی اتر سکتا ہے۔ اس کے اترنے کیلئے ایک لمبا چوڑا صاف میدان چاہئے) وہ ریل سے بھی سفر کرتے تھے۔ جہاں ریل نہیں تھی وہاں کچی پکی سڑکوں پر وہ موٹر یا موٹر لاری سے بھی سفر کرتے تھے۔ جہاں سڑک نہیں پگڈنڈی تھی وہاں وہ خود سائیکل چلا کر جاتے تھے۔ پہاڑی علاقوں میں وہ گھوڑے پر سوار ہو کر چلتے تھے اور جب کوئی اور سواری نہیں میسر ہوتی تھی تو پیدل بھی سفر کرتے تھے۔ اونٹ، بیل گاڑی، تانگے، اکّے ہر سواری میں انہوں نے سفر کیا ہے۔
ہاں تو ایک بار وہ اپنے سیکریٹری کے ساتھ الہ آباد کے نزدیک کے ایک گاؤں میں شام کو پہنچے اکّے میں سوار ہو کر۔ اکّے والا اُن کو چھوڑ کر الہ آباد واپس چلا گیا کہ اگلے دن ان کو دوسرے گاؤں میں لے جانے کیلئے آئے گا۔ نہرو چاچا اور ان کے سیکریٹری نے اپنے بستر اکّے سے اتارے اور اس گاؤں کی کانگریس کمیٹی کے پریسیڈینٹ کے گھر میں رکھ دیئے۔
شام کو گاؤں میں کانگریس کا جلسہ ہوا۔ نہرو چاچا نے گاؤں والوں کو آزادی کی لڑائی جو شروع ہونے والی تھی، اس کے بارے میں بتایا۔ گاندھی جی کا اہنسا اور ستیہ گرہ کا پیغام دیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ جس آزادی کیلئے ہم لڑ رہے ہیں، جیل جا رہے ہیں، جان مال کی قربانی دے رہے ہیں وہ عوام کی آزادی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مِل جل کر ہم ایسا سماج بنائینگے جس میں چھوت چھات نہیں ہوگی۔ مذہبی تعصب اور نفرت نہ ہوگی، سب ہندوستانیوں کو پیٹ بھر کے کھانا، تن ڈھکنے کیلئے کپڑا، رہنے کو مکان اور تعلیم کیلئے اسکول اور کالج ہوں گے۔ یہ نہیں ہوگا کہ محنت تو کریں مزدور اور کسان اور عیش کریں زمیندار، ساہوکار اور سرمایہ دار۔
تقریر کرنے کے بعد کچھ دیر نہرو چاچا چوپال میں بیٹھے گاؤں والوں سے بات کرتے رہے پھر وہ مقامی کانگریس پریسیڈینٹ کے چھوٹے سے گھر پہنچے۔ کھانا کھا کر سو جانے کیلئے، کیونکہ اگلے دن صبح بہت سویرے انہیں پھر اکّے پر سوار ہو کر ایک اور گاؤں میں جانا تھا۔
چاچا نہرو دن بھر دھول مٹی میں گھومتے رہے تھے۔ پانی کی بالٹی لے کر نہانے چلے گئے تو گاؤں کے کانگریس پریسیڈینٹ نے جو ذات کا برہمن تھا نہرو چاچا کے نوجوان پرائیویٹ سیکریٹری سے پوچھا، ’’کیوں جی سیکریٹری صاحب آپ کا نام کیا؟‘‘ سیکریٹری نے جواب دیا، ’’میرا نام ہے محمود الظفر۔‘‘
یہ نام سُن کر وہ برہمن گھبرا سا گیا۔ مگر کچھ بولا نہیں۔ رسوئی گھر میں کھانے کا انتظام کرنے چلا گیا۔ نہرو چاچا نہا کر واپس آئے تو اس نے ان کو کھانے کیلئے رسوئی گھر کے چوکے میں بٹھایا اور ایک پلیٹ میں کھانا رکھ کر اُس نے اُن کے سیکریٹری محمود الظفر کے سامنے باہر برآمدے میں رکھ دی۔
’’محمود! کیا ہوا؟‘‘ چاچا نہرو نے آواز دی، ’’تم ہمارے ساتھ کیوں نہیں کھا رہے؟‘‘ پھر ہنس کر بولے، ’’کیا ہم اچھوت ہیں؟‘‘ محمود نے جواب دیا، ’’جی نہیں، اچھوت تو مَیں ہوں۔‘‘ پنڈت جی پہلا نوالہ کھانے والے ہی تھے کہ انہوں نے تھالی آگے سے سرکا دی اور اُٹھ کھڑے ہوئے۔
’’محمود اپنا بستر اٹھاؤ۔‘‘ انہوں نے حکم دیا۔ اور خود بھی اپنا بسترا سَر پر اُٹھا لیا۔ پھر انہوں نے اس برہمن کانگریس پریسیڈینٹ سے کہا، ’’جس گھر میں کسی ہندوستانی کے خلاف چھوت چھات برتی جاتی ہو مَیں وہاں نہیں رہ سکتا۔‘‘ بوڑھے برہمن نے بہت معافیاں مانگیں مگر نہرو چاچا نہیں مانے۔ انہوں نے وہ رات چوپال کے فرش پر بستر بچھا کر وہیں گزار دی۔
رات بھر وہ بھوکے رہے لیکن انہوں نے اپنی ’’بھوک ہڑتال‘‘ نہیں توڑی۔ اور اُس دن سے اُس بوڑھے برہمن کے گھر میں ہی نہیں اس سارے گاؤں میں پھر کسی نے کسی کے ساتھ چھوت چھات نہیں برتی۔
(کھلونا، ۱۹۶۶ء سے ماخوذ)