• Mon, 13 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

پتھر کا شیر

Updated: September 20, 2025, 3:41 PM IST | Ruhi Shamim | Mumbai

کیا آپ نے کبھی پتھر کا شیر دیکھا ہے؟ پڑھئے اس کی دلچسپ کہانی۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

روحی شمیم
inquilab@mid-day.com
ایک گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے۔ اُن کے باپ کا انتقال ہوگیا تھا۔ گاؤں کے کنارے اُن کا ایک چھوٹا سا کشادہ مکان تھا۔ چھوٹے بھائی کا نام فیضان اور بڑے کا نام کلیم تھا۔ چھوٹا بھائی بہت سیدھا سادہ اور رحم دل تھا۔ اس کے برعکس اس کا بڑا بھائی بہت خود غرض اور لالچی تھا۔ باپ کی وفات کے بعد اِس نے تمام کاروبار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ ایک روز اس نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا، ’’تم بہت سست اور ناکارہ ہو۔ مَیں زیادہ عرصہ تمہارا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘ چھوٹے بھائی نے جب بڑے بھائی کا یہ رویہ دیکھا تو اُسے بے حد صدمہ ہوا۔ وہ رخصت کی اجازت حاصل کرنے کے لئے اپنی ماں کے پاس آیا۔ اماں کو جب بڑے بیٹے کی خود غرضی اور سنگدلی کا پتہ چلا تو وہ بہت ناراض ہوئی اور اُس نے بیٹے سے کہا، ’’اگر تجھے فیضان کا یہاں رہنا گوارا نہیں تو مَیں بھی ایک لمحہ بھی یہاں نہیں ٹھہروں گی۔‘‘
 اِس بات کا بھی اس سنگدل انسان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اس نے چُپ سادھ لی۔ دوسرے دن دونوں ماں اور بیٹے ایک دوسرے گاؤں کو روانہ ہوگئے۔ تھوڑی سی جمع پونجی ماں کے پاس موجود تھی۔ لہٰذا ایک چھوٹا سا مکان انہوں نے پہاڑی کے دامن میں خرید لیا۔ یہ جگہ بڑی پُرفضا تھی اور شہر سے زیادہ دور نہیں تھی۔ آس پاس کے لوگ سیدھے اور نیک دل تھے۔
 دوسرے دن بیٹے نے ماں سے کہا، ’’امّاں! میں زیادہ عرصہ بے کار بیٹھ کر وقت نہیں گزار سکتا۔ میں ایک کلہاڑی خرید کر جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاؤں گا اور شہر میں فروخت کروں گا۔‘‘ ماں نے کہا، ’’جاؤ بیٹا، خدا تمہاری مدد کرے اور روزی میں برکت دے۔‘‘ ماں نے بیٹے کو خوب دعائیں دیں۔ اُسی دن فیضان شہر سے کلہاڑی خرید کر جنگل چلا گیا۔ وہ دن بھر لکڑیاں کاٹتا رہا۔ اور شام کو شہر جا کر فروخت کر دیں۔ پیسے لے کر خوشی خوشی ماں کے پاس آیا اور کہا، ’’اماں اب تمہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، لکڑیوں کی شہر میں بہت مانگ ہے۔ شہری ہاتھوں ہاتھ خرید لیتے ہیں۔‘‘ ماں کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے۔
 اُس کے بعد فیضان روز جنگل سے لکڑیاں کاٹتا اور شہر لے جا کر فروخت کر دیتا۔ ایک دن وہ زیادہ لکڑیوں کی تلاش میں زیادہ دور تک چلا گیا۔ یکایک اُس کی نگاہ چٹان پر بیٹھے ہوئے ایک شیر پر پڑی۔ وہ سہم کر ایک درخت کی آڑ میں ہوگیا۔ اور انتظار کرنے لگا کہ وہ شیر یہاں سے روانہ ہو تو وہ لکڑیاں کاٹنا شروع کرے۔ لیکن بہت دیر ہوگئی شیر اپنی جگہ سے ٹس سے مس بھی نہ ہوا۔ پھر فیضان نے غور سے شیر کی طرف دیکھا تو اُسے بڑی حیرت ہوئی کہ شیر پتھر کا ہے اور چٹان کو تراش کر بنایا گیا ہے، فیضان نے سوچا کہ یہ شیر اس تمام علاقے کا محافظ ہے۔ اور پھر اس نے لکڑیاں کاٹنا شروع کر دیں۔ بہت دیر ہوچکی تھی اور شہر جانے کا وقت نہیں رہا تھا اس لئے اس نے لکڑیاں وہیں چھوڑ دیں اور گھر روانہ ہوگیا اور ماں سے آکر کہا کہ لکڑیاں کاٹتے ہوئے اندھیرا چھانے لگا تھا اس لئے میں لکڑیاں وہیںچھوڑ کر چلا آیا۔ کل اور لکڑیاں کاٹ کر اکٹھی بازار میں بیچ آؤں گا۔‘‘
 دوسرے دن جنگل جا کر اُس نے لکڑیاں کاٹیں اور جلد ہی ان کو بیچنے کے لئے شہر لے گیا جہاں اُس نے دو موم بتیاں خریدیں اور شیر کے مجسمے کے نیچے روشن کر دیں۔ اچانک اُسے ایک گرج دار آواز سنائی دی، ’’تم یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘ یہ آواز شیر کے منہ سے نکلی تھی۔
 فیضان نے اس شیر سے کہا کہ، ’’مجھے میرے بڑے بھائی کلیم نے گھر سے نکال دیا ہے۔ میں اپنی ماں کے ساتھ پہاڑی کے نشیب میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا ہوں اور لکڑیاں کاٹ کر گزر بسر کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ تم اس علاقے کے محافظ ہو، کیا تم میری مدد کرسکتے ہو؟‘‘
 ’’ٹھیک ہے تم کل اِسی وقت میرے پاس آجانا اور اپنے ساتھ ایک بالٹی لیتے آنا۔ مَیں تمہیں اتنی دولت دے دوں گا کہ آرام سے اپنی زندگی بسر کرسکو گے۔‘‘ شیر نے کہا۔
 لڑکے نے شیر کا شکریہ ادا کیا اور لکڑیاں لے کر شہر چلا گیا۔ وہاں سے اُس نے ایک بالٹی خریدی اور گھر چلا گیا۔ دوسرے دن وہ بالٹی لے کر جنگل چلا گیا اور اُس نے شیر سے کہا، ’’میں اپنے وعدے کے مطابق پہنچ گیا ہوں۔‘‘
 شیر بولا، ’’ٹھیک ہے، اب تم بالٹی میرے منہ کے قریب لاؤ۔ مَیں اُسے اشرفیوں سے بھر دوں گا۔ لیکن خیال رہے کہ بالٹی کو صرف اتنا بھرنا کہ کوئی اشرفی زمین پر نہ گرنے پائے۔ میری اس نصیحت کو یاد رکھنا۔‘‘
 فیضان نے شیر کے کہنے کے مطابق عمل کیا اور جب بالٹی اشرفیوں سے بھرنے لگی تو اُس نے شیر کو اشرفیاں اگلنے سے روک دیا۔
 ’’تم ایک فرمانبردار لڑکے ہو۔ جاؤ اب اشرفیوں سے بھری ہوئی اس بالٹی کو اپنی ماں کے پاس لے جاؤ اور اس کی مرضی کے مطابق عمل کرو۔‘‘ یہ کہہ کر شیر خاموش ہوگیا۔
 فیضان اشرفیوں سے بھری بالٹی لے کر اپنی ماں کے پاس آیا۔ وہ اتنی دولت دیکھ کر خوف زدہ ہوگئی۔ لیکن جب اس نے سارا ماجرا کہہ سنایا تو اُس نے اطمینان کا سانس لیا اور کہا، ’’یہ سب پروردگار کا کام ہے کہ اُس نے غیب سے ہماری مدد کی ہے۔‘‘
 اس روز سے ان لوگوں کے حالات بدلنے لگے، فیضان نے اس دولت سے بہت سے مویشی اور ایک زرخیز زمین کھیتی باڑی کے لئے خرید لی اور وہ آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ کچھ دنوں بعد یہ خبر بڑے بھائی کلیم کو ملی کہ اُس کے چھوٹے بھائی فیضان کے حالات اچھے ہوگئے ہیں اور اُس نے مویشی اور خاصی زمین خرید لی ہے۔ اُسے اِس خبر سے بڑا تعجب ہوا اور سوچنے لگا کہ اتنی جلدی چھوٹے بھائی کے حالات کیسے تبدیل ہوگئے۔ اس بات کا تذکرہ اُس نے اپنی بیوی سے بھی کیا دونوں نے طے کیا کہ کوئی چھوٹا موٹا تحفہ لے کر ملنے کے بہانے جا کر اس بات کا سراغ لگایا جائے کہ یہ دولت آخر ان لوگوں کے ہاتھ کہاں سے آئی۔ لہٰذا تحفے کے طور پر دو جوڑے کپڑے لے کر یہ دونوں میاں بیوی روانہ ہوگئے۔ جب یہ دونوں وہاں پہنچے تو چھوٹا بھائی کھیت میں کام کرنے گیا ہوا تھا۔ البتہ ماں گھر پر موجود تھی۔ وہ اپنے بیٹے اور بہو سے بڑے تپاک سے ملی اور ان کی خوب خاطر و مدارات کی۔ شام کو جب فیضان گھر آیا تو وہ بھی بھائی بھاوج کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔
 آخر بڑے بھائی کی بیوی سے ضبط نہ ہوا۔ اُس نے پوچھ ہی لیا کہ اتنی دولت اتنی جلدی تم لوگوں کے پاس کہاں سے آگئی کہ کھیت بھی خرید لیا اور بہت سے مویشی بھی۔ چھوٹے بھائی نے بھائی اور بھاوج کو اصل حقیقت بتا دی۔
 ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بھی اس موقع سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔‘‘ بھاوج نے کہا۔
 ’’ہاں ہاں کیوں نہیں آپ لوگ بھی وہاں جا کر دولت حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘ چھوٹے بھائی نے جواب دیا اور مسکرانے لگا۔
 دوسرے دن کلیم شہر سے ایک بالٹی اور دو موم بتیاں خرید کر پہاڑی کی طرف چل دیا اور شیرکے مجسمے کے پاس جا کر اس نے دو موم بتیاں روشن کر دیں۔ اچانک شیر کی گرج دار آواز سنائی دی، ’’تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟‘‘
 ’’میں اس نوجوان لڑکے کا بھائی ہوں جسے آپ نے بہت سی دولت دی ہے اسی نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ سے دولت طلب کروں۔‘‘
 شیر نے کہا، ’’ٹھیک ہے اپنی بالٹی میرے منہ کے قریب لاؤ لیکن خیال رکھنا بالٹی کو اشرفیوں سے اتنا ہی بھرنا کہ کوئی اشرفی زمین پر نہ کرنے پائے، اگر تم نے اس کے خلاف کیا تو پھر بُرے دن تمہارا مقدر بن جائیں گے اور تم مصیبتوں میں گرفتار ہوجاؤ گے۔‘‘
 شیر کی زبان سے یہ الفاظ سُن کر وہ کچھ خوف اور کسی قدر خوشی کے عالم میں کانپنے لگا اور اُس نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے بالٹی شیر کے منہ کے سامنے رکھ دی۔ شیر نے اشرفیاں اگلنی شروع کر دیں۔ حیرت اور لالچ کے عالم میں وہ بار بار بالٹی کو ہلاتا تاکہ بالٹی میں گرنے والی اشرفیوں کی سطح برابر رہے اور زیادہ سے زیادہ اشرفیاں بالٹی میں آجائیں۔ یہاں تک کہ بالٹی اشرفیوں سے بھر گئی۔ مگر زیادہ سے زیادہ اشرفیاں حاصل کرنے کے لالچ میں وہ شیر کی نصیحت بھول گیا، لہٰذا چند اشرفیاں زمین پر گر گئیں۔ جیسے ہی یہ زمین پر گریں شیر نے اشرفیاں اگلنی بند کر دیں۔
 اور گرج دار آواز میں، ’’ایک بہت بڑا سونے کا ٹکڑا جو باہر آنے والا تھا میرے منہ میں اٹک گیا ہے۔ یہ تقریباً سوا سو اشرفیوں کی قیمت کے برابر ہے۔ تم اپنا ہاتھ میرے منہ میں ڈال کر نکال لو۔‘‘ اُس لالچی شخص نے جیسے ہی شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالا، شیر نے اپنا منہ بند کر لیا۔ اس نے ہاتھ چھڑانے کی بہت کوشش کی لیکن پتھر کے شیر کے جبڑے اتنی سختی سے بند ہوگئے تھے کہ اس کا ہاتھ آزاد نہیں ہوسکا اور جب کلیم نے مڑ کر بالٹی کی طرف دیکھا تو اس میں اشرفیوں کے بجائے پتھر کے ٹکڑے پڑے تھے۔
 گھر پر اُس کی بیوی اس کا انتظار شدت سے کر رہی تھی یہاں تک کہ رات ہوگئی اور پھر وہ اپنے شوہر کی تلاش میں نکلی اور جیسے ہی پتھر کے شیر کے پاس پہنچی کہ اُس نے دیکھا کہ اُس کا شوہر حیران و پریشان کھڑا ہے۔ اس نے اپنے شوہر کو اس حالت میں دیکھ کر کہا، ’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ گھر کیوں نہیں آئے ابھی تک؟‘‘
 کلیم نے جواب دیا، ’’تم دیکھ نہیں رہی ہو کہ مَیں کس مصیبت میں گرفتار ہوں۔ مَیں نے سونے کا ایک ٹکڑا نکالنے کیلئے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالا تو اُس نے اپنا منہ بند کر لیا اور اب اِس مصیبت سے نجات پانا بہت مشکل ہے۔‘‘ یہ سُن کر اُس کی بیوی رونے لگی اور شیر سے گڑگڑانے لگی، لیکن شیر نے جواب نہیں دیا۔ اسی عالم میں روتی پیٹتی اپنے بھوکے شوہرکیلئے کھانا لینے گئی۔ اور اُس دن کے بعد اُس کا یہ روز کا معمول بن گیا اور آہستہ آہستہ گھر کی ساری چیزیں بک گئیں، یہاں تک کہ ایک دن اُس کو اپنا گھر بھی فروخت کرنا پڑا۔ اب تو اس کو روٹیوں کے بھی لالے پڑ گئے۔ اسی عالم میں اُس نے شیر سے ساری باتیں کہہ دیں۔
 شیر نے یہ سُن کر پہلے تو دانتوں کو دبائے ہوئے ہنسنے لگا پھر اپنا جبڑا کھول کر ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ جیسے ہی شیر کا منہ کھلا کلیم اپنی بیوی کو لے کر تیزی سے پہاڑی سے نیچے اُتر گیا اور چھوٹے بھائی سے سارا واقعہ کہہ سنایا۔
 چھوٹے بھائی نے کہا، ’’دراصل یہ غلطی آپ کی ہے آپ نے شیر کی ہدایت پر عمل نہیں کیا اور زیادہ سے زیادہ اشرفیاں حاصل کرنے کی لالچ میں پڑ گئے۔‘‘ پھر اس نے کہا، ’’بہرحال جو ہوا سو ہوا۔ مَیں پچھلی باتوں کو بھلا کر تم لوگوں کو اتنی رقم دے دیتا ہوں جس سے تم ایک کھیت اور مکان خرید لو اور اپنی باقی زندگی آرام سے گزار سکو۔‘‘n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK