یہ کہانی جنگل میں مکار راجہ سے آزادی کی جدوجہد کو بیان کرتی ہے۔
EPAPER
Updated: August 16, 2025, 3:48 PM IST | Shafiq Mohsin (Malegaon, Nashik) | Malegaon, Nashik
یہ کہانی جنگل میں مکار راجہ سے آزادی کی جدوجہد کو بیان کرتی ہے۔
شفیق محسن (مالیگاؤں، ناسک)
inquilab@mid-day.com
جنگل کا راجہ یعنی شیر، بہت زیادہ بیمار تھا اور بہت کمزور اور لاغر ہوچکا تھا۔ تمام ہی جنگلی جانور فکر مند تھے۔ شیر کے راج میں جنگل میں ہر طرح کا امن و امان تھا۔ کسی پر کوئی ظلم زیادتی نہیں ہوتی۔ اگر کسی جانور نے کسی جانور پر کسی طرح کا ظلم کیا تو اسے عبرتناک سزا ملتی تھی اور مظلوم کو پورا انصاف ملتا تھا۔ چالاک لومڑی راجہ کی مشیر اور وزیر تھی جو کہ بہت ذہین اور بردبار تھی۔ جس کی حاضر دماغی سے کبھی کبھی بڑے بڑے مسئلے حل ہو جاتے تھے۔ خود لومڑی بھی بادشاہ کی طرف سے بہت زیادہ فکرمند اور تشویش میں مبتلا تھی۔ کیونکہ راجہ اب چند دنوں کا مہمان تھا۔
بھیڑیوں کے گروہ نے شیر کی کچھار کا محاصرہ کرلیا۔ اور دیگر جانوروں کو وہاں سے دور رہنے کا اعلان کر دیا۔ گویا ایک طرح کا کرفیو کا ماحول بن گیا۔ بھیڑیوں کا لیڈر جو نہایت چالاک مکار اور گھاگ قسم کا درندہ تھا۔ اس نے لومڑی کو پوری طرح خوف زدہ کرنے کے بعد اس کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی کہ وہ جنگلی جانوروں کا خیر خواہ ہے اگر اسے سردار بنا دیا جائے تو پہلے سے زیادہ خوشحالی اور امن و امان قائم کردے گا کیونکہ وہ بہت طاقتور ہے۔ کوئی درندہ ان بھیڑیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ لومڑی ان خطرناک بھیڑیوں سے پوری طرح خوف زدہ تھی آخر اس نے دباؤ میں آکر اعلان کردیا کہ: اب ہمارے راجہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ اور اب انہی کے تائید کردہ ایک نہایت نیک اور ایماندار بھیڑیے کو جنگل کا راجہ بنایا جاتا ہے۔ سبھی جانوروں کو چاہئے کہ وہ نئے راجہ کی بادشاہت قبول کریں۔ اور اپنے مقدمے نئے راجہ کی عدالت میں پیش کریں۔
دوسرے روز نئے بادشاہ کی عدالت میں کئی مقدمے پیش ہوئے:
پہلا مقدمہ: ایک ہرنی نے فریاد درج کروائی کہ ایک بکرے نے اسے بہت تنگ کیا ہوا ہے۔ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے گھورتا رہتا ہے۔ مجھے انصاف چاہئے! بکرے کو رسیوں سے جکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لایا گیا۔ بکرے نے اپنی صفائی میں اتنا کہا، حضور! کسی کو گھورنا جرم نہیں ہے۔
نیا راجہ غصے سے لال بھبھوکا ہوگیا۔ اور گرج کر بولا، تم نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت کیوں کی؟ تمہیں اس جرم کیلئے دو سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے۔ بکرا بہت بلبلایا مگر اسے گھسیٹ کر لے جایا گیا۔
دوسرا مقدمہ: دو جنگلی بکرے ایک دوسرے سے لڑ پڑے اور دونوں ہی بری طرح زخمی ہوچکے تھے۔ نئے راجہ نے فرمان جاری کیا، دونوں بکروں نے جس طرح کی دہشت گردی کی ہے اور جنگل کے امن آمان کو خطرے میں ڈالا ہے۔ اس جرم پر دونوں کو ہی گرفتار کیا جاتا ہے اور دونوں کو ایک ایک سال کی سزائے قید با مشقت دی جاتی ہے۔
تیسرا مقدمہ ایک بھالو نے کیا: جو کہ ایک اچھی خاصی بڑی زمین پر دوائیں اگاتا تھا جس سے وہ جانوروں کا علاج کرتا تھا۔ پچھلے کئی مہینوں سے وہ پریشان تھا کہ اس کی اگائی ہوئی دوائیں کوئی جانور ہے جو اکثر راتوں میں آکر چر جاتا ہے آخر ایک دن وہ چور پکڑا گیا۔ جو کہ ایک صحتمند بانکا ہرن تھا۔ اس کے بھرے بھرے جسم پر خوبصورت کھال چمک رہی تھی۔ نئے راجہ نے جب اسے دیکھا تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھرتے ہوئے کہا، تمہیں اس جرم کی پاداش میں ایک سال کی سزائے قید با مشقت دی جاتی ہے۔ پھر اس نے اپنے کارندوں سے کہا، اسے میرے لئے مخصوص کر دو۔ مجھے اس سے کچھ پوچھ گچھ کرنی ہے۔
اسی طرح دن گزرتے گئے۔ اور گھاگ راجہ آرام سے عدالت سجائے جانوروں کو سزا سناتا رہا اور سزا یافتہ جانور ان بھیڑیوں کے پیٹ میں پہنچتے گئے۔ ان خونخوار بھیڑیوں نے تو جنگل کے راجہ یعنی شیر کو پہلے ہی دن لومڑی کے سامنے ہڑپ کر گئے تھے۔ لومڑی نے یہ سب درندگی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ اس لئے ان بھیڑیوں سے بہت زیادہ خائف تھی اور وہ بھیڑیوں کی ہر بات پر بے چون و چرا عمل کرتی رہی۔
ادھر جانوروں میں ایک طرح کی بے چینی پھیل چکی تھی کہ جن جانوروں کو سزا ہوتی ہے نہ وہ دوبارہ دکھائی دیتے ہیں نہ ان کو جہاں قید کیا جاتا ہے وہ ٹھکانہ کسی نے دیکھا ہے۔ سبھی جانوروں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ اب کوئی جانور نئے راجہ کی عدالت میں کوئی مقدمہ نہیں لے جاتا۔ جس کی وجہ سے بھیڑیوں کی خوراک بند ہوگئی۔ اور انہوں نے اپنے مکار راجہ سے شکایت کردی۔
دوسرے روز جنگل بھر میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ آج سے جنگل کے قانون میں ترمیم کی جاتی ہے۔ آج سے کوئی جانور راستے میں غلاظت نہیں کرے گا۔ یہ سنگین جرم ہے۔ ایسا کرنے والے جانور کو سزا دی جائے گی۔ سارے جانور پریشان ہو گئے اور پھر جگہ جگہ گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ جانور دہشت سے چلانے لگے رونے لگے مگر کوئی ان کی فریاد رسی کرنے والا نہیں تھا۔
دوسرے روز دوسرا اعلان ہوا کہ ندی کے صاف شفاف پانی میں نہانا منع ہے اگر کوئی جانور پانی میں نہایا یا اس میں گندگی کی تو اسے سزا دی جائیگی۔
اس دوسرے حکم سے کہرام مچ گیا۔ بطورِ خاص جنگلی بھینسے بہت چراغ پا ہوئے۔ کیونکہ ان کی تو روز کی عادت ہوتی ہے پانی میں بیٹھنے کی۔ بھینسوں نے کسی کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ اور ندی میں اتر کر جا بیٹھے۔ اگر بھیڑیے کچھ کہتے تو یہ ان پر ٹوٹ پڑتے۔
تیسرے دن پھر یہ اعلان ہوا کہ راجہ کے کسی کارندے پر حملہ سب سے بڑا سنگین جرم ہے۔ حملہ کرنے والے کو جگہ پر ہی موت کی سزا دی جائے گی۔ اب آئے دن یہ خوف ناک تماشا جنگلی جانور اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ ایک اکیلے بھینسے کو بھیڑیے چاروں طرف سے گھیر لیتے اور بھینسے کو آہستہ آہستہ زخمی کرکے گرا دیتے اور پھر اس پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑتے۔
جنگل کے سبھی جانور بھیڑیوں کی تمام کارستانیوں سے واقف ہوچکے تھے۔ دہشت سے سبھی خاموش تھے۔ مگر ایک روز جانوروں نے لومڑی کو گھیر لیا۔ اور بڑی عاجزی سے التجا کی کہ ہمیں ان وحشی درندوں سے بچاؤ۔ تم تو ہمارے راجہ شیر کی ہوشیار مشیر تھیں۔ اب اس برے وقت میں ہماری مدد کرو۔ لومڑی جو بھیڑیوں سے حد درجہ خائف تھی۔ یہ بول کر صاف نکل گئی کہ یہ سب تمہارا ہی کیا دھرا ہے۔ اب میں کیا کرسکتی ہوں؟ تم لوگوں نے راجہ کے کارندوں پر حملہ کیا تھا۔ اب بھلا میں کیا کرسکتی ہوں۔
آخر جانوروں نے جنگل کے اندرونی حصے میں ایک خفیہ میٹنگ کی۔ جس کی بھنک بھی ان بھیڑیوں کو نہ لگنے دی۔ اس میٹنگ میں بس ایک ہی مدعا تھا کہ ان خطرناک مکار بھیڑیوں سے کس طرح نجات حاصل کی جائے؟ سبھی نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ بندر نے کہا، ’’میں نے قریب کے جنگل میں بڑے بڑے ہاتھی دیکھے ہیں اگر ہم ان سے مدد مانگیں تو شاید وہ ہمیں اس مصیبت سے چھٹکارا دلا دیں۔‘‘ بھالو نے کہا کہ، ’’پڑوس کے جنگل میں تنومند گینڈے بھی ہیں۔ کیوں نہ ان سے مدد لی جائے۔‘‘ ابھی یہ سب گفتگو ہو رہی تھی کہ سامنے جھاڑیوں سے لومڑی نکل کر آ گئی۔ اور کہا، ’’چلو یہ بات اچھی ہوئی کہ جنگل کے سبھی جانور ان مکار بھیڑیوں کے مکر و فریب سے واقف ہوچکے ہیں۔ اور اب ان کیخلاف سبھی کے دل میں بغاوت کا جذبہ پیدا ہوچکا ہے۔ جب تم سبھوں نے مجھ سے مدد کی درخواست کی تھی اس وقت تمہارے اندر بغاوت کا یہ جوالہ مکھی نہیں تھا۔ تم سب ایک مظلوم کی طرح میرے پاس فریاد لے کر آئے تھے۔ میں اکیلی تمہاری کیا مدد کرسکتی تھی؟ آج تمہارے اندر یہ جرأت مندانہ جذبہ دیکھ کر میں تمہاری مدد کرنے کیلئے حاضر ہوگئی۔ دوسروں سے مدد مانگنے کے بجائے ہمیں خود اپنے بل بوتے پر یہ لڑائی لڑنی ہوگی۔ ہمارے درمیان سب سے طاقتور کوئی جانور ہے تو وہ ہیں جنگلی بھینسے۔ یہ تنہا تو ان بھیڑیوں کا شکار ہو جاتے تھے۔ مگر یہ ایک جھنڈ کی صورت ان بھیڑیوں پر حملہ کر دیں تو انہیں بھاگنے کیلئے راستہ نہیں ملے گا۔ ساتھ ہی دیگر سبھی جانور بھی ایک ساتھ ان پر حملہ کردیں اور اپنے نوکیلے سینگوں سے انہیں بری طرح زخمی کرسکتے ہیں۔ اس طرح ایک بھی بھیڑیا زندہ بچ کر نہیں نکل سکتا۔
دوسرے روز صبح پوری پلاننگ کے ساتھ جنگلی بھینسوں نے بھیڑیوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور پوری قوت سے حملہ کردیا۔ اس غیر متوقع حملے سے بھیڑیے بری طرح بوکھلا گئے۔ اور بھاگنے کی کوشش کرنے لگے مگر چاروں طرف سے جنگلی جانور بھی ٹوٹ پڑے۔ زبردست لڑائی ہوئی۔ کچھ ہرن اور بکرے ضرور زخمی اور ہلاک ہوئے مگر بھیڑیوں کا صفایا ہونا شروع ہوچکا تھا۔ جنگلی بھینسے بھیڑیوں پر پوری شدت سے حملہ کر رہے تھے۔ جن کا مقابلہ کرنا بھیڑیوں کے بس سے باہر تھا۔ ایک ایک کرکے بھیڑیے ہلاک ہونے لگے آخر بھیڑیوں کے سردار کا نرخرا لومڑی نے اپنے تیز نوکیلے دانتوں سے اُدھیڑ دیا اور اس طرح ظلم اور مکاری کی بنیاد پر قائم کی گئی حکومت ختم ہوگئی۔ کمزور اور جرأت مند جانوروں نے اپنی جان داؤ پر لگا کر بالآخر حق اور باطل کی اس جنگ کو جیت لیا۔
جنگل میں ایک جشن کا سماں تھا۔ سارے جانور خوشی سے جھوم رہے تھے۔ ایک دوسرے کو آزادی کی مبارکباد پیش کر رہے تھے اور آزادی کا روشن سورج مشرق سے بلند ہوچکا تھا۔