حماس نے عرب ثالثوں کی نئی جنگ بندی تجویز قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔دوسری جانب اسرائیل اپنے مؤقف پر قائم ہے اور وزیرِاعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک تمام یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کی مکمل غیر مسلح نہ ہو جائے۔
EPAPER
Updated: August 19, 2025, 9:57 PM IST | Gaza
حماس نے عرب ثالثوں کی نئی جنگ بندی تجویز قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔دوسری جانب اسرائیل اپنے مؤقف پر قائم ہے اور وزیرِاعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک تمام یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کی مکمل غیر مسلح نہ ہو جائے۔
حماس نے پیر کو کہا کہ اس نے عرب ثالثوں کی جانب سے غزہ پٹی میں جنگ بندی کے لیے پیش کیے گئے ایک نئے تجویز کو قبول کر لیا ہے، جب کہ اسرائیل نے اشارہ دیا ہے کہ اس کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق ۲۲؍ ماہ کی جنگ میں فلسطینی ہلاکتوں کی تعداد ۶۲؍ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی واشنگٹن کی ثالثی میں جاری طویل مذاکرات پر شبہ ظاہر کیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا:
"ہم باقی یرغمالوں کی واپسی صرف اسی وقت دیکھیں گے جب حماس کا سامنا کیا جائے گا اور اسے تباہ کر دیا جائے گا!!! جتنی جلدی یہ ہو، کامیابی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔"
اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ شہر اور دیگر گنجان آباد علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرے گا، جب کہ گزشتہ ماہ جنگ بندی مذاکرات کے ٹوٹنے کے بعد انسانی بحران کے مزید سنگین ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق غزہ قحط کے دہانے پر ہے۔
فوجی کارروائی میں توسیع کے منصوبے، جو جزوی طور پر حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہیں، نے عالمی سطح پر شدید غصہ بھڑکا دیا ہے اور بہت سے اسرائیلی شہریوں کو بھی ناراض کر دیا ہے جو باقی یرغمالوں کی زندگی کے بارے میں فکر مند ہیں، جنہیں ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے حملے کے دوران قید کیا گیا تھا۔ اتوار کو لاکھوں افراد نے ان یرغمالوں کی واپسی کے لیے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔
مصر کا کہنا ہے کہ وٹکوف کو مذاکرات میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے
یہ بھی پرھئے: غزہ کے شدید بیمار بچوں کو برطانیہ ایئر لفٹ کرنے کیلئے تیار
مصری وزیرِ خارجہ بدر عبدالعاطی نے کہا کہ ثالث "وسیع کوششیں" کر رہے ہیں تاکہ امریکا کی ۶۰؍دن کی جنگ بندی کی تجویز کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے۔ اس دوران باقی ۵۰؍ یرغمالوں میں سے کچھ کو رہا کیا جائے گا اور فریقین ایک مستقل جنگ بندی اور باقی یرغمالوں کی رہائی پر بات کریں گے۔
عبدالعاطی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کو جنگ بندی مذاکرات میں شامل ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔
انہوں نے صحافیوں سے گفتگو مصر کے رفح کراسنگ پر کی، جو مئی ۲۰۲۴؍ میں اسرائیل کے قبضے کے بعد سے بند ہے۔ ان کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے وزیرِاعظم محمد مصطفی بھی موجود تھے، جنہیں جنگ کے آغاز کے بعد سے زیادہ تر نظر انداز کیا گیا ہے۔
عبدالعاطی نے کہا کہ قطری وزیرِاعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی بھی ان مذاکرات میں شریک ہو گئے ہیں، جن میں حماس کے سینئر رہنما خلیل الحیہ بھی شامل ہیں جو گزشتہ ہفتے قاہرہ پہنچے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ دیگر تجاویز کے لیے بھی کھلے ہیں، جن میں ایک جامع معاہدہ بھی شامل ہے جس کے تحت تمام یرغمالوں کو ایک ساتھ رہا کیا جا سکتا ہے۔
حماس کے سینئر عہدیدار باسم نعیم نے اے پی کو بتایا کہ جنگجو گروہ نے ثالثوں کی پیش کردہ تجویز قبول کر لی ہے، لیکن اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
یہ بھی پرھئے: غزہ جنگ پر اسرائیلی بھی چیخ اُٹھے ، کہاکہ ’اب بس‘
ایک مصری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس تجویز میں اسرائیلی فوج کی پسپائی سے متعلق تبدیلیاں اور ابتدائی جنگ بندی کے دوران مستقل فائر بندی پر مذاکرات کی ضمانتیں شامل ہیں۔ اہلکار کے مطابق یہ تقریباً اسی تجویز جیسی ہے جسے اسرائیل نے پہلے قبول کیا تھا، لیکن ابھی تک وہ تازہ مذاکرات میں شامل نہیں ہوا۔مصر کی اسٹیٹ انفارمیشن سروس کے سربراہ ضیاء رشوان نے اے پی کو بتایا کہ مصر اور قطر نے وہ تجویز اسرائیل کو بھیج دی ہے جسے حماس نے قبول کیا ہے۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ اسرائیل کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، خاص طور پر تمام یرغمالوں کی رہائی کے معاملے پر۔ یہ اہلکار میڈیا سے بات کرنے کے مجاز نہیں تھے۔وزیرِاعظم نیتن یاہو نے عہد کیا ہے کہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک تمام یرغمالوں کو واپس نہ لایا جائے اور حماس کو غیر مسلح نہ کر دیا جائے، اور اسرائیل غزہ پر مستقل سکیورٹی کنٹرول برقرار رکھے گا۔ حماس نے کہا ہے کہ وہ باقی یرغمالوں کو صرف مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی انخلا کے بدلے رہا کرے گا۔
نیتن یاہو نے اسرائیلی عوام سے خطاب کرتے ہوئے ایک ویڈیو میں کہا کہ حماس کے اس تجویز کو قبول کرنے کی خبریں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ "بہت زیادہ دباؤ" میں ہے۔