Inquilab Logo

بویا پیڑ ببول کا....

Updated: June 01, 2024, 1:28 PM IST | Shakeel Anwar Siddiqui | Mumbai

ہوسٹل کے وارڈن صاحب بڑے بااصول آدمی تھے۔ انہوں نے ایک اصول یہ بنایا تھا کہ کوئی لڑکا رات کو ۱۱؍ بجے کے بعد نہیں پڑھے گا۔ گیارہ بجے کے بعد جس کے کمرے میں بھی روشنی دیکھی جائے گی اُسے سزا دی جائیگی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اگر سڑک پار کرنے کیلئے فٹ پاتھ پر ایک گھنٹے سے سڑک خالی ہونے کے انتظار میں کوئی اچھا بھلا آدمی آپ کو کھڑا نظر آجائے اگر کسی میدان میں بچے کرکٹ کھیل رہے ہوں، ان کا امپائر ان سے بڑا کوئی جوان لڑکا ہو جو سامنے سے پھینکی ہوئی گیند کیچ کرکے وکٹ سے لگا کر آؤٹ آؤٹ کا شور مچائے، یا کبھی آپ ہمارے گھر آئیں اور پاپا کو ہم میں سب سے بڑے جوان لڑکے کو ڈانٹتے ہوئے دیکھیں، یا پھر ہمارے ساتھ امی کی الماری سے چرائی ہوئی مٹھائی کھاتے اور جلدی جلدی صاف کرتے آپ کو ہم میں سب سے بڑا کوئی لڑکا نظر آجائے... تو پہچان لیجئے وہی ہمارے چچا نفیس ہیں۔ مگر یہ اُن دنوں کا ذکر ہے کہ جب چچا نفیس ہماری ہی طرح چھوٹے تھے۔ سچ مچ کے چھوٹے (آج کل تو وہ نہ چھوٹوں میں شامل ہیں، نہ بڑوں میں) دادا جان کا انتقال ہوچکا تھا اور پاپا کو بڑوں کے تمام اختیارات مل گئے تھے تمام گھر کی ذمہ داری ان پر تھی۔ سرکاری ملازم تھے۔ ایک دن یہاں سے تبادلہ ہوتا تو دوسرے دن وہاں سے۔ پاپا جہاں جاتے گھر کے تمام لوگ بھی ساتھ رہتے۔ ایک بار پاپا کا تبادلہ اُن دنوں ہوا جب چچا نفیس کے ششماہی امتحان جاری تھے نہ تو چچا کا امتحان رک سکتا تھا اور نہ تبادلہ کا سرکاری حکم۔ بہت سوچا کہ کیا کیا جائے آخر یہ طے ہوا کہ چاچا نفیس کو چھ ماہ کیلئے اسکول کے ہوسٹل میں داخل کر دیا جائے، وہاں رہ کر وہ اپنا یہ سال پورا کریں اور پھر گھر آجائیں۔ یہ اُن ہی دنوں کی بات ہے جب وہ حسن پور ہائی اسکول کے ہوسٹل میں تھے۔ گھر اور ہوسٹل کی زندگی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ابتدائی دنوں میں تو وہ کچھ گھبرائے بھی لیکن پھر انہوں نے خود کو ہوسٹل کے ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔
 چچا نفیس پڑھنے لکھنے میں پیچھے رہنے والوں میں سے نہیں تھے۔ وہ اپنا ہر روز کا کام روز ہی ختم کر لیا کرتے۔ دوسرے لڑکے کام نہ کرنے کے سلسلے میں سزا پاتے ہوتے تو وہ اپنی سیٹ پر بیٹھے مزے سے کوئی دوسرا کام کرتے رہتے۔ بہت سے لڑکے ان کے ہر روز سزا سے بچ جانے سے جلنے لگے تھے۔ اُنکے ساتھیوں میں ایک صاحب تھے جمال صاحب۔ بقول چچا کے جمال صاحب کیا تھے بس آفت کی پڑیا تھے۔ وہ بھی ہوسٹل ہی میں رہتے تھے ہر روز ہوسٹل کے قانون توڑتے تھے اور سزا پاتے تھے۔ لیکن خدا جانے کس مٹی سے بنے تھے کہ ماسٹر سزا دیتے دیتے تھک گئے تھے۔ کلاس ٹیچر نے کلاس میں ان کا داخلہ ہی ممنوع کر دیا تھا لیکن وہ تھے کہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوتے تھے۔ ایک بار چچا نے اُن کے حق میں جھوٹ بولنے سے انکار کر دیا تو وہ چچا سے بری طرح جلنے لگے۔ کچھ لڑکے تو پہلے ہی چچا سے حسد کرتے تھے اب ان سب کے سردار بن گئے۔ جمال کل ملا کر آٹھ لڑکوں کی یہ ٹولی تھی جو ہر طرح چچا نفیس کو پریشان کرتے اور ستانے کی کوشش کرتے۔
ہوسٹل کے وارڈن صاحب بڑے بااصول آدمی تھے۔ انہوں نے ایک اصول یہ بنایا تھا کہ کوئی لڑکا رات کو ۱۱؍ بجے کے بعد نہیں پڑھے گا۔ گیارہ بجے کے بعد جس کے کمرے میں بھی روشنی دیکھی جائے گی اُسے سزا دی جائیگی۔ جرمانہ ہوتا تب بھی برداشت کر لیا جاتا لیکن وہاں سزا ملتی تھی۔ اور سزا بھی کیسی؟ صبح کو اسکول شروع ہونے سے چھٹی ہونے تک لان میں کھڑا رہنا پڑتا۔ وارڈن صاحب نے چوکیدار کو حکم دے دیا تھا کہ وہ گیارہ کا گھنٹہ بجتے ہی پورے ہوسٹل میں گشت کرے اور جس کے کمرے میں روشنی دیکھے اس کا نام لکھ کر دے۔ چوکیدار بھی ایک ہی تھا۔ نہ جانے کب چور کی طرح دبے پاؤں آتا اور نام لکھ کر لے جاتا۔ وہ تو معلوم ہی اس وقت ہوتا جب صبح کو لان میں کھڑا ہونا پڑتا۔ ایک دن چچا صبح ہی سے سر میں درد محسوس کر رہے تھے سہ پہر تک تو درد اور بھی بڑھ گیا۔ اُدھر سر سے اونچا ہوم ورک، مرتے کیا نہ کرتے پڑھنے بیٹھے۔ سر کا درد اور بھی بڑھ گیا۔ دو چار سر درد کی گولیاں کھائیں، مگر درد تو قرض خواہ کی طرح چمٹا ہوا تھا، کتابوں کو سمیٹا اور لیٹ گئے۔ نہ جانے کب نیند آگئی۔ اب اس کو کیا کرے کوئی کہ نیند آتی ہی ہے چور کی طرح دبے پاؤں۔ خبر تک نہ ہوئی کہ کب سوگئے۔ وہ سوتے رہے اور جب اچانک آنکھ کھلی تو ہڑبڑا کر اُٹھے۔ گھڑی دیکھی تو ۱۰؍ بج چکے تھے۔ ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اب وہ ایک گھنٹے میں کیا کرسکتے تھے ہسٹری کے نوٹس تیار کریں یا ریاضی میں سر کھپائیں۔ انگریزی میں الگ ایک عجیب سے عنوان پر مضمون لکھنا تھا۔ اگر گیارہ بجے تک یہ سب پورا نہ ہوا تو سزا ملے گی۔ اور گیارہ بجے کے بعد تک پڑھتے رہنے سے بھی سزا... وہ سوچنے لگے۔ ’’ارے! دیکھا جائیگا۔ ہوم ورک تو مکمل ہوجائیگا۔‘‘ انہوں نے ہمت سے کام لیا اور بیٹھ گئے ہوم ورک کرنے۔ ایک بج گیا۔ انگریزی مضمون کی آخری لائنیں لکھ رہے تھے کہ اچانک کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ چچا کے ہاتھ سے قلم گر گیا۔ جلدی سے اُٹھ کر دروازہ کھولا۔ سامنے جمال کھڑے تھے بہت پریشان پریشان۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘ ’’بات کیا ہوتی؟‘‘ جمال نے کہا، ’’وہ عبدل کا بچہ، میرا اور تمہارا نام لکھ کر لے گیا۔ مَیں نے بڑی خوشامدوں کے بعد اپنا نام کٹوا لیا، مگر....‘‘ ’’مگر کیا؟‘‘ انہیں تشویش ہوئی۔ ’’یہی کہ اب تمہارا نام صبح ہی کو وارڈن صاحب کو بتائے گا۔ اور پھر....‘‘ چچا نے پوری بات بھی نہیں سنی اور عبدل کی کوٹھری کی طرف بھاگے۔ ان کا خیال تھا کہ پہلی غلطی ہے۔ خوشامد کرنے سے کام چل جائیگا۔ وہ بھاگ بھاگے ہوسٹل کے دوسرے سرے پر بنی ہوئی عبدل کی کوٹھری تک پہنچے۔ کوٹھری کے کواڑوں میں ایک بڑا سا تالا جھول رہا تھا، جیسے چڑا رہا ہو۔ ’’دھت تیرے کی۔‘‘ چچا بڑبڑائے۔ عبدل تو شام ہی سے چھٹی چلا گیا تھا۔ چچا جھلا کر رہ گئے۔ یہ جمال کے ہاتھوں اُن کی پہلی ہار تھی۔
 ایک دن چچا خواب دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنی کلاس میں فرسٹ کلاس پاس ہوگئے ہیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے اُن کے گلے میں ہار ڈال دیا ہے اور وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں کہ اچانک ان کے گلے سے وہ ہار کسی نے نوچ لیا۔ گھبرا کر چچا کی آنکھ کھل گئی۔ دروازے پر دستک ہورہی تھی، وہ آنکھ ملتے اُٹھے۔ ’’کون؟‘‘ باہر سے کوئی آواز نہیں آئی تو چچا نے کواڑ کھولے۔ مگر باہر کوئی نہیں تھا۔ جھلا کر کواڑ پھر بند کر لئے اور بستر پر آکر لیٹ گئے۔ کنڈی پھر کسی نے کھٹکھٹائی، چچا نے پھر کواڑ کھولے مگر باہر سناٹا تھا۔ ابھی کواڑ بند کرکے پلٹے ہی تھے کہ کنڈی پھر کھٹکھٹائی گئی۔ چچا نے جھلا کر کواڑ کھول دیئے اور پھر اپنا سر پکڑ کر رہ گئے کنڈی میں ایک دھاگا بندھا ہوا تھا اور کوئی دور سے اُسے کھینچ کر کنڈی کھٹکھٹا دیتا تھا ظاہر ہے یہ جمال ہوں گے۔
 ایک دن اچانک بارش ہوگئی۔ اسی دن وارڈن صاحب کے کچھ عزیز آگئے، وارڈن صاحب کا کمرہ بدقسمتی سے بارش میں ٹپکنے لگا۔ دوسرے تمام کمروں میں دو دو تین تین لڑکے رہتے تھے صرف چچا نفیس کا کمرہ ہی ایسا تھا جس میں وہ تنہا رہا کرتے تھے۔ وارڈن صاحب نے اپنے ایک عزیز کا بستر چچا کے کمرے میں لگوا دیا۔
 کچھ دیر تک توچچا اور وارڈن صاحب کے وہ عزیز جن کا نام اکرام تھا۔ باتیں کرتے رہے پھر سوگئے۔ اچانک اکرام صاحب کی آنکھ کھل گئی، ان کا بستر کھڑکی کے پاس ہی لگا ہوا تھا، انہیں اپنا بستر بھیگا ہوا محسوس ہوا۔ وہ سمجھے شاید کھلی ہوئی کھڑکی سے بارش کی پھوار آئی ہوگی اور بستر بھیگ گیا ہوگا۔ ہاتھ بڑھا کر انہوں نے کھڑکی بند کر دی، اور بستر کا رُخ پلٹ کر لیٹ گئے۔ اتنے میں باہر سے آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آواز آئی: ’’پوری بالٹی ہی ڈال دو۔‘‘ اس بار کسی نے کہا۔ ’’پہلے دیکھ تو لو۔ ہوسکتا ہے اب بستر چھوڑ کر زمین پر ہی سو رہا ہو۔‘‘ اکرام صاحب کے کان کھڑے ہوئے پہلے انہوں نے سوچا کہ چچا کو جگائیں۔ پھر انہیں بھی تفریح سوجھی وہ آہستہ سے بستر سے اُتر کر کھڑکی کے پاس آئے اور ان لوگوں کی باتیں سننے لگے۔ وہ کھڑکی کے نیچے ہی تھے۔ اکرام صاحب نے آہستہ سے دروازہ کھولا لیکن پھر ٹھٹک گئے۔ ’’پہلے دروازہ کھٹکھٹاؤ۔ جیسے ہی دروازہ کھلے بالٹی الٹ دو۔‘‘ باہر سے آوازیں برابر آرہی تھیں۔ ’’دروازہ کھٹکھٹانے سے اب کچھ نہیں ہوگا وہ سمجھ جائے گا کتنی بار تو ایسا ہوا ہے۔‘‘ ’’پھر.. اب تو کھڑکی بھی بند ہے۔‘‘ ’’روشن دان...‘‘ کسی نے روشن دان کی سجھائی۔ اکرام صاحب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ اس سے پہلے کہ باہر سے کوئی روشن دان سے جھانکے وہ روشن دان کے برابر میں کھڑے ہوچکے تھے۔ آہستہ آہستہ دو ہاتھ روشن دان کے کنارے پر ابھرے جب ہی اکرام صاحب نے وہ دونوں ہاتھ پکڑ لئے۔ باہر ایک چیخ اُبھری۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ ’’جان سے مار ڈالونگا۔‘‘ اکرام صاحب نے آہستہ سے سرگوشی کی۔ اُن کا لہجہ بہت خوفناک تھا۔ ’’جیسے مَیں کہوں ویسا ہی کہو۔‘‘ ’’آپ کو... کو... کون ہیں...؟‘‘ ’’بھوت!‘‘ ’’کچھ بتا بھی۔ تُو تو لٹک کر رہ گیا۔‘‘ نیچے سے پھر کسی نے کہا۔ ’’کہہ دو، دروازہ کھلا ہے اندر آجاؤ۔‘‘ مرتا کیا نہ کرتا۔ وہ بیچارہ تو لٹکا ہوا تھا، اُس نے کہہ دیا۔ چار پانچ لڑکے اندر آگئے۔ ’’باہر سے کواڑ بند کرکے، چپ چاپ وارڈن صاحب کو بلا کر لاؤ۔ اسی میں تمہاری خیر ہے۔‘‘ اکرام صاحب نے اس کے ہاتھ چھوڑ دیئے۔ وہ لڑکے اندھیرے میں چچا نفیس کے بستر کو ٹٹول رہے تھے کہ کواڑ زور سے بند ہوگئے۔ ’’ارے!‘‘ بے اختیار سب کے منہ سے ایک ساتھ نکلا اور اسی وقت روشنی ہوگئی۔ ’’آپ!‘‘ ان لوگوں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اکرام صاحب کو دیکھا۔ اتنے میں وہ لڑکا وارڈن صاحب کو ساتھ لے کر آگیا۔ اور پھر چچا نفیس اپنے بستر سے بڑے اطمینان سے اُٹھ گئے۔ جیسے وہ پہلے ہی سے اس موقع کے منتظر ہوں۔ ’’بھائی جمال تم نے اتنی شراتیں کیں، مَیں نے تم سے کبھی شکایت نہ کی نہ کبھی بدلہ لینے کا خیال آیا اور آج بھی سب کچھ میرے جاگتے ہی میں ہوتا رہا۔ کیا بتاؤں بہت چاہا کہ اکرام صاحب کو تمہاری شرارتوں سے آگاہ کر دوں مگر بس تمہارا مقدر۔‘‘
 اور چچا نفیس نے پھر چادر تان لی۔
 دوسرے دن جو ہونا تھا وہی ہوا۔
 جمال صاحب کو ہمیشہ کیلئے اسکول اور ہوسٹل سے چھٹی مل گئی۔ انکے دوسرے ساتھیوں کو سزا کے بعد معاف کر دیا گیا۔ ان لوگوں نے اپنی غلطی تسلیم کر لی تھی۔ چچا نفیس اِن دنوں ایم اے کر رہے ہیں، ان کے وہ ساتھی بھی ان کے ساتھ ہیں جنہوں نے اپنی غلطی محسوس کرکے معافی مانگ لی تھی۔
 اور جمال صاحب؟
 وہ اِن دنوں پان بیڑی سگریٹ کی دکان کے مالک ہیں۔ بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق لوگوں کو اُلّو بنانے کے لئے کبھی کبھی پان میں چونا تیز کر دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں وہ بھی حسن پور میں ایک شادی میں مل گئے تھے اور اُسی دن چچا نفیس نے یہ کہانی سنائی تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK