امّی، پاپا، گڈّو اور چھوٹی مُنّی کے ساتھ تم کھانے کی میز پر بیٹھے ہو بڑی آپا باورچی خانے میں پلیٹیں لگا رہی ہیں۔ میز پر کھانا چن دیا گیا.... نان، سالن، مٹر پنیر، ٹماٹر اور انڈے۔ تمہارے منہ میں پانی بھر رہا ہے مسالے دار کھانوں کی مہک سے تمہاری بھوک چمک اٹھی ہے۔
امّی، پاپا، گڈّو اور چھوٹی مُنّی کے ساتھ تم کھانے کی میز پر بیٹھے ہو بڑی آپا باورچی خانے میں پلیٹیں لگا رہی ہیں۔ میز پر کھانا چن دیا گیا.... نان، سالن، مٹر پنیر، ٹماٹر اور انڈے۔ تمہارے منہ میں پانی بھر رہا ہے مسالے دار کھانوں کی مہک سے تمہاری بھوک چمک اٹھی ہے۔ کھانا شروع ہوا۔ بڑے اشتیاق سے تم نے پہلا نوالہ اپنے من پسند مٹر پنیر میں ڈبو کر منہ کے حوالے کیا... ہائیں! مگر یہ کیا؟ آخ تھو! نوالہ منہ کے باہر۔ بات کیا ہوئی؟ مرچ زیادہ تھی؟ کوئی کنکری آگئی؟ جی نہیں!
’’واہ رے میری بڑی آپا! نمک ہی ندارد۔ بالکل پھیکا۔ کیا خاک اچھا لگے؟‘‘
گویا یہ ثابت ہوا کہ مرغن اور لذیذ کھانے چاہے کتنے اہتمام سے پکائے جائیں، چٹکی بھر نمک کے بغیر ایسے ہی ہیں جیسے اندھے کو تاج محل دکھایا جائے۔
نمک ہماری روزمرہ کی زندگی کا اہم ترین جز ہے۔ خوراک کو لذت بخشنے کے علاوہ ہماری صحت اور چستی برقرار رکھنے کے لئے بھی نمک کی موجودگی بہت ضروری ہے۔ آج اسی اہم چیز کے بارے میں کچھ دلچسپ باتیں سنو۔
فارسی اور کھڑی بولی کے مشہور شاعر امیر خسرو نے نمک کی تعریف کے پُل باندھ دیئے تھے۔ یونانی عالم ہومر نے نمک کو فرشتوں کی عزیز ترین شے قرار دیا ہے۔ ہالینڈ اور سویڈن میں کافی عرصے تک یہ رواج عام تھا کہ جس قیدی کو سزا دینی ہوتی تھی اُس کی خوراک میں نمک بند کر دیا جاتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ نمک کی کمی کی بنا پر بے چارہ کمزور ہو کر چارپائی پکڑ لیتا تھا۔ یہ سزا کوئی معمولی سزا نہیں تھی۔
قدیم یونانی کتابوں میں تو یہاں تک درج ہے کہ ہندوستان میں نمک کی کانیں ہونے کی وجہ سے پاس پڑوس کے ممالک ہماری طرف آنکھیں لگائے رہتے تھے اور اچھے خاصے داموں پر ہم سے نمک خریدتے تھے۔
چین سے لے کر یونان تک، کتنے ہی ممالک کا پُرانی کتابوں میں تذکرہ آتا ہے جہاں نمک سونے چاندی اور دوسری مہنگی چیزوں کے عوض ملتا تھا۔
قدیم مصر میں کتنے ہی راستے خاص طور پر نمک کی آمدورفت کیلئے بنائے گئے تھے۔ اٹلی کی مشہور پرانی سڑک وایا سیلیریا، نمک کے ہی نام پر ہے۔ پُرانے وقتوں میں اٹلی میں سپاہیوں کو تنخواہ کے عوض میں نمک ملتا تھا۔ اُسے ’سیلیسریم‘ کہتے تھے۔ موجودہ انگریزی لفظ سیلیری (تنخواہ) اسی سے بنا ہے۔ اس دستور کو ظاہر کرنے والی کئی تصویریں آج بھی روم کے سرکاری عجائب گھر میں محفوظ ہیں جن میں قطار باندھے ہوئے سپاہیوں کو تنخواہ کے عوض نمک قبول کرتے دکھایا گیا ہے۔
نمک کی سماجی اہمیت بھی کم نہیں ہے۔ نمک کھانے، اور حق ِ نمک ادا کرنے کے محاورے عام ہیں۔ عرب کے کئی قبیلوں میں نمکین کھانے دوستی کا نشان مانے جاتے تھے۔ نمک کھانا ایک ذمہ داری کو قبول کرنا ہے نمک حرام، اور نمک حلال، الفاظ کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔