Inquilab Logo

ایک طبع زاد کہانی: یونانی موسیقار

Updated: April 13, 2024, 6:06 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

یہ تھریس نامی قصبے کے ایک موسیقار کی کہانی ہے۔ اس یونانی لوک کہانی سے متاثر ہوکر مشہور مصوروں نے تصویریں بنائی ہیں جو آج دنیا کے بڑے آرٹ میوزیم کا حصہ ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

کوہ بلقان کے درمیان بسے تھریس نامی یونانی قصبے میں سورج کی پہلی کرن پڑتے ہی بربط (ایک قسم کا ساز) کی انتہائی مسحورکن آواز گونجنے لگی جو تیز تھی نہ دھیمی۔ ہواؤں کے دوش پر سنائی دیتی یہ موسیقی کانوں کو بھلی معلوم ہورہی تھی۔ موسیقی کی آواز کے ساتھ ہی لگا کہ کسی نے اس سوئے ہوئے قصبہ میں جان پھونک دی ہو۔ گھروں اور دکانوں کے دروازے کھلنے لگے اور لوگ اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ بربط کی آواز اب بھی گونج رہی تھی۔ کہتے ہیں کہ تھریس کے لوگ ہر صبح بربط کی آواز سن کر ہی بیدار ہوتے تھے۔ کیا انسان، کیا چرند پرند، ہر کسی کو اس آواز کا انتظار رہتا تھا۔ سورج پہاڑوں سے سر نکالتا کہ بربط کی آواز قصبے کو جگانے میں مصروف ہوجاتی ۔
اس کا نام ’’آرفیس‘‘ تھا جو انتہائی خوبصورت انداز میں بربط بجاتا تھا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ روئے زمین پر آرفیس جیسا بربط بجانے والا موسیقار آج تک پیدا نہیں ہوا ہے۔ صرف تھریس ہی نہیں پورے یونان میں اس کی مہارت کے چرچے تھے۔ اسے دیگر علاقوں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کیلئے بلایا جاتا تھا۔ خوشی کا موقع ہو یا غم کا، بربط کی تاروں سے وہی دھنیں نکلتیں جو آرفیس کی انگلیاں چاہتیں۔ آرفیس باغات سے گھرے اپنے چھوٹے سے مکان کی کھڑکی پر بیٹھا بربط بجانے میں مصروف تھا ۔ پرندوں کے غول کے غول اُڑ اُڑ کر پھول پتیوں سے ڈھکی اس کی کھڑکیوں پر جمع ہورہے تھے۔ بربط کی موسیقی کے ساتھ اپنی چہچہاہٹ ملا رہے تھے۔ تھریس کی ہر صبح اتنی ہی خوبصورت ہوتی تھی۔

جب سورج اچھی طرح نکل آیا تو آرفیس نے بربط بجانا بند کیا، تبھی اس کی بیوی ’’یورائیدسی‘‘ مسکراتی ہوئی کھڑکی کی دوسری طرف آئی اور اسے ناشتہ لگ جانے کا پیغام سنایا۔ یورائیدسی کا شمار اس وقت کی خوبصورت ترین خواتین میں ہوتا تھا۔ آرفیس اور یورائیدسی کی محبت کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ اپنی شادی کے موقع پر آرفیس نے بربط پر اس قدر مسحور کن دھنیں بجائی تھیں کہ سارا قصبہ گھنٹوں رقص کرتا رہا تھا۔
یورائیدسی کے شاداب چہرے کو دیکھتے ہی آرفیس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی اور وہ ناشتے کی میز کی جانب بڑھ گیا۔ان کی شادی کی آج پہلی سالگرہ تھی۔ دونوں ہی خوش تھے اور قصبے کے سب سے شاندار ہوٹل میں رات کے کھانے کا منصوبہ بنارہے تھے۔ قصبہ کا ہر شادی شدہ جوڑا، جوان ہو یا معمر، ان دونوں کی محبت پر رشک کرتا تھا۔ دونوں ملنسار اور رحمدل تھے ۔ 
کہا جاتا ہے کہ آرفیس نے اپولو (قدیم یونان کا موسیقی کا دیوتا) سے موسیقی سیکھی تھی مگر کچھ وقت ہی میں اپنے استاد سے آگے نکل گیا تھا۔ اس کی موسیقی جنگلی جانوروں کو بھی پرسکون کردیتی تھی۔ اپنی موسیقی سے وہ پتھروں اور ندیوں پر بھی قابو لیتا تھا مگر اس نے ایسا کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: اطالوی ادب سے: عظیم تباہی

اسی قصبے میں ’’اریستاؤس‘‘ نامی ایک نوجوان بھی رہتا تھا جو آرفیس کا ہم عمر تھا۔ قصبہ بھر میں اریستاؤس اور آرفیس کی خوبصورتی، جوانمردی اور بہادری کے قصے مشہور تھے۔ اگر یہ کہا جاتا کہ اس وقت تھریس میں ان دونوں جیسا شہ زور کوئی اور نہیں تھا تو غلط نہ ہوتا۔ البتہ دو باتوں میں آرفیس کی قسمت اریستاؤس سے زیادہ اچھی تھی۔ اول یہ کہ آرفیس بربط بجانا جانتا تھا، دوم، اس نے یونان کی سب سے خوبصورت لڑکی یورائیدسی سے شادی کی تھی۔ آرفیس کی شادی کے بعد ہی سے اریستاؤس اس کا دشمن بن گیا تھا۔ وہ اس کی توہین کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ بازاروں میں چند غنڈوں کے ساتھ مل کر وہ آرفیس پر آوازیں لگاتا لیکن آرفیس ان باتوں پر توجہ نہیں دیتا تھا۔ وہ اپنی زندگی میں بہت خوش تھا، اور یہی خوشی اریستاؤس کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔
اریستاؤس جانتا تھا کہ آج آرفیس اور یورائیدسی کی شادی کی پہلی سالگرہ ہے اسلئے اس نے ایک خطرناک منصوبہ بنایا۔ آرفیس قصبہ کے بچوں کو موسیقی سکھاتا تھا لہٰذا ناشتے کے بعد وہ اپنے کام کیلئے روانہ ہوگیا جبکہ یورائیدسی گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ اس کا سارا دن اپنے گھر کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے اور پڑوس میں رہنے والی ایک بوڑھی گونگی خاتون کی مدد کرنے میں نکل گیا۔ سورج ڈھلنے سے کچھ دیر قبل وہ تیار ہونے لگی کیونکہ چند منٹوں ہی میں آرفیس آجاتا۔ ساری تیاری مکمل ہوگئی مگر آرفیس نہیں آیا۔ آرفیس کبھی بھی تاخیر سے گھر نہیں آتا تھا۔ سورج ڈھلتے ہی وہ گھر کی دہلیز پر ہوتا تھا ۔ لیکن آج وہ نہیں آیا۔ یورائیدسی پریشان ہوگئی اور گھر سے نکل آئی۔ اندھیرے میں یہاں وہاں نظر دوڑائی مگر آرفیس نظر نہیں آیا۔ وہ پریشان ہوگئی۔ اس نے اپنے قدم بوڑھی خاتون کے مکان کی طرف بڑھائے ہی تھے کہ اسے احساس ہوا کہ کوئی اس کے پیچھے کھڑا ہے۔ وہ آرفیس نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے شوہر کو قدموں کی آہٹ سے پہچان لیتی تھی۔ یورائیدسی اپنی جگہ پر جم گئی۔ قدم نہ آگے بڑھ رہے تھے نہ پیچھے ہٹ رہے تھے۔ اس نے ذرا سی گردن گھمائی تو اسے اریستاؤس کا چہرہ نظر آیا۔ اسے معلوم تھا کہ اریستاؤس کے دل میں ان کیلئے کس قدر حسد ہے لہٰذا وہ بھاگنے کیلئے پَر تولنے لگی۔ اریستاؤس اس کے ارادوں سے باخبر تھا لہٰذا اچک کر اس کے ریشمی بال اپنی مٹھی میں جکڑ لئے اور اسے جھٹکا دے کر زمین پر گرادیا۔ اریستاؤس، یورائیدسی کا قتل کرنا چاہتا تھا تاکہ آرفیس اس کی یاد میں تڑپ تڑپ کر مرجائے۔ اس کے ہاتھوں میں تلوار چمک رہی تھی۔
اریستاؤس بلاشبہ ایک خوبرو مرد تھا مگر آج اس کے وجود سے یورائیدسی اور کھڑکی میں بیٹھی بوڑھی خاتون کو گھن آرہی تھی۔ وہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ کرنے سے قاصر تھی۔ یورائیدسی نے پاس پڑا پتھر اٹھایا اور اسے اریستاؤس کے سر پر دے مارا۔ تکلیف کی شدت سے اس کی مٹھی کی گرفت ڈھیلی پڑگئی اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ یورائیدسی کے پاس اس شیطان کے چنگل سے نکلنے کا بس یہی موقع تھا لہٰذا وہ برق رفتاری سے اٹھ بیٹھی، مگر بال اب بھی اریستاؤس کے مٹھی میں تھے۔ اس نے پاس پڑی تلوار اٹھائی اور اپنے بالوں کو کاٹ دیا۔ آدھے بال اریستاؤس کے ہاتھوں میں رہ گئے اور وہ تیزی سے جنگل کی طرف بھاگی۔ اس وقت اس کے ذہن میں اپنے آپ کو بچانے کے سوا کوئی دوسرا خیال نہیں تھا۔ وہ پوری طاقت سے دوڑ رہی تھی۔ اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ جنگل کے کس قدر گھنے حصے میں پہنچ چکی ہے۔ اب اسے آرفیس کا خیال آرہا تھا۔ نہ جانے وہ کہاں تھا۔ سجی سنوری یورائیدسی کے بال خراب ہوچکے تھے اور قیمتی کپڑوں پر مٹی اور کیچڑ تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ تبھی اسے احساس ہوا کہ کسی چیز نے اس کے پاؤں پر ڈنک مارا ہے۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو ایک سیاہ رنگ کا سانپ اپنا پھن پھیلائے کھڑا تھا۔ یورائیدسی زمین پر گر پڑی۔ سانپ نے جب اپنے شکار کو گرتے دیکھا تو رینگتا ہوا دوسری جانب نکل گیا۔ یورائیدسی کے ہونٹ نیلے پڑگئے۔ وہ موت کی آغوش میں جاچکی تھی۔

آرفیس کو ہوش آیا تو وہ ایک درخت کے نیچے پڑا ہوا تھا۔ کل شام گھر لوٹتے وقت کسی نے پیچھے سے اس پر وار کردیا تھا جس سے وہ بے ہوش ہوگیا تھا۔ پاس ہی اس کا بربط پڑا تھا جس کے تار کسی نے بڑی بے دردی سے توڑ دیئے تھے۔ سورج ابھی نہیں نکلا تھا۔ اسے فوراً یورائیدسی کی یاد آئی اور وہ ٹوٹا ہوا بربط اٹھا کر تیزی سے گھر کی جانب بھاگا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا مگر یورائیدسی غائب تھی۔ وہ پریشان ہوگیا اور اسے دیوانہ وار تلاش کرنے لگا۔ مکان کے پچھلے حصے پر اسے یورائیدسی کے قدموں کے نشان نظر آئے۔،پاس لٹکی لالٹین اٹھا کر وہ قدموں کا پیچھا کرتے ہوئے جنگل کی طرف نکل گیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: دیوار کے پار

تھریس کی صبح آج پہلے جیسی نہیں تھی۔ بربط کی آواز سنائی نہیں دی۔ سورج کے پہاڑوں سے اچھی طرح نکل آنے کے بعد ہی لوگ نیند سے بیدار ہوئے اور موسیقی نہ سنائی دینے پر سبھی سڑکوں پر نکل آئے۔ سبھی پریشان تھے کہ ماجرا کیا ہے۔ اریستاؤس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ سب پریشانی کے عالم میں آرفیس کے مکان کی جانب بڑھے۔ چھوٹے گیٹ پر پہنچتے ہی سبھی کے قدم جم گئے۔ مکان کے دروازے پر بربط بجانے والا ان کا عظیم موسیقار آرفیس کسی غیر مرئی نقطے پر نگاہیں مرکوز کئے بیٹھا تھا۔ اور اس کی گود میں یورائیدسی کی لاش پڑی تھی جس کا پورا جسم نیلا پڑ چکا تھا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ یورائیدسی مرچکی ہے۔ اریستاؤس مسکراتا ہوا مجمع سے نکل گیا۔ جو کام وہ نہیں کرسکا تھا، ایک سانپ نے کردیا تھا۔
اس دن کے بعد سے آرفیس کے بربط سے خوشی کی دھنیں نہیں نکلیں۔ وہ ہمیشہ غم کے نغمے بجانے لگا۔ پورے قصبے پر اداسی چھاگئی۔ سورج کی کرنیں اب پہلے کی طرح ہنستی کھیلتی نہیں محسوس ہوتی تھیں۔ پرندوں کی چہچہاہٹ نے اپنی کشش کھودی تھی۔ اب آرفیس کی کھڑکی پر پرندے نہیں جمع ہوتے تھے۔
ایک دن قصبے کے معمر افراد آرفیس کوسمجھانے لگے کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے لہٰذا اسے اس مایوسی اور غم سے نکل آنا چاہئے اور اپنی زندگی پر توجہ دینی چاہئے۔ مگر آرفیس کو ان کی باتوں سے سروکار نہیں تھا۔ وہ ان کے درمیان سے جانے لگا تو ایک بوڑھے شخص نے کہا ’’اگر تمہیں یورائیدسی چاہئے تو تمہیں مُردوں کی دنیا میں جانا ہوگا۔‘‘ یہ سنتے ہی آرفیس کے قدم رُک گئے۔
اس نے سوچا ہی نہیں تھا کہ دریا کے اس پار مُردوں کی دنیا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہاں مرجانے والے انسانوں کی روحیں رہتی ہیں۔ یہ ترکیب اچھی تھی کہ آرفیس وہاں جائے اور دیوتاؤں کی منت سماجت کرکے اپنی بیوی کو واپس لے آئے۔چنانچہ وہ وقت ضائع کئے بغیر مردوں کی دنیا میں جانے کیلئے تیار ہوگیا۔
پہلا سوال یہ تھا کہ دریا کیسے پار کرے گا۔ تبھی اسے اپنے بربط اور موسیقی کی مہارت کا خیال آیا لہٰذا اس نے دریا کی موجوں پر قابو پانے کیلئے اسے بجانا شروع کیا۔ لہروں کی طاقت کم ہوتی محسوس ہوئی تو وہ دریا میں اتر گیا اور بربط بجاتا رہا۔ یہ درست تھا کہ وہ ندیوں اور دریاؤں پر اپنی موسیقی سے قابو پالیتا تھا اور آج اس نے اپنے اس فن کا مظاہرہ کیا ۔ دریا کی لہریں اسے لئے ’’مردوں کی دنیا‘‘ کی جانب بڑھنے لگیں اور وہ بڑی آسانی سے اس دنیا کے دروازے پر اترگیا۔
یہ دنیا بدروحوں، بھوتوں اور مختلف قسم کے خطرناک جانوروں سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں آنے والا زندہ نہیں لوٹتا تھا۔ لیکن آرفیس جس کام کیلئے آیا تھا اسے کئے بغیر لوٹنا ممکن نہیں تھا۔ اس کی انگلیاں بربط کی تاروں پر تھرکتی رہیں اور بدروحیں اس کے آگے جھک گئیں۔ خطرناک جانور اچانک خاموش ہوگئے اور وہ آہستہ آہستہ روحوں کی دنیا میں داخل ہوگیا۔ یہاں روحیں تھیں، اندھیرا تھا، آگ تھی، بڑے بڑے مہیب جانور تھے، مگرآرفیس کے چہرے پر خوف نہیں تھا۔ وہ بڑے عزم سے آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ بربط بجاتا ہوا پلوٹو اور پرسفونہ (مردوں کی دنیا کا بادشاہ اور ملکہ) کے سامنے آگیا۔ 
بغیر کچھ کہے اس نے بربط کے وہ تار چھیڑے کہ ملکہ اور بادشاہ بے قرار ہو اٹھے۔ اس کا نغمہ مکمل ہوا تو وہ تعظیماً ملکہ اور بادشاہ کے آگے جھک گیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: عظیم فنکار

بادشاہ نے انتہائی خوشی کے عالم میں کہا، ’’مردوں کی دنیا میں آج تک اس قدر خوبصورت ساز نہیں بجایا گیا ہے۔ تم ایک انسان ہو۔ تم زندوں کی دنیا سے یہاں آئے ہو۔ تمہیں کیا چاہئے؟‘‘
’’مَیں اپنی پیاری بیوی یورائیدسی کو لینے آیا ہوں جسے ایک سانپ نے کاٹ لیا تھا۔ مجھے میری یورائیدسی لوٹا دیجئے۔‘‘ آرفیس نے انتہائی درد بھرے لہجے میں کہا۔
اس کے چہرے پر کرب کے آثار دیکھ کر ملکہ کا دل پگھل گیا اور اس نے بادشاہ کے کانوں میں کچھ کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ تمہیں یورائیدسی کو لے جانے کی اجازت ہے مگر شرط یہ ہے کہ جب تم اس دنیا سے نکلوگے تو یورائیدسی کی روح تمہارے پیچھے چلے گی۔ تمہیں اسے پلٹ کر دیکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ مُردوں کی دنیا کے دروازے سے باہر نکلنے اور زندوں کی دنیا میں داخل ہونے کے بعد ہی تم پلٹ کر یورائیدسی کو دیکھوگے۔ اگر تم نے اس سے پہلے پلٹ کر دیکھا تو یورائیدسی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مُردوں کی دنیا کی قیدی بن جائے گی۔‘‘
شرط مشکل نہیں تھی لہٰذا آرفیس نے ہامی بھرلی۔ اس کا رُخ واپسی کے راستے پر مڑ گیا۔ تبھی اسے احساس ہوا کہ اس کے پیچھے کوئی آکھڑا ہوا ہے۔ اسے بادشاہ کی آواز سنائی دی جو اسے وہاں سے نکل جانے کا حکم دے رہا تھا۔ آرفیس خوش تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو دوبارہ پالیا ہے۔ وہ خوشی خوشی قدم بڑھائے جارہا تھا۔ اس کے پیچھے یورائیدسی بھی زندگی واپس مل جانے کی خوشی میں ہوا میں تیر رہی تھی۔ آرفیس پلٹ کر اپنی بیوی کو دیکھنا چاہتا تھا مگر پلوٹو کی بات ذہن میں گونج رہی تھی۔ اندھیری دنیا سے جب روشنی یعنی زندوں کی دنیا نظر آنے لگی تو آرفیس کے قدم تیزی سے بڑھنے لگے۔ وہ جلد از جلد مُردوں کی دنیا سے نکل جانا چاہتا تھا۔ 
روشنی کی پہلی کرن نے جیسے ہی آرفیس کے چہرے کو چھوا، وہ یورائیدسی کو گلے لگانے کیلئے بے تابانہ پلٹ گیا۔ گردن کا گھمانا تھا کہ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس کے قدم زندوں کی دنیا میں تھے مگر یورائیدسی اب بھی مُردوں کی دنیا میں کھڑی تھی۔ اچانک تیز ہوائیں چلنے لگیں۔ 
مُردوں کی دنیا کے خطرناک جاندار تیزی سے دروازے کی جانب آنے لگے۔ آرفیس نے یورائیدسی کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھینچا مگر بدروحیں اس سے زیادہ طاقتور تھیں۔ 
وہ یورائیدسی کو کھینچ کر دوبارہ مُردوں کی دنیا میں لے گئیں اور آرفیس پشیمانی میں اپنی جگہ کھڑا رہا۔
آرفیس نے اپنی چہیتی بیوی کو دوسری مرتبہ کھو دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد آرفیس نے کبھی بربط نہیں بجایا۔ مُردوں کی دنیا سے لوٹنے کے بعد وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کہیں غائب ہوگیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK