یہ کہانی ایک مالدار شخص کی ہے جو نہایت مغرور اور بدمزاج تھا۔ اس کے مزاج کی وجہ سے سبھی اسے تنہا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ایک دن ایک غریب لڑکا اس کی کوٹھی میں چلا آتا ہے، وہ اسے بھی بھگا دیتا ہے مگر وہ اچھے اخلاق کی وجہ سے مالدار شخص کے دل میں جگہ بنا لیتا ہے۔
ایک شخص نہایت مالدار تھا۔ اُس کے پاس عیش و آرام کی دنیا کی ہر چیز موجود تھی اور آمدنی بھی بے حد تھی۔ بیوی تھی بچے تھے رشتہ دار تھے لیکن وہ نہایت مغرور، بدمزاج اور نہایت بد رویہ ظالم آدمی تھا۔ اُس کے ظالم و ستم کی وجہ سے اُس کی بیوی مسلسل بیمار رہنے کی وجہ سے بیچاری وقت سے پہلے ہی گزر گئی تھی۔ اولادیں باپ کے ظالمانہ رویہ سے تنگ آکر دوسرے ممالک میں جا بسی تھی۔ رشتہ دار غلطی سے بھی اُس کی جانب رخ نہیں کرتے تھے۔ اڑوس پڑوس کے لوگ بھی اُس سے کتراتے تھے اس لئے وہ تنہا زندگی گزار رہا تھا۔ وقت گزرتا گیا اُس کا مزاج اور غرور بھی عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔ گھریلو نوکر بھی گنے چنے رہ گئے تھے۔ مالی بھی اُس کے برے سلوک کی وجہ سے کام چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ وہ خود ہی گرتے پڑتے باغیچے میں پائپ سے پانی ڈال کر پیڑ پودوں کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک روز ایک غریب بچہ کاغذ چنتے ہوئے اُس کے عالیشان گھر کے شاندار دروازے کے سامنے پہنچا اور کاغذ اٹھانے لگا۔ بوڑھا اُسے دیکھ کر چیخا، ’’ارے کیا کر رہا ہے؟ چل بھاگ یہاں سے....!‘‘
’’کچھ نہیں کر رہا ہوں انکل.... فالتو کاغذ پڑے ہیں انہیں اٹھا رہا ہوں۔‘‘ ’’مت اٹھا.... چل بھاگ یہاں سے....‘‘ ’’انکل خفا مت ہویئے! کاغذ چھوڑے دیتا ہوں.... مگر ذرا یہاں آنے کی تکلیف گوارا کریں۔‘‘ بوڑھا گیٹ پر آکر گرجا، ’’کیا ہے؟‘‘ ’’انکل! اتنی زور سے مت چیخیں، آپ کا گلا خراب ہو جائے گا۔ دیکھئے مَیں غریب ماں باپ کا بچہ ہوں۔ فالتو کاغذ اور جھلیاں چن کر بیچ دیتا ہوں اور اس طرح ماں باپ کا ہاتھ بٹا دیتا ہوں۔ آپ مجھے غلط مت سمجھئے۔ مَیں آپ کی بھی مدد کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ’’میری مدد....! تم میری کیا مدد کرسکتے ہو؟‘‘ ’’آپ بہت بوڑھے ہیں انکل! آپ پیڑ پودوں کو پانی بھی دھنگ سے نہیں دے پا رہے ہیں۔ دیکھئے تھکان سے آپ کا جسم بھی کانپ رہا ہے۔ آپ اجازت دیں تو مَیں اندر آکر پودوں کو پانی دے دیتا ہوں۔ آپ آرام سے بیٹھ کر دیکھتے رہئے۔‘‘ ’’ٹھیک ہے چل اندر آجا.... مگر کوئی چالاکی اور شرارت نہیں کرنا ورنہ میں پولیس کو فون کرکے بلا لوں گا۔‘‘ بوڑھا اُسے گھورتے ہوئے دروازہ کھول کر بولا۔
’’انکل مَیں چور بدمعاش نہیں ہوں.... مَیں غریب و لاچار ہوں۔ آپ کی اتنی بڑی کوٹھی ہے، آپ کے بال بچے کہاں ہیں؟ کوئی نوکر وغیرہ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اتنی بڑی کوٹھی میں آپ اکیلے رہتے ہو انکل؟‘‘
بچے کے سوالوں پر بوڑھا خاموش رہا اور لان میں پڑی آرام کرسی پر دراز ہوگیا۔ بچے نے پائپ سے پورے باغیچے کو پانی دیا اور صفائی بھی کر دی۔ بوڑھا اُسے لگن سے کام کرتے ہوئے دیکھتا رہا۔ کام ختم ہوگیا تو بچے نے خلوص سے کہا، ’’انکل! لو آپ کے باغیچے اور تمام گملوں میں پانی ڈال دیا ہے۔ تھوڑی بہت صفائی بھی کر دی ہے۔ آپ کو کام پسند آیا ہو تو مجھے اجازت دیجئے اور وہ باہر پڑے ہوئے کاغذ بھی لے جانے دیں۔‘‘
’’نہیں! پہلے تم میرے ساتھ اندر چلو۔‘‘
بچہ خاموشی سے بوڑھے کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ بوڑھا ایک کمرے میں داخل ہو کر رک گیا جہاں ڈھیر سارے اخبار و رسائل بے ترتیب پڑے ہوئے تھے۔ بوڑھا لڑکے سے مخاطب ہو کر بولا، ’’تم یہ سب لے کر جاسکتے ہو۔‘‘ ’’سچ انکل؟‘‘ ’’ہاں! تم روزانہ اور تم جتنا وزن اٹھا سکتے ہو اخبار لے کر جانا۔ اور ہاں یہ روپے اپنے پاس رکھ لو.... کل آتے وقت کسی ہوٹل سے کھانے کے لئے کچھ لیتے آنا۔ آؤ گے نا بیٹا؟‘‘
’’ہاں.... ہاں انکل ضرور آؤں گا!‘‘ کہہ کر لڑکا ڈھیر سارے اخبار لے کر چلا گیا۔ دوسرے روز ہوٹل سے کھانا لے کر کوٹھی پہنچا۔ بوڑھا اسی کا انتظار کر رہا تھا۔ لڑکے کو دیکھ کر بوڑھے کی بانچھیں کھل گئیں۔ بوڑھا خوب سیر ہو کر کھایا اور باقی بچا ہوا کھانا لڑکے کو دے دیا۔ لڑکے نے بہت سارے اخبار اٹھائے اور اجازت لے کر جانے لگا تو بوڑھے نے اُسے روپے دیئے اور کل پھر سے کھانا لے کر آنے کو کہا۔ لڑکا روز آتا باغیچے میں پانی دیتا۔ اخبار کا بنڈل بناتا۔ بوڑھے کو کھانا کھلاتا۔ برتن دھو کر رکھتا۔ کمرے کی صفائی کر دیتا۔ بوڑھے سے مزیدار باتیں کرتا۔ بوڑھا اب اُس لڑکے سے کافی مانوس ہوگیا تھا اور بھروسہ بھی کرنے لگا تھا۔ کبھی شفقت سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا کبھی اُس کی پیٹھ تھپتھپا دیتا۔ لڑکے کو بھی بوڑھے سے اُنسیت ہوگئی تھی اس لئے وہ اخبار ختم ہو جانے کے باوجود بھی ہر روز آتا۔ بوڑھا بھی بے چینی سے اُس کا انتظار کرتا رہتا۔ بوڑھے کو پہلی بار اُس لڑکے سے اپنے پن کا احساس ہونے لگا تھا۔ اس لئے بوڑھا اپنے مزاج، رویہ اور سلوک کے برخلاف اس لڑکے کے ساتھ پیش آتا تھا۔ لڑکا بھی اب جی جان سے اُس کی خدمت کرنے لگا تھا۔ ایک روز بوڑھے نے لڑکے سے کہا، تم اپنے والدین کو بھی یہاں لے کر آجاؤ اور اس کوٹھی میں میرے ساتھ رہو۔ وہ لوگ بھی یہاں کام کریں۔ مَیں انہیں بھی اچھی تنخواہ دوں گا۔ لڑکے نے اپنے والدین سے بوڑھے کا ذکر کیا۔ اُس کے ماں باپ آکر بوڑھے سے ملے اور کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر میں آکر رہنے لگے۔ یہ پرائے لوگ ہی اب بوڑھے کے لئے سب کچھ تھے۔ ایک روز اچانک بوڑھے کی طبیعت خراب ہوگئی۔ وہ لوگ اسے لے کر ایک بڑے اسپتال گئے جہاں بوڑھے کا معقول علاج جاری ہوگیا۔ بوڑھے نے ڈاکٹر سے کہہ کر اپنے وکیل کو طلب کیا۔ وکیل آیا تو بوڑھے نے وکیل کو چند ہدایتیں دیں۔ وکیل تمام ہدایتوں کو ایک کاغذ پر نوٹ کرکے چلا گیا۔ دو چار روز بعد وکیل پھر آیا۔ بوڑھے سے چند کاغذات پر دستخط لئے اور چلا گیا۔ ایک روز بوڑھے کو دواخانے میں دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ انتقال کر گیا۔ ڈاکٹر نے وکیل کو خبر دی۔ وکیل فوراً اسپتال پہنچ گیا۔ دواخانے کا بل وغیرہ ادا کرکے بوڑھے کی لاش کو مردہ خانے میں رکھوا کر وکیل نے لوکل ٹی وی پر بوڑھے کے انتقال کی خبر چلوائی۔ اخبارات میں خبر چھپوائی۔ ٹی وی پر خبر دیکھ کر اور اخبارات میں پڑھ کر بوڑھےکے رشتہ داروں کا آنا جانا شروع ہوگیا۔ رشتہ داروں کی اجازت لے کر وکیل نے شہر کے قبرستان میں بوڑھے کو دفن کروا دیا۔ میت کے ایک ہفتے بعد بوڑھے کے بیٹے بیٹیاں بھی غیر ممالک سے آدھمکے۔ وکیل نے ایک روز بوڑھے کے تمام رشتہ داروں اور بہو بیٹوں اور بیٹیوں دامادوں کو ہال میں جمع ہونے کے لئے کہا جہاں بوڑھے کی وصیت پڑھی جانا تھی۔ ہال میں پہنچ کر سب وکیل کے منتظر تھے۔ وقت ِ مقررہ پر وکیل آیا۔
بیگ سے ایک لفافہ نکال کر سب کے سامنے اُسے کھولا اور کاغذ نکال کر بوڑھے کا وصیت نامہ پڑھنے لگا: ’’مَیں امجد خان ولد رستم خان پورے ہوش و حواس میں یہ وصیت نامہ تحریر کر رہا ہوں کہ ایک معمولی لڑکے احمد نے میرے برے سلوک، برے رویہ اور بدمزاجی کے باوجود میری خوب خدمت کی۔ مجھے زندگی کے معنی سمجھائے۔ رشتوں کی اہمیت بتائی اور اپنے مزاج، حسن ِ سلوک اور پُر مغز باتوں سے میرا دل جیت لیا۔ اور میری بے معنی زندگی کو ایک معنی عطا کر دیئے۔ ۷۵؍ سال کی طویل زندگی میں.... مَیں نے زندگی کا آخری ایک سال احمد کی وجہ سے خوب کھیل کر جیا ہے اور زندگی کا خوب لطف اٹھایا ہے۔ مَیں احمد کا شکر گزار ہوں اس لئے مَیں اپنی یہ کوٹھی، فیکٹری، بینک بیلنس اور جملہ جائیداد احمد کے نام کر رہا ہوں