• Sun, 21 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ہالی ووڈ میں اداکاروں اور فنکاروں کی بہت عزت کی جاتی ہے ‘‘

Updated: September 21, 2025, 12:13 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai

فلم اداکارآدرش گورو کا کہنا ہےکہ یہ میری خوش بختی تھی کہ مجھے وہائٹ ٹائیگر جیسا پروجیکٹ ملا۔ اس کے بعد میرے کریئر کا رخ ہی بدل گیا اور پھرمجھے بڑے کام ملنے لگے۔

Adarsh ​​Gaurav. Photo: INN
آدرش گورو ۔ تصویر:آئی این این

آپ کو شاہ رخ خان کی فلم ’مائی نیم ازخان‘ میں نوجوان رضوان کا رول ادا کرنے والا لڑکا شاید یاد نہ ہو لیکن اب وہ ہندوستانی سنیما کے ساتھ ساتھ ہالی ووڈ میں بھی کام کررہا ہے۔ گزشتہ ماہ ان کا ہارر ویب شو’ ایلین :ارتھ‘ منظر عام پر آیا تھا جس میں انہوں نے سلائیٹلی کا رول نبھایا تھا۔ اسی سال ان کی فلم کی’ سپربوائز آف مالیگاؤں ‘ بھی ریلیز ہوئی تھی۔ اس میں انہوں نے ناصرنامی کیریکٹر کا رول نبھایا تھا۔ اس اداکار کا نام ہے آدرش گوروبھاگوتلا۔ جمشیدپور میں تیلگو زبان بولنے والے خاندان میں پیدا ہونے والے آدرش نے فلموں اور ویب شوز میں کام کیاہے اور اب وہ ہالی ووڈ میں بھی اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ آدرش نے میڈلی، رخ، مام، دی وہائٹ ٹائیگر، کھو گئے ہم کہاں اور وہ دن بھی تھے نامی فلموں میں کام کیاہے۔ ویب شوز میں انہوں نے لیلا، ہوسٹل ڈیز اور گنس اینڈ گلابس میں اپنا ہنر پیش کیا ہے۔ نمائندہ انقلاب نےاداکارآدرش گورو سے گفتگو کی جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے:
آپ نے ابھی حال ہی میں ریلیز ہونے والی اپنی سیریز میں اپنے کیریکٹر سے خود کو کس طرح جوڑا؟
ج:شو میں میرا رول سلائیٹلی کا تھا جوکہ دماغی طورپر بچہ تھا لیکن اس کا جسم ایک ۳۱؍سالہ آدمی کا تھا۔ اس کی سوچ بالکل بچوں جیسی تھی اور وہ ذہنی طورپر ویسے ہی کام کیا کرتا تھا۔ اس میں بہت توانائی تھی اور وہ توانائی بھی مجھے اپنے کردار میں لانی تھی۔ اس کے لئے میں نے بہت سے ایسے کردار دیکھے جو ذہنی اور جسمانی طورپر الگ الگ تھے۔ میں نے اس کردار کیلئے بہت ریسرچ کی تھی اور ہمارے ورکشاپس بھی ہوا کرتے تھے۔ بہرحال جب میں نے شو کی شوٹنگ کی تو میرے لئے آسانی پیدا ہوتی گئی۔ 
یہ کردار آپ کے لئے کتنا مشکل تھا ؟
ج:یہ پوری سیریز ہارر اور ایلین کی کہانی پر مبنی تھی۔ ایک اداکار کیلئے ہر کردار مشکل ہی ہوتاہے کیونکہ اسے اپنی حقیقی حیثیت اور شخصیت کو چھوڑ کر اس کردار کو نبھانا ہوتا ہے۔ یہ کردار ہائبرڈ، سینتھیٹک تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ ذہنی طورپر کہیں گم رہتاہے۔ میں خود ۳۱؍سال کاہوں اور مجھے ۱۰؍ سال کے لڑکے کا کردار نبھانا تھا، تو مجھے اپنے بچپن کی بہت ساری چیزوں کو یاد کرنا پڑا اور اس کے بعد ہی میں نے اس کردار کو نبھایا تھا۔ 
آپ نے بالی ووڈ کے ساتھ ہی ہالی ووڈ میں بھی کام کیا ہے، وہاں ہندوستانی اداکاروں کے ساتھ کیسا رویہ رہتاہے؟ 
ج:وہ سبھی اداکاروں کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کرتے ہیں اور اپنے کام کو بہتر انداز میں ختم کرنا پسند کرتے ہیں۔ وہ اپنی تخلیق اور کرافٹنگ پر محنت کرتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر آپ بھی سیکھ سکتے ہیں۔ وہ اپنے کردار میں جان ڈالنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور اس کیلئے مسلسل مشق کرتے رہتے ہیں۔ وہ میرے اور میں ان کے کام سے کافی متاثر تھے۔ 
بیرون ملک ہندوستانی اداکاروں پر کتنی ذمہ داری ہوتی ہے ؟
ج:بیرون ملک کام کرنے والے ہندوستانی اداکاروں پر زیادہ ذمہ داری نہیں ہوتی ہے۔ اگر میں اپنی بات کروں تو میں نے اپنے کردار کو ذمہ داری سے نبھایا تھا۔ وہاں رائٹر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی کہانی میں کتنی گہرائی بیان کرتاہے۔ اس کی اسکرپٹ کتنی مضبوط ہوتی ہے۔ ہندوستانی اداکاروں پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنا کام وقت پر مکمل کریں اور جیسا پروڈکشن ہاؤس اور ہدایتکار کہتے ہیں اسی کے مطابق اپنا کام کریں۔ 
کیا آپ بیرون ملک خود کو آؤٹ سائیڈر تصور کرتے تھے؟
ج:ایسا کچھ بھی نہیں ہے، مجھے کبھی نہیں لگا کہ میں کسی اور انڈسٹری میں کام کررہاہوں۔ وہ میرے ساتھ بہت اچھے سے پیش آتے تھے اور میرا پورا سپورٹ کیا کرتے تھے۔ ہم لوگوں نےبنکاک میں شوٹنگ مکمل کی تھی اور ہم سبھی ایک ساتھ وہاں موجود سورنا بھون جایا کرتے تھے۔ میں نے ۳؍مواقع پر سورنا بھون کی سیر کی تھی۔ ہالی ووڈ کے اداکارآپ کے کام کو پسند کرتے ہیں ، وہ یہ نہیں جانتے کہ ہم کہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ سبھی اپنے کام سے مطلب رکھتے ہیں۔ 
کیا بیرون ملک کے اداکار آپ سے ہندوستانی سنیما کے بارے بھی میں باتیں کرتے تھے؟
ج:جی ہاں ، انہیں ہندوستانی سنیما انڈسٹری کے تعلق سے بہت تجسس ہے۔ وہ اکثر میرے ساتھ اسی تعلق سے بات چیت کیا کرتے تھے۔ ہماری فلموں کی شوٹنگ اور دیگر چیزوں کے بارے میں پوچھتے تھے۔ ہالی ووڈ اداکارہ ایسی ڈیوس فلم لگان کے بارے میں گفتگو کیا کرتی تھیں۔ وہ عامر خان کے تعلق سے معلومات حاصل کرتی رہتی تھیں۔ ہالی ووڈ اداکار ہماری فلموں کو سمجھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ 
ہالی ووڈ اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟
ج:ہالی ووڈ اداکاروں کے ساتھ کام کرنے میں بہت مزہ آیا۔ وہاں کام کرتے ہوئے، وہاں کے فنکاروں سے میں جوکچھ بھی سیکھ سکتا تھا، سیکھنے کی کوشش کی۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ میں ہندوستانی فلم انڈسٹری سے ہوں تو وہ میری عزت نہیں کریں گے، وہ مجھے پوری عزت دیا کرتے تھےاور میرے ساتھ اچھے سے پیش آتے تھے۔ وہ میرے کام کے بارے میں بھی پوچھا کرتے تھے اور اسکل کے بارے میں بات کیا کرتے تھے۔ 
کہا جاتا ہے کہ وہائٹ ٹائیگر کی کامیابی کے بعد آپ کو بڑے پروجیکٹ ملنے شروع ہوئے؟ کیا یہ سچ ہے؟
ج:میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے اتنا بڑا پروجیکٹ ملا اور میں اس کا حصہ بنا۔ وہائٹ ٹائیگر میں کا م کرنے کے بعد میرے کریئر کا رخ ہی بدل گیا۔ اس کے بعد مجھے بڑے پروجیکٹ ملنے شروع ہوگئے تھے۔ لیکن میں ایسے پروجیکٹ پر کام کرنا چاہتا ہوں جس کی کہانی اور اسکرپٹ بہت اچھی ہو اور اس میں کام کرنے میں مجھے مزہ آئے۔ میں آج بھی انڈسٹری کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں تاکہ اچھی فلموں کا انتخاب کرسکوں۔ 
آپ کے بیرون ملک کام کرنے سے کیا ملک کے دیگر اداکاروں اور فنکاروں کو بھی فائدہ ہوگا ؟
ج:یہ کہنا مشکل ہوگا۔ مجھ سے پہلے ہالی ووڈ میں انڈسٹری کے کئی بڑے اداکاروں نے کام کیاہے، جن میں اوم پوری، عرفان خان اور پرینکا چوپڑا کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے کام کو دیکھتے ہوئے ہالی ووڈ کے فلمساز ہمیں موقع دیتے ہیں۔ اگر میرے اچھے کام سے کسی اور اداکارکو ہالی ووڈ میں موقع ملتاہے تو یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہوگی۔ میں تو چاہتا ہوں کہ ہماری انڈسٹری کے مشہور اداکار بیرون ملک بھی کام کریں اور ملک کا نام روشن کریں۔ 
 کیا آپ کا کوئی ڈریم پروجیکٹ کرنے کا ارادہ ہے؟ آپ کس اداکارسے متاثر ہیں ؟
ج: میں کسی ڈریم پروجیکٹ کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ جو رول ملتاہے وہ بہتر انداز میں نبھانے میں یقین رکھتاہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میں جو بھی کردار نبھاؤں وہ یادگار ہو اوراسے برسوں تک یادرکھا جائے۔ میں کسی اداکار سے متاثر ہوکر کام نہیں کرتا بلکہ اپنے ہنر کو پردے پر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK