Inquilab Logo

بلندآوازاورپرکشش شخصیت کے مالک امریش پوری کے مکالمے کی ادائیگی کا اندازلاجواب تھا

Updated: June 22, 2020, 2:01 PM IST | Agency | Mumbai

بحیثیت ویلن فلم انڈسٹری میں امریش پوری نے جومقام حاصل کیا، وہ ان کی بہترین اداکاری اور سخت محنت کا نتیجہ تھا۔پردۂ سیمیں کے وہ واحد ویلن تھے جن کے انتقال پر روزناموں نے صفحۂ اول پر خبر چھاپی،اداریئے لکھے۔’’موگیمبو خوش ہوا‘‘یہ الفاظ آج بھی لوگوں کے ذہن میں گونج رہے ہیں۔ فلم انڈسٹری میں امریش پوری نے موگیمبو کے مشکل کردار کو جس خوبی سے نبھایا، وہ ان کی بہترین اداکاری،بلند قامت،بھاری بھرکم شخصیت،پاٹ دار آواز کی دین تھا۔

Amrish Puri - Pic : INN
امریش پوری ۔ تصویر : آئی این این

بحیثیت ویلن فلم انڈسٹری میں امریش پوری نے جومقام حاصل کیا، وہ ان کی بہترین اداکاری اور سخت محنت کا نتیجہ تھا۔پردۂ سیمیں کے وہ واحد ویلن تھے جن کے انتقال پر روزناموں نے صفحۂ اول پر خبر چھاپی،اداریئے لکھے۔
 ’’موگیمبو خوش ہوا‘‘یہ الفاظ آج بھی لوگوں کے ذہن میں گونج رہے ہیں۔ فلم انڈسٹری میں امریش پوری نے موگیمبو کے مشکل کردار کو جس خوبی سے نبھایا، وہ ان کی بہترین اداکاری،بلند قامت،بھاری بھرکم شخصیت،پاٹ دار آواز کی دین تھا۔ بغیرامریش پوری ’مسٹر انڈیا‘کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ان کے اندر فن کارانہ صلاحیتیں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھیں۔جو رول بھی انہیں ملا،اپنی لاجواب اور بہترین اداکاری کے ذریعہ انہوں نے اسے امر بنادیا۔
 انبالہ میں ۲۲؍ جون ۱۹۲۲ء کو پیدا ہونے والے امریش پوری کیریکٹر آرٹسٹ چمن پوری اور ویلن مدن پوری کے سب سے چھوٹے بھائی تھے۔ کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے فلموں کا رخ کیا۔ لیکن بطور ہیرو مسترد کردیئے جانے کے بعد وہ فطری طور پر بہت مایوس ہوئے۔ بادل نخواستہ انہوں نے اپنی معاشی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے وزارت محنت میں ملازمت اختیار کرلی۔لیکن ان کا دل اداکاری کی طرف ہی مائل رہا۔آخر کار انہوں نے ایک دن ملازمت چھوڑدی اور اسٹیج اداکاری کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اسی دوران ان کی ملاقات ستیہ دیو دوبے سے ہوئی۔ اس ملاقات نے امریش پوری کی دنیا ہی بدل دی۔ستیہ دیو دوبے بہترین ہدایتکار تھے۔ انہوں نے امریش پوری کی اداکاری کو دیکھ کر ان کے اندرچھپی ہوئی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ ڈراما ’اندھا یگ‘ میں امریش پوری کی اداکاری سے متاثر ہوکر انہوں نے تقریباً ۵۰؍ڈراموں میں انہیں کام دیا اور ان کے اندر چھپی ہوئی فن کارانہ صلاحیتوں کواجاگر کیا۔بقول ستیہ دیو دوبے: ’’امریش جی کے بارے میں کیا کہوں۔بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک عمدہ ترین اداکار تھے۔‘‘
 اپنے زمانے کے مشہور ویلن کے این سنگھ امریش پوری کے آئیڈیل تھے۔ انہیں سے متاثر ہوکر انہوں نے اپنے آپ کو ویلن کے روپ میں ڈھالا اور وہ اس میں اس قدر کامیاب ہوئے کہ فلم انڈسٹری میں ویلن کو اہم مقام اور رتبہ دیا جانے لگا۔بقول گلشن گروور: ’’فلم انڈسٹری میں کھلنائک کواہم مقام دلانے میں امریش پوری کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔پہلے کھلنائک سیٹ پر ہی پنکھے کی ہوا کھاتے تھے۔لیکن امریش پوری نے کھلنائکوں کیلئے وینیٹی وین کی شروعات کی۔ آج انہیں کی بدولت فلمی دنیا ہم وینیٹی وین میں آرام کرپارہے ہیں۔‘‘
 یہ بات قابل ذکر ہے کہ پران کے بعد فلم انڈسٹری ویلن کے تعلق سے ایک غیریقینی صورت حال سے دوچار تھی۔ ایک خلا سامحسوس کیا جارہا تھا۔ اس وقت کوئی ویلن ایسا نہیں آرہا تھا جو پران کی کمی کوپر کرے۔ امریش پوری کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے نہ صرف اس کمی کو پورا کیا بلکہ جدید کھلنائکوں کیلئے باعث تقلید بھی بنے۔
 سبھاش گھئی نے اپنی فلم’ودھاتا‘ کیلئے جب امریش پوری کوویلن کے مرکزی کردار کیلئے سائن کیا تو کئی لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھا کہ کیا وہ شہنشاہ جذبات دلیپ کمار جیسے مشہور زمانہ چوٹی کے اداکار کے مقابلہ میں ٹک پائیں گے؟کیا وہ دلیپ کمار کے مقابلے میں اپنی اداکاری کا بھرپور مظاہرہ کرپائیں گے۔ لیکن امریش پوری نے ان خدشات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے فلم ’ودھاتا‘ میں نہ صرف کامیاب اداکاری کی بلکہ دلیپ کمار کے مقابلے پورے دم خم کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ اسی طرح فلم’شکتی‘ میں بھی ۲؍ کامیاب ہیرو دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کے مقابلے بہترین اداکاری کا مظاہر ہ کیا۔ یہ امریش پوری کیلئے بہت بڑی کامیابی تھی۔ ناظرین نے بھی امریش پوری کی اداکاری کی خوب تعریف کی اور امریش پوری نے اپنی اداکاری کا لوہا منوایا۔
 ویلن کے کردار میں وہ بہت مقبول ہوئے اور شہرت ان کے قدم چومنے لگی ۔یہاں تک کہ وہ ایک فلم کیلئے ڈیڑھ کروڑ روپے تک معاوضہ لیتے تھے۔انہوں نے ’ایمان دھرم‘، ’آکروش‘، ’غدر‘، ’دامنی‘، ’دیو‘، ’جانی دشمن‘، ’دوستانہ‘، ’کلیگ‘، ’شکتی‘، ’دھرم ستیہ‘ ، ’گاندھی‘، ’ مسٹر انڈیا‘، ’شہنشاہ‘، ’وراثت‘، ’ تری دیو‘، ’عجوبہ‘، ’سوداگر‘، ’مجھے کچھ کہنا ہے‘، ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘، ’چائنا گیٹ‘، ’گردش‘، ’پردیس‘، ’چاچی۔۴۲۰‘ ، ’لال بادشاہ‘، ’کوئلہ‘، ’رام لکھن‘، ’گھائل‘، ’آج کا ارجن‘، ’میری جنگ‘، ’کرن ارجن‘، ’جھوٹ بولے کوا کاٹے‘، ’تال‘، ’ہلچل‘سمیت تقریباً ۲۰۰؍فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
 پردے پر برائیوں کی ساری حدود توڑنے والا نیز غریبوں اور مظلوموں پرظلم کے پہاڑ توڑنے والا یہ شخص اپنی ذاتی زندگی میں انتہائی نیک انسان تھا۔اکثروہ سماجی سرگرمیوں میں متحرک رہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ زیادہ ترفلموں میں انہوں نے منفی رول ادا کئے۔جہاں کچھ فلموں میں انہوں نے حساس اور جذباتی اداکاری کی‘ وہیں انہوں نے’چاچی۔۴۲۰‘ اور ’مسکراہٹ‘ میں مزاحیہ اداکاری کرکے ناظرین سے داد و تحسین وصول کی۔
 ۱۲؍جنوری ۲۰۰۵ء کو جب ان کا جسد خاکی جوہوکے وردان بنگلہ میں رکھا ہوا تھا تو پاس ہی نصیرالدین شاہ اور اوم پوری جیسے بڑے اداکار اس طرح کھڑے تھے جیسے وہ یتیم ہوگئے ہوں۔یقیناً امریش پوری کا اس دارفانی سے کوچ کرجانافلم انڈسٹری کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK