Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریش پوری کے منفی کردار مداحوں کے دلوں میں بستے ہیں

Updated: June 22, 2025, 10:43 AM IST | Mumbai

فلم انڈسٹری میں امریش پوری نے موگیمبو کے مشکل کردار کو جس خوبی سے نبھایا، وہ ان کی بہترین اداکاری، بلند قامت، بھاری بھرکم شخصیت، پاٹ دار آواز کی دین تھا۔

Amrish Puri brought many characters to life. Photo: INN.
امریش پوری نے کئی کردار زندہ جاوید کردیئے۔ تصویر: آئی این این۔

بحیثیت ویلن فلم انڈسٹری میں امریش پوری نے جومقام حاصل کیا، وہ ان کی بہترین اداکاری اور سخت محنت کا نتیجہ تھا۔ پردۂ سیمیں کے وہ واحد ویلن تھے جن کے انتقال پر روزناموں نے صفحۂ اول پر خبر چھاپی، اداریئے لکھے۔ ’’موگیمبو خوش ہوا‘‘یہ الفاظ آج بھی لوگوں کے ذہن میں گونج رہے ہیں۔ فلم انڈسٹری میں امریش پوری نے موگیمبو کے مشکل کردار کو جس خوبی سے نبھایا، وہ ان کی بہترین اداکاری، بلند قامت، بھاری بھرکم شخصیت، پاٹ دار آواز کی دین تھا۔ بغیرامریش پوری ’مسٹر انڈیا‘کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے اندر فن کارانہ صلاحیتیں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھیں۔ جو رول بھی انہیں ملا، اپنی لاجواب اور بہترین اداکاری کے ذریعہ انہوں نے اسے امر بنادیا۔ انبالہ میں ۲۲؍ جون ۱۹۲۲ء کو پیدا ہونے والے امریش پوری کیریکٹر آرٹسٹ چمن پوری اور ویلن مدن پوری کے سب سے چھوٹے بھائی تھے۔ کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے فلموں کارخ کیا۔ لیکن بطور ہیرو مسترد کردیئے جانے کے بعد وہ فطری طور پر بہت مایوس ہوئے۔ بادل نخواستہ انہوں نے اپنی معاشی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے وزارت محنت میں ملازمت اختیار کرلی۔ لیکن ان کا دل اداکاری کی طرف ہی مائل رہا۔ آخر کار انہوں نے ایک دن ملازمت چھوڑدی اور اسٹیج اداکاری کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اسی دوران ان کی ملاقات ستیہ دیو دوبے سے ہوئی۔ اس ملاقات نے امریش پوری کی دنیا ہی بدل دی۔ ستیہ دیو دوبے بہترین ہدایتکار تھے۔ انہوں نے امریش پوری کی اداکاری کو دیکھ کر ان کے اندرچھپی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ ڈراما ’اندھا یگ‘ میں امریش پوری کی اداکاری سے متاثر ہوکر انہوں نے تقریباً ۵۰؍ڈراموں میں انہیں کام دیا اور ان کے اندر چھپی ہوئی فن کارانہ صلاحیتوں کواجاگر کیا۔ 
اپنے زمانے کے مشہور ویلن کے این سنگھ امریش پوری کے آئیڈیل تھے۔ انہیں سے متاثر ہوکر انہوں نے اپنے آپ کو ویلن کے روپ میں ڈھالا اور وہ اس میں اس قدر کامیاب ہوئے کہ فلم انڈسٹری میں ویلن کو اہم مقام اور رتبہ دیا جانے لگا۔ 
ویلن کے کردار میں وہ بہت مقبول ہوئے اور شہرت ان کے قدم چومنے لگی۔ یہاں تک کہ وہ ایک فلم کیلئے ڈیڑھ کروڑ روپے تک معاوضہ لیتےتھے۔ انہوں نے ’ایمان دھرم‘، ’آکروش‘، ’غدر‘، ’دامنی‘، ’دیو‘، ’جانی دشمن‘، ’دوستانہ‘، ’کل یگ‘، ’شکتی‘، ’دھرم ستیہ‘، ’گاندھی‘، ’ مسٹر انڈیا‘، ’شہنشاہ‘، ’وراثت‘، ’ تری دیو‘، ’عجوبہ‘، ’سوداگر‘، ’مجھے کچھ کہنا ہے‘، ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘، ’چائنا گیٹ‘، ’گردش‘، ’پردیس‘، ’چاچی۔ ۴۲۰‘، ’لال بادشاہ‘، ’کوئلہ‘، ’رام لکھن‘، ’گھائل‘، ’آج کا ارجن‘، ’میری جنگ‘، ’کرن ارجن‘، ’جھوٹ بولے کوا کاٹے‘، ’تال‘، ’ہلچل‘سمیت تقریباً ۲۰۰؍فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ پردے پر برائیوں کی ساری حدود توڑنے والا نیز غریبوں اورمظلوموں پرظلم کے پہاڑ توڑنے والا یہ شخص اپنی ذاتی زندگی میں انتہائی نیک انسان تھا۔ اکثروہ سماجی سرگرمیوں میں متحرک رہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ زیادہ ترفلموں میں انہوں نے منفی رول ادا کئے۔ جہاں کچھ فلموں میں انہوں نے حساس اور جذباتی اداکاری کی‘ وہیں انہوں نے’چاچی۔ ۴۲۰‘ اور ’مسکراہٹ‘ میں مزاحیہ اداکاری کر کے ناظرین سے داد و تحسین وصول کی۔ ۱۲؍جنوری ۲۰۰۵ء کو جب ان کا جسد خاکی جوہوکے وردان بنگلہ میں رکھا ہوا تھا تو پاس ہی نصیرالدین شاہ اور اوم پوری جیسے بڑے اداکار اس طرح کھڑے تھے جیسے وہ یتیم ہوگئے ہوں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK