Inquilab Logo

فلموں میں آنے سے قبل سنیل دت ریڈیو پر ایک پروگرام پیش کرتے تھے

Updated: January 19, 2020, 5:54 PM IST | Anees Amrohi

ان کا اداکاری کے میدان میں آنا ایک اتفاق تھا۔ وہ ایک اسٹوڈیو میں دلیپ کمار کا انٹرویو لینے گئے تھے۔ انٹرویو کے بعد دلیپ کمار نے کہا کہ تمہاری آواز اور شخصیت بہت اچھی ہے، تم خود ایکٹر کیوںنہیں بن جاتے؟ رمیش سہگل نے دلیپ کمار کی پینٹ شرٹ پہنواکر ان کا اسکرین ٹیسٹ لیا اور تین سو روپے کا پہلا سائننگ امائونٹ دے کر اپنی اگلی فلم کیلئے سائن کرلیا۔

سنیل دت اور سجنے دت ۔ تصویر : آئی این این
سنیل دت اور سجنے دت ۔ تصویر : آئی این این

وقت انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دے، کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ جب وقت مہربان ہوتا ہے تو وہ آدمی کو زمین سے اٹھاکر آسمان پر بٹھا دیتا ہے اور دنیا کی ہر دولت، عزت، شہرت اور چاہت اس کے قدموں میں بچھا دیتا ہے اور  جب برا وقت آتا ہے تو  اس سے دنیا کی ہر خوشی چھین بھی لیتا ہے۔ وقت کا یہ مذاق کبھی کبھی آدمی کے ساتھ لگاتار چلتا رہتا ہے اور آدمی کی زندگی میں اُتار چڑھائو آتے رہتے ہیں۔ اِسی لئے یہ مثال مشہور ہوئی کہ کبھی کسی کا وقت ایک سا نہیں رہتا۔
 ہندوستان کی آزادی اپنے دامن میں اس وسیع و عریض ملک کی تقسیم بھی لے کر آئی اور ۱۸؍ برس کے نوجوان بلراج دت کو پنجاب کے اپنے گائوں خرد (ضلع جہلم) سے بے دخل ہوکر ہندوستان کے (پہلے پنجاب اور اب ہریانہ کے) جمنانگر کے گائوں منڈولی میں آنا پڑا۔ بلراج دت ۶؍جون ۱۹۲۹ء کو پنجاب کے ضلع جہلم (اب پاکستان میں) کے ایک چھوٹے سے گائوں خرد کے ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام دیوان رگھوناتھ دت تھا اور وہ آرمی میں ملازم تھے۔ بلراج دت بچپن ہی سے بہت شرارتی تھے اور’چھوٹے دیوان‘ کہلاتے تھے اور ایک ملازم کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ کر اسکول جایا کرتے تھے۔ اپنی ماں شریمتی کلونت دیوی کو وہ پیار سے ونتوکہتے تھے۔ بچپن میں بلراج کو غصہ بہت آتا تھا۔ ایک بار وہ اپنی ماں پر اتنا غصہ ہوا کہ گھر کا دروازہ بند کرکے باہر سے تالا لگاکر چلا گیا۔ گائوں والے اُسے پورے گائوں میں ڈھونڈتے پھرے اور آخرمیں وہ اپنے ہی مکان کی چھت پر ایک چارپائی پر سوتا ہوا ملا۔ ابھی وہ ۶؍برس کا ہی تھا جب اس کے سر سے باپ کا شفیق سایہ اٹھ گیا۔ ملک کی تقسیم کے نتیجے میں اُس خاندان کا سب کچھ ختم ہو گیا اور یہ سب مہاجر بن کر ہندوستان کے پنجاب (اب ہریانہ) کے ایک گائوں منڈولی میں آباد ہو گئے جہاں اِن کو حکومت کی طرف سے کچھ زمین دی گئی۔ چھوٹے بھائی سوم دت، ماں اور ایک چھوٹی بہن رانی کی ذمہ داری اب پوری طرح بلراج دت کے کاندھوں پر تھی لہٰذا وہ ماں سے یہ وعدہ کرکے کہ وہ بی اے تک کی تعلیم ضرور حاصل کرے گا۔ روزگار کی تلاش میں بمبئی چلا آیا اور ریگل سنیما کے پیچھے ایک نائی کی دُکان میں رات کو سونے کا انتظام کر لیا۔ یہی نائی مفت میں ان کا شیو بھی کرتا تھا۔
 بمبئی آکر بلراج دت نے بڑی جدوجہد کی اور کسی طرح ’بیسٹ‘ کے ورکشاپ سو روپے ماہانہ پر ملازمت حاصل کر لی۔ یہاں ایک رفیوجی کالج قائم کیا گیا تھا۔ اس میں مارننگ کلاسیز ہوا کرتی تھیں۔ بلراج صبح ساڑھے۷؍ بجے کالج جاتا اور پھر دوپہر کو ڈھائی بجے سے رات ساڑھے گیارہ بجے تک قلابہ کے ڈپو میں بمبئی کی بسوں کا حساب کتاب لکھتا تھا۔ کچھ دنوں بعد بلراج نے ریڈیو سیلون کے ایک پروگرام’ لپٹن کے مہمان‘ کیلئے فلمی اداکاروں اور فلمسازوں و ہدایتکاروں سے انٹرویو کرنے شروع کر دیئے۔ اس پروگرام کیلئے اُسے بہت معمولی سی تنخواہ ملتی تھی، جس میں وہ بڑی تنگدستی کے ساتھ گزارا کرتا تھا۔ دن بھر کام کے سلسلے میں ایک اسٹوڈیو سے دوسرے اسٹوڈیو کے چکر لگاتا اور رات کو کافی دیر تک اپنی پڑھائی بھی کرتا تھا۔ ماں سے کیا ہوا بی اے کرنے کا وعدہ وہ ہمیشہ یاد رکھتا تھا۔ ریڈیو سیلون میں ملازمت ملنے پر بلراج دت نے کُرلا میں ایک ’کھولی‘ میں ۳۰؍روپے ماہانہ پر شیئر کر لیا۔اُس وقت اس کے پاس پہننے کیلئے صرف دو جوڑی کپڑے تھے۔ اُن دنوں وہ ہمیشہ سفید شرٹ اور سفید پائجامہ میں دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رات کو ایک جوڑی کپڑے وہ خود ہی دھو لیتا تھا اور صبح کو دوسری جوڑی کپڑے پہن کر اسٹوڈیو کی طرف نکل پڑتا تھا۔ ایک بار وہ  ایک اسٹوڈیو سے دوسرے اسٹوڈیو کیلئے نکلا تو راستے میں چند شریر لڑکیوں نے اُسے گھیر لیا، جو ہولی کھیل رہی تھیں۔ بلراج دت یہ دیکھ کر گھبرا گیا۔ اُس نے ان لڑکیوں سے منت سماجت کی کہ اُس کے کپڑوں پر کوئی رنگ نہ ڈالے کیونکہ اس کے پاس بدلنے کیلئے کوئی دوسرا جوڑا نہیں ہے مگر لڑکیوں نے اُس کی ایک نہ سنی اور اس کے سارے کپڑوں پر رنگ ڈال دیا اور بیچارہ بلراج دت اپنی بے بسی پر رو پڑا۔
  ریڈیو پر بلراج دت کے پیش کئے گئے پروگرام کافی مقبول ہوئے۔ انہی دنوں اداکارہ نرگس کا انٹرویو کرنے کا خیال اُس کو آیا۔ مشہور و معروف مغنیہ جدّن بائی کی بیٹی نرگس اُس وقت ایک مصروف اور مقبول اداکارہ تھیں، لہٰذا بلراج دت بار بار نرگس سے انٹرویو کا وقت لیتے رہے اور ہر بار نرگس وقت پر غائب رہتیں۔ تنگ آکر بلراج نے نرگس سے انٹرویو کرنے کا ارادہ ترک کر دیا مگر دل کے کسی کونے میں نرگس سے انٹرویو کرنے کی ان کی یہ خواہش جڑ پکڑ چکی تھی لہٰذا آٹھویں بار پھر انٹرویو کیلئے وقت ملا۔ نرگس نے کمرے میں آتے ہی بڑے تیز لہجے میں کہا ’’دیکھئے، میرے پاس وقت بالکل نہیں ہے۔ دس منٹ سے زیادہ میں آپ کو وقت نہیں دے سکتی۔ آپ کو جو پوچھنا ہے فٹافٹ پوچھئے، مجھے اسٹوڈیو جانا ہے۔‘‘
 نرگس کی بات چیت کا یہ انداز دیکھ کر بلراج دت ہکا بکا رہ گئے۔ ابھی بلراج یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اس مغرور عورت سے بات کہاں سے شروع کی جائے، تبھی ان کے کانوں میں وہی تیز طرّار آواز دوبارہ گونجی ’’اے مسٹر، آپ کس سوچ میں ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو کچھ پوچھنا ہی نہیں ہے۔ او کے، میں چلتی ہوں۔‘‘ مگر بلراج  نے انہیں روک ہی لیا اور دس منٹ کے بجائے یہ انٹرویو پندرہ منٹ تک چلا۔یہ تھی بلراج دت عرف سنیل دت کی نرگس سے پہلی ملاقات۔ پھر وقت نے ذرا سی کروٹ بدلی اور بلراج دت کو فلموں میں کام کرنے کی پیشکش ملی۔ یہ شاید ان کی آواز ہی کا کرشمہ تھا جو اُن کو فلموں کی طرف لا رہا تھا۔ 
 دلیپ کمار اور نلنی جیونت کی فلم’ شکست‘کی شوٹنگ کسی اسٹوڈیو میں تھی، ہدایتکار رمیش سہگل تھے۔ بلراج ، دلیپ کمار کا انٹرویو کرنے کیلئے سیٹ پر ہی پہنچ گئے۔ انٹرویو کے بعد دلیپ کمار نے بلراج دت سے کہا کہ تمہاری آواز اور شخصیت بہت اچھی ہے، تم خود کیوں ایکٹر نہیں بن جاتے؟ رمیش سہگل نے دلیپ کمار کی پینٹ شرٹ پہنواکر اسکرین ٹیسٹ لیا اور تین سو روپے کا پہلا سائننگ امائونٹ دے کر اپنی اگلی فلم کیلئے سائن کر لیا۔ اس وقت بلراج دت بی اے کے تیسرے سال میں تھے۔ انہوںنے کہا کہ میں ماں سے کیا ہوا وعدہ پہلے پورا کروںگا، اس کے بعد آپ کی فلم میں کام کروںگا۔ رمیش سہگل مان گئے اور اس طرح انہوںنے تقریباً ایک سال تک انتظار کیا اور پھر۱۹۵۴ء میں شروع ہوئی فلم ’ریلوے پلیٹ فارم‘ سے بلراج نے سنیل دت کے نام سے فلموں میں اداکاری کی شروعات کی۔ یہ فلم ایک سال میں بن کر ۱۹۵۵ء میں ریلیز ہوئی مگر زیادہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ سنیل دت پھر بھی مایوس نہیں ہوئے۔ اُسی سال ان کو تین فلمیں اور ملیں جن میں سے ایک بی آر چوپڑہ کی ’ایک ہی راستہ‘ تھی۔ چوپڑہ اُس وقت تک ایک کامیاب فلمساز و ہدایتکار کے طور پر اپنے آپ کو قائم کر چکے تھے اور ان کی فلم میں کام کرنا سنیل دت کیلئے بہت بڑی بات تھی۔ فلم کامیابی بھی ہوئی۔ اس کے بعد سنیل دت، بی آر چوپڑہ کے مستقل اداکار بن گئے اور بعد میں انہوں نے چوپڑہ کی گمراہ، سادھنا، وقت، اور ہمراز جیسی کامیاب فلموں میں کام کرکے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کو منوایا۔
 مشہورفلمساز ہدایتکار محبوب خان نے اپنی کامیاب ترین فلم ’عورت‘ کو دوبارہ ’مدر انڈیا‘ کے نام سے بنانے کا اعلان کیا اور برجو کے عجیب و غریب کردار کیلئے سنیل دت کا نام لیا تو ان کی یونٹ کے سبھی لوگ چونک پڑے مگر محبوب اپنے فیصلے پر اٹل رہے اور بعد میں لوگوں نے دیکھا کہ سنیل دت نے اپنی آواز اور اداکاری سے برجو کے مشکل ترین اینگری مین کے کردار میں جان ڈال دی تھی۔ فلم ’مدرانڈیا‘ سے سنیل دت کی زندگی کا ایک سب سے اہم واقعہ بھی جڑا ہوا ہے جس نے سنیل دت کی زندگی کو یکسر ہی بدل کر رکھ دیا۔ اسی فلم میں نرگس کلیدی رول ادا کر رہی تھیں اور سنیل دت نے ان کے چھوٹے بیٹے کا رول ادا کیا تھا۔ فلم کے ایک منظر میں گائوں کا سرمایہ دار کنہیالال، سنیل دت کی کٹی ہوئی فصل میں آگ لگوا دیتا ہے اور سنیل دت بھی اسی فصل میں چھپا بیٹھا ہے۔ نرگس کو معلوم ہے کہ اس کا بیٹا بھی آگ کے انہی شعلوں میں موجود ہے لہٰذا وہ بیقرار ہوکر ’برجو برجو‘ کہتی ہوئی اپنے بیٹے کو تلاش کرتی آگ اور دھوئیں میں بھاگتی دوڑتی پھر رہی ہے۔
 شوٹنگ کے دوران نرگس کو برجو تو نہیں ملتا مگر وہ خود حقیقتاً چاروں طرف لگی آگ میں گھِر جاتی ہے۔ تب سنیل دت کو معلوم ہوتا ہے کہ نرگس آگ اور دھوئیں میں گھِر گئی ہیں، وہ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اس آگ میں کود جاتا ہے اور نرگس کو زندہ بچا لاتا ہے۔ اس واقعہ سے نرگس اتنی زیادہ متاثر ہوئیں کہ انہوںنے اپنے سارے معاملات پس پشت ڈال کر اور بہت سارے لوگوں کی مخالفت کو نظرانداز کرتے ہوئے، خود سے عمر میں کافی چھوٹے سنیل دت سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سنیل دت نے بڑے تذبذب کے ساتھ نرگس کے سامنے شادی کی تجویز رکھی اور آخرکار ۱۱؍مارچ ۱۹۵۸ء کو دونوں نے شادی کرلی۔
 نرگس کے بڑے بھائی اختر حسین اس شادی کے خلاف تھے مگر چھوٹے بھائی انور حسین کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ شادی کے روز نرگس اپنے گھر سے یہ کہہ کر نکلی کہ وہ اپنی کسی سہیلی سے ملنے جا رہی ہے۔ ہندو مسلم شادیاں اس وقت اور بھی زیادہ مشکل تھیں، چاہے وہ فلم اسٹار ہی کیوں نہ ہوں۔ سنیل دت سے ملنے کا وقت شام سات بجے کا تھا۔ لنکنگ روڈ پر آریہ سماج کے قریب سنیل دت کھڑے نرگس کا انتظار کر رہے تھے۔ ۷؍بجے،۸؍بجے،۹؍بجے.... حتیٰ کہ رات کے دس بجے تک نرگس کا کہیں پتہ نہ تھا۔ وہاں سے ہٹ کر سنیل دت فون تک کرنے نہیں جا سکتے تھے کیوںکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وہاں سے ہٹیں اور نرگس آئے اور سنیل کو خاص مقام پر نہ پاکر لوٹ جائے۔ وہ اسی ادھیڑبن میں رہے کہ کہیں نرگس نے اپنا ارادہ تو نہیں بدل دیا؟ دوسری جانب نرگس ٹریفک میںپھنس گئی تھیں۔ اُسی دن پوپ جان پال ہندوستان آئے ہوئے تھے۔بمبئی میں اس سے قبل اتنا زبردست ٹریفک جام نہیں ہوا تھا۔ نرگس ٹیکسی بھی نہیں چھوڑ سکتی تھیں کیوںکہ ٹریفک کی وجہ سے دوسری ٹیکسی نہ ملی تو.... اور نہ ہی وہاں پارکنگ کی گنجائش تھی۔ یہ سنیل دت کا ہی حوصلہ تھا کہ اپنے مقام پر ڈٹے رہے اور انتظار کرتے رہے.... پھر خدا خدا کرکے دس بجے کے بعد نرگس وہاں پہنچیں اور یہ شادی ہوئی۔ بعد میں سنیل دت اور نرگس کی یہ شادی فلمی دنیا کی ایک مثالی شادی ثابت ہوئی اور نرگس نے ہر اچھے بُرے وقت میں سنیل دت کا ساتھ ایک بہترین دوست اور ایک غم گسار بیوی کے روپ میں دیا۔
 نرگس سے شادی کے بعدسنیل دت کی کامیابیوں کا سلسلہ تیزی سے شروع ہو گیا۔’سادھنا، سجاتا، انسان جاگ اُٹھا، ایک پھول چار کانٹے، میں چپ رہوںگی اور گمراہ‘ جیسی فلموں کی کامیابی نے انہیں ہیرو سے اسٹار بنا دیا۔ فلم’ مجھے جینے دو‘ میں تو انہوںنے ڈاکو کے کردار کو اس طرح زندگی بخشی کہ آج بھی فلم بینوں کے ذہنوں میں وہ کردار محفوظ ہے۔سنیل دت ایک باہمت، جواں حوصلہ اور مردانہ شخصیت کا نام تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK