انگلینڈ سے فلم کی تکنیک سیکھ کر واپس آئے تو فلم ’راجہ ہریش چند‘ بنائی، یہ پہلی بار کچھ مخصوص لوگوں کو ۲۱؍اپریل ۱۹۱۳ء کو بمبئی میں دکھائی گئی اور پھر ۳؍مئی کو یہ عوامی نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی۔
EPAPER
Updated: December 28, 2025, 11:41 AM IST | Anis Amrohvi | Mumbai
انگلینڈ سے فلم کی تکنیک سیکھ کر واپس آئے تو فلم ’راجہ ہریش چند‘ بنائی، یہ پہلی بار کچھ مخصوص لوگوں کو ۲۱؍اپریل ۱۹۱۳ء کو بمبئی میں دکھائی گئی اور پھر ۳؍مئی کو یہ عوامی نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی۔
۳۰؍اپریل ۱۸۷۰ء کو دھنڈی راج گووِند پھالکے کا ناسک کے قریب واقع ایک قصبے میں ایک برہمن خاندان میں ہوا تھا۔ اُن کے والد کا نام داجی شاستری پھالکے تھا جو بمبئی کے ولسن کالج میں سنسکرت پڑھاتے تھے۔ ۱۸۹۳ء میں پھالکے نے اپنی فلم کمپنی ’پھالکے فلمز‘ قائم کی اور مکمل طور پر ہندوستان میں پہلی فیچر فلم ’راجہ ہریش چند‘ بنائی، جو۳؍مئی ۱۹۱۳ء کو عوامی سطح پر ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے رائٹر، ڈائریکٹر، کیمرہ مین، پروسیسنگ، پرنٹنگ اور ایڈیٹنگ تک کا کام خود پھالکے نے کیا تھا۔ اس فلم میں نسوانی کردار ادا کرنے کیلئے کوئی عورت تیار نہیں ہو رہی تھی، لہٰذا اے سالونکے نامی ایک مرد سے تارامتی کا کردار ادا کروایا گیا تھا۔ اس فلم میں ڈی ڈی دابکے نے راجہ ہریش چند اور پھالکے کے بیٹے بھال چندر نے روہتاش کے کردار ادا کئے تھے۔
آبائی وطن میں ہی پھالکے کی ابتدائی تعلیم ہوئی۔ اس کے علاوہ اپنے مخصوص خاندانی پس منظر کی وجہ سے ویدوں، پُرانوں، اُپنشدوں اور شاستروں کی بھی اچھی خاصی معلومات اُن کو حاصل ہو گئی تھی، جو بعد میں دیومالائی قسم کی فلمسازی میں اُن کے بہت کام آئی۔ اُس کے بعد وہ اپنے والد کے پاس بمبئی چلے آئے اور ۱۵؍برس کی عمر میں ۱۸۸۵ء میں انہوں نے بمبئی کے جے جے اسکول آف آرٹس میں داخلہ لے لیا۔ ۲؍ سال بعد وہ کلا بھون سے وابستہ ہوگئے۔ ان دنوں کلابھون کے کرتا دھرتا پروفیسر گجر تھے جنہیں باصلاحیت فنکاروں کو تلاش کرنے کا بڑا شوق تھا۔ انہوں نے پھالکے کی صلاحیتوں کو پہچان کر کلابھون کے فوٹو گرافک اسٹوڈیو کی ذمہ داری اُن کو سونپ دی۔ اس کا پورا فائدہ پھالکے نے اُٹھایا۔ ۱۹۰۳ء میں انہوں نے حکومت ہند کے شعبۂ آثار قدیمہ میں فوٹوگرافر اور ڈرافٹ مین کی ملازمت اختیار کر لی۔ اسی دوران وہ اپنے شوق کی تسکین کیلئے تصویروں کے ہاف ٹون بلاک بنانے کا کام بھی کرتے رہے۔ ایک بار مشہور مصور راجہ روی ورما کی تصویروں کے ہاف ٹون بلاک بنانے پر اُن کو بمبئی کی ایک نمائش میں چاندی کا تمغہ بھی انعام میں ملا۔ اس کے بعد انہوں نے ’پھالکے اِنگریونگ اینڈ پرنٹنگ ورکس‘ کے نام سے بلاک بنانے اور پرنٹنگ کا کام شروع کر دیا۔ اس کامیابی کے بعد انہوں نے ’لکشمی آرٹ پرنٹنگ ورکس‘ کے نام سے فائن پرنٹنگ کا کام بھی شروع کر دیا۔ ان سب کامیابیوں سے حوصلہ پاکر وہ ’تھری کلر‘ میں چھپائی کی غرض سے جدید مشینیں خریدنے کیلئے ۱۹۰۹ء میں جرمنی بھی گئے۔
دادا صاحب پھالکے کی عمر اُس وقت تقریباً چالیس برس کی ہوگی جب فائن پرنٹنگ کا ان کا کاروبار بالکل ختم ہو گیا۔ بے دِلی کے عالم میں وہ ۱۹۱۰ء میں ایک دن اپنے چند دوستوں کے ساتھ کرسمس شو دیکھنے گئے۔ وہاں اس دن خصوصی طور پر امریکہ کی ایک فلم ’لائف آف کرائسٹ‘ دکھائی گئی۔ پھالکے کیلئے اس طرح کی فلم دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ وہ اس کرشمے سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے اُسی وقت دل میں یہ ٹھان لیا کہ وہ بھی اسی طرز پر رامائن اور مہابھارت کی کہانیوں اور کرداروں پر فلمیں بنائیں گے۔ وہ برہمن تھے اور جے جے اسکول آف آرٹس میں تخلیقی فن کی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ انہوں نے مصوری کے علاوہ اسٹیج کی سجاوٹ اور تھوڑی بہت جادوگری بھی سیکھی تھی اور کلابھون میں رہ کر فوٹوگرافی کی تعلیم بھی حاصل کرلی تھی۔ یہ ساری باتیں فلمسازی کیلئے ان کے بہت کام آئیں۔ اس کے بعد ایک سال تک دادا صاحب پھالکے لگاتار مختلف سنیما گھروں کے چکر لگاتے رہے اور اس نئی نئی ایجاد کی تکنیکی باریکیوں کا جائزہ لیتے رہے۔ انہوں نے ۵؍ ڈالر کی قیمت سے ایک کیمرہ بھی خریدا جس سے وہ مختلف مواقع کی تصویریں بھی اُتارتے رہے۔
اگلے ایک برس میں انہوں نے ایک ڈاکیومینٹری فلم ’مٹر کے بیج کا وکاس‘ یعنی ارتقاء کی تخلیق کی۔ اس کیلئے انہوں نے ایک گملے میں مٹر کا ایک بیج بویا اور روزانہ کے حساب سے ایک تصویر اُتارتے چلے گئے۔ بعد میں سب تصویروں کو جوڑکر انہوں نے یہ دستاویزی فلم تیار کی تھی۔ اس کے بعد کچھ قرض لے کریکم فروری ۱۹۱۲ء کو دادا صاحب پھالکے فلمسازی سے متعلق جانکاری حاصل کرنے اورکچھ ساز و سامان خریدنے کیلئے انگلینڈ چلے گئے۔ دو ماہ بعد جب وہ انگلینڈ سے واپس آئے تو ان کے پاس وِلیمسن کیمرہ، پروجیکٹر، پرنٹنگ مشین اور فلمسازی سے متعلق تکنیکی جانکاری اور کچھ حد تک تجربہ بھی ہوگیا تھا۔ وہ ہندوستان کے پہلے’فارین ریٹرن‘فلمی تکنی شیئن بھی بن گئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے مزید پونجی حاصل کرنے کیلئے بیوی کے گہنے گروی رکھے اور فلم ’راجہ ہریش چند‘ کا کام شروع کر دیا۔ اس فلم کیلئے سب کچھ اُنہی کو کرنا تھا۔ لوگوں کو اداکاری سکھانا، اسکرپٹ لکھنا، کیمرہ چلانا اور پروڈکشن کرنا۔ برسات کا موسم ختم ہوتے ہی پھالکے نے دادر کے مین روڈ پر متھرا بھون میں اپنا اسٹوڈیو بنایا اور سیٹ تیار کراکے فلمسازی کا کام شروع کر دیا۔ فلم ’راجہ ہریش چند‘ پہلی بار چند مخصوص لوگوں کو ۲۱؍اپریل ۱۹۱۳ء کو بمبئی کے اولمپیا سنیما میں دکھائی گئی اور ۳؍مئی ۱۹۱۳ء کو یہ فلم بمبئی کے کارونیشن تھیٹر میں عوامی نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی۔
اپنی پہلی فلم ’راجہ ہریش چند‘ بمبئی میں بنانے کے بعد دادا صاحب پھالکے ناسک چلے گئے، ایک بنگلہ کرائے پر لیا اور اپنا اسٹوڈیو قائم کیا۔ وہاں پر ایک حوض بنا ہوا تھا جس میں فوارہ بھی لگا تھا۔ اس کی وجہ سے یہ جگہ ’حوض کا بنگلہ‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ انہوں نے فلمسازی کیلئے ’حوض کا بنگلہ‘ والی جگہ پر بہت سی تبدیلیاں کرائیں۔ اپنی کمپنی کا صدر دفتر، فلم پروسیسنگ کیلئے لیباریٹری اور شوٹنگ میں استعمال ہونے والے مور، طوطے، ہرن، خرگوش اور بندر جیسے چرند پرند پالنے کیلئے الگ انتظام کیا۔ کھلی جگہ میں محل اور آشرم کے سیٹ بھی بنوائےکیونکہ اس زمانے میں فلموں کی شوٹنگ سورج کی روشنی میں ہی ہوا کرتی تھی۔ کل ملا کر پھالکے نے اس مقام کو کافی خوشنما بنا دیا تھا۔ انہوں نے اپنی پہلی فلم کی کامیابی سے حوصلہ پاکر اُسی سال اپنی دوسری فلم ’بھسماسُر موہنی‘ بنائی۔ اس فلم میں نسوانی کردار ادا کرنے کیلئے اُن کو دو خاتون بھی مل گئیں۔ اس فلم میں پہلی بار پاروتی کا کردار دُرگا بائی گوکھلے اور موہنی کا کردار اُن کی بیٹی کملا بائی گوکھلے نے ادا کیا تھا۔ یہ دونوں ماں بیٹی تھیں۔ کملا گوکھلے آج کے مشہور کریکٹر ایکٹر وکرم گوکھلے کی دادی تھیں۔ کملا بائی گوکھلے کے شوہر رگھوناتھ گوکھلے بھی اسٹیج پر اداکاری کرتے تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے کئی ناٹکوں میں نسوانی کردار ادا کئے تھے جبکہ کملابائی گوکھلے کئی ناٹکوں میں مردانہ کردار ادا کر چکی تھیں۔ یہ لوگ مہاراشٹر کے کوکن علاقے کے رہنے والے تھے۔
’بھسماسُر موہنی‘ ۱۹۱۶ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد ۱۹۱۷ء میں ان کی بنائی دو فلمیں ’ستیہ وان ساوتری‘ اور ’لنکادہن‘ ریلیز ہوئیں۔ فلم ’لنکادہن‘ میں اےسالُونکے سے رام اور سیتا، دونوں کے کردار ادا کرواکے پھالکے نے ایک طرح سے ڈبل رول کی روایت قائم کی۔ بمبئی کے ’ویسٹ اینڈ سنیما‘ میں دس دن چل کر ۳۲؍ہزار روپے کی آمدنی سے اس فلم نے باکس آفس پر کامیابی کا پہلا ریکارڈ قائم کیا۔ ۱۹۱۸ء میں کچھ ساجھی داروں کو شامل کرکے دادا صاحب نے ’پھالکے فلمز‘ کی جگہ ایک نئی ’ہندوستان فلم کمپنی‘ قائم کی اور اس بینر سے بنی فلم ’شری کرشن جنم‘ بھی کافی کامیاب ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی بیٹی منداکنی کو ہیروئن لے کر فلم ’کالیا مردن‘ ۱۹۱۹ء میں پیش کی۔ اس فلم میں پھالکے کی ٹرِک فوٹوگرافی کے مناظر نے دھوم مچا دی تھی۔ اُن کی فلموں میں کرشن کا کالیا ناگ سے لڑنا، ہنومان کا آسمان میں اُڑنا اور اُن کی پونچھ کے ذریعہ لنکا میں آگ لگانا جیسے مناظر نے پھالکے کو ٹرِک فوٹوگرافی کیلئے الگ سے ایک نئی پہچان دلائی تھی لیکن چند برسوں میں ہی ساجھی داروں سے تال میل ٹھیک نہ بیٹھنے کی وجہ سے پھالکے ۱۹۲۱ء میں اس کمپنی سے الگ ہوکر بنارس چلے گئے اور وہاں رہ کر ناٹک لکھنا شروع کر دیئے۔ ۵؍سال بنارس میں رہ کر جب وہ واپس بمبئی آئے تو فلمی دنیا بدل چکی تھی۔ ایسے میں پھالکے اس نئے ماحول میں خود کو زیادہ بہتر محسوس نہ کر سکے۔
ہندوستانی سنیما کے اس باوا آدم نے اپنی زندگی کے آخری چند برس بڑی کسمپرسی کے عالم میں گزارے۔ اُن کے آخری دِنوں کا ایک واقعہ جو فلمساز وہدایتکار پنڈت کیدار شرما نے ایک بار سنایا، وہ یہ تھا کہ ایک دِن بمبئی کے رنجیت اسٹوڈیو کے باہر دادا پھالکے خاکی پینٹ اور ایک ڈھیلی ڈھالی سی قمیص پہنے کھڑے تھے۔ کیدار شرما جب اسٹوڈیو سے باہر نکلے تب پھالکے نے ان سے کہا کہ کیا وہ اپنے اسٹوڈیو میں اُنہیں کوئی کام دِلوا سکتے ہیں ؟ وہ اسٹوڈیو میں کیمرے صاف کرنے اور اُن میں تیل ڈالنے تک کیلئے تیار تھے۔ کیدار شرما نے ان کو اسٹوڈیو کے مالک چندو لال شاہ کے پاس بھیج دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ چندو لال شاہ نے نہ صرف انہیں کام دینے سے انکار کر دیا بلکہ چو کیدار سے کہہ کر اسٹوڈیو کے باہر نکلوا دیا۔ کچھ اسی طرح کا حال بابورائو پینٹر کا بھی ہو اتھا۔ بعد میں چندولال شاہ کے بارے میں بھی سنا گیا کہ وہ اپنے آخری دنوں میں اپنے ہی اسٹوڈیو کے باہر اپنی بنائی ہوئی فلموں کے فوٹو اور پوسٹر بیچتے ہوئے پائے گئے۔
آج دادا صاحب پھالکے کے نام پر قائم ملک کے سب سے بڑے فلمی اعزاز ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ کو حاصل کرنے والے اپنے آپ پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ اعزاز فلمی دنیا میں اپنی زندگی کے بیش قیمت ماہ و سال گزارکر کچھ کر گزرنے والے فنکاروں کو دیا جاتا ہے۔ ۱۹۷۰ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ حکومت نے قائم کیا تھااور پہلا ایوارڈدیویکا رانی کو ملا تھا۔ محکمۂ ڈاک تار نے ان کے ۱۰۰؍ ویں جنم دن پر ۳۰؍اپریل ۱۹۷۱ء کو ایک خصوصی ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔ بمبئی میں ایک سڑک کا نام بھی اُن سے منسوب ہے۔ انہوں نے تقریباً ۲۰؍ فیچر اور ۹۷؍ دستاویزی فلمیں بنائیں مگر ان کی مالی حالت ہمیشہ خستہ ہی رہی۔ ۷۱؍برس کی عمر میں ۱۶؍فروری ۱۹۴۴ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے اپنی عمر کےکئی برس گمنامی میں گزارے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھی ہندوستانی سنیما کی بات ہوگی، انہیں یاد کیا جائے گا۔