Inquilab Logo Happiest Places to Work

راجندر سنگھ بیدی کو ادب کے ساتھ فلم انڈسٹری میں بھی اہم مقام حاصل تھا

Updated: August 13, 2023, 2:53 PM IST | Anees Amrohi | Mumbai

ان کی فلمی زندگی کا آغاز لاہور ہی میں ہو گیا تھا جب ان کی کہانی پر ’کہاں گئے‘ کے نام سے ایک فلم بنی، پھر ممبئی آئے تو انہوں نے تقریباً ۴۰؍ فلموں کے ڈائیلاگ لکھے

Rajinder Singh Bedi. Photo :INN
مشہور رائٹرراجندر سنگھ بیدی۔ تصویر:آئی این این

مجھے یاد ہے ۱۴؍مارچ ۱۹۷۴ء کا وہ دن، جب میں فلمساز، ہدایتکار اور مصنف کمال امروہوی سے اُن کے آبائی وطن امروہہ کے اُن کے ذاتی مکان کے آنگن میں انٹرویو کر رہا تھا اور میں نے اُن سے ایک غیرفلمی سا سوال کیا تھا۔ میں نے اُن سے پوچھا تھا ’’اُردو میں آپ کا پسندیدہ ادیب کون ہے؟‘‘ کمال صاحب نے کہا تھا ’’میرے نقطہ نظر سے موضوع کے لحاظ سے سب سے اچھا لکھنے والے راجندر سنگھ بیدی ہیں ۔‘‘
 راجندر سنگھ بیدی یکم ستمبر ۱۹۱۵ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد شری ہیرا سنگھ بیدی کھتری سِکھ خاندان کے اور والدہ سیتا دیوی برہمن خاندان کی تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بیدی کے یہاں رنگ، مذہب، نسل وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں تھا۔ ان کے دوستوں کا ایک وسیع حلقہ تھا جس میں ہر طبقہ، فکر، نسل، رنگ اور مذہب کے لوگ موجود تھے۔ بیدی انتہائی خوش اخلاق اور زندہ دل انسان کا نام تھا۔
 ۱۹۳۱ء میں انہوں نے ایس جی بی اے خالصہ اسکول، لاہور سے میٹرک اور ۱۹۳۳ء میں ڈی اے وی کالج، لاہور سے انٹر کا امتحان پاس کیا مگر چند ناگزیر وجوہات کی بناپر تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ اُن کے والد کا جلد ہی انتقال ہو گیا اور پورے گھر کی ذمہ داری اُن کے جوان ہو رہے کاندھوں پر آگئی۔ لہٰذا انہوں نے وہیں پوسٹ آفس میں ملازمت اختیار کر لی۔ اُسی زمانے میں بیدی صاحب نے کہانیاں لکھنی شروع کر دی تھیں ۔ ۱۹۴۳ء میں انہوں نے اپنی اس ملازمت سے سبکدوشی اختیار کی اور دہلی میں مرکزی حکومت میں پبلسٹی کے شعبہ میں کچھ دن کام کرنے کے بعد آل انڈیا ریڈیو لاہور میں ملازمت اختیار کرلی۔ تقسیم ہندکے بعد ان کی منتقلی دہلی میں ہو گئی۔ ۱۹۴۸ء میں وہ اردو ادیبوں کے ایک وفد میں شریک ہوکر کشمیر گئے۔ شیخ محمد عبداللہ نے راجندر سنگھ بیدی کو جموں کشمیر ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر کا عہدہ سونپ دیا اور وہاں ان کی کوششوں سے سری نگر ریڈیو اسٹیشن کا قیام عمل میں آیا۔ مگر وہاں بیدی زیادہ عرصہ تک ٹھہر نہ سکے اور ایک سال کے قلیل عرصہ تک کام کرنے کے بعد ۱۹۴۹ء میں انہوں نے کشمیر کو خیرباد کہا اور دہلی ہوتے ہوئے بمبئی پہنچ گئے۔ اس کے بعد ان کامستقل قیام بمبئی میں ہی رہا۔ ۱۹۶۵ء میں انہیں ناولٹ ’ایک چادر میلی سی‘کیلئے ساہتیہ اکادمی کے انعام سے نوازا گیا اور ۱۹۷۳ء میں ’پدم شری‘ کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔ ۱۹۷۸ء میں انہیں غالب ایوارڈ دیاگیا۔
 بیدی صاحب نے کئی فلمیں بھی تخلیق کیں جن میں ’’پھاگن، گرم کوٹ، دستک اوررنگولی‘‘ مشہور اور بے مثال ہیں مگر انہوں نے کبھی بھی کمرشیل بننے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کبھی کاروباری فلموں کے چکر میں پڑکر اپنے اندر کے ادیب کو مرنے دیا۔
 ۱۹۸۱ء کے فروری ماہ میں جب بمبئی کے بنکنگ روڈ واقع نریندر بیدی کے مکان پر میری ان سے پہلی ملاقات باقر مہدی کے توسط سے ہوئی تو اس وقت بیدی صاحب کافی بیمار تھے مگر اس حالت میں بھی انہوں نے اپنی روایت کے مطابق خاصی خاطر تواضع کی۔ جب میں نے ان سے نئے افسانے کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے نہایت اطمینان سے جواب دیا تھا ’’میں افسانے کے مستقبل سے قطعی نااُمید نہیں ہوں ۔ ادب میں تجربے ہوتے رہے ہیں اور یہ ایک اچھی علامت ہے۔‘‘ آل انڈیاریڈیو کی ملازمت ترک کرکے بیدی جب بمبئی کی فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے تو وہاں کا ہر شخص اُن کی انسان دوستی سے متاثر ہوکر اُن کا گرویدہ ہوتا گیا۔
 راجندرسنگھ بیدی کی فلمی زندگی کا آغاز لاہور ہی میں ہو گیا تھا جب ایک فلم رائٹر کے طور پر مہیشوری فلمز کی ’کہاں گئے‘لاہور میں بنی۔ اس کے بعد بیدی بمبئی آگئے تو انہوں نے تقریباً ۴۰؍ فلموں میں ڈائیلاگ لکھے۔ ان میں ’’بڑی بہن، داغ، مرزا غالب،دیوداس، ابھیمان، مدھومتی،انورادھا اور’انوپما‘‘ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ فلم ’’ساز، انورادھا، انوپما، میم دیدی، ستیہ کام اورابھیمان‘‘ جیسی عمدہ فلمیں بیدی کے ہی زور قلم کا نتیجہ ہیں ۔ فلم ’مسافر،انورادھااورانوپما‘ کیلئے بیدی کو صدرِ جمہوریہ کا گولڈ اور سلور میڈل بھی عطا کیا گیا۔ اُن کی ہدایت میں بنی پہلی فلم ’دستک‘ کو بھی صدر جمہوریہ کا ایوارڈ ملا۔
 راجندر سنگھ بیدی بلا شبہ اردو افسانے اور ہندوستانی سنیما کے سلسلے میں ایک قدرآور شخصیت کا نام ہے۔ انہوں نے جس طرح اپنے کرداروں کو افسانے کے ذریعے برتا ہے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ چاہے وہ لاجونتی ہو، یا ’رحمان کے جوتے‘ والا رحمان ہو۔ ان کا ہر کردار اپنے آپ میں مکمل ہے، اپنی تمام تر نفسیات کے ساتھ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ۔ فلموں سے وابستہ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اردو ادب کی چادر کو میلا نہیں ہونے دیا۔
 راجندر سنگھ بیدی علم نجوم میں بھی یقین رکھتے تھے اور انہوں نے اپنی جنم کنڈلی بھی بنوائی ہوئی تھی ۔ ان کی کنڈلی کے مطابق ان کو ۷۷؍برس تک جینا تھا لیکن اُن کے انتقال کے وقت اُن کی عمرصرف ۶۹؍برس کی تھی۔ ۱۱؍نومبر ۱۹۸۴ء کوبمبئی میں راجندر سنگھ بیدی کا انتقال ہوا۔
 آج جسمانی طور پر بیدی ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں مگر ان کی روح آج بھی ان کے افسانوں کے کرداروں کے روپ میں ہمارے سامنے موجود ہے اور اب مجھے ایسا لگتا ہے کہ بیدی ایک نہیں ، کئی تھے۔صرف جسم والا بیدی ہم سے بچھڑا ہے اور وہ بیدی جو اُن کی کہانیوں کے کرداروں میں موجود ہے، وہ بیدی کی آتماہے اور آتما کبھی نہیں مرتی، آتما امر ہوتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK