• Mon, 22 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گووندہ کی اداکاری،مزاح اور رقص کے مداح دیوانے تھے

Updated: December 22, 2025, 12:44 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ہندی سنیمامیں اگر کسی اداکار نے خالص عوامی تفریح، بے ساختہ مزاح اور اسٹیج جیسی توانائی کو پردۂ سیمیں پر زندہ رکھا، تو وہ نام گووندہ کاہے۔

People used to get excited after watching Govinda`s films. Picture: INN
گووندہ کی فلمیں دیکھ کر عوام لوٹ پوٹ ہوجاتے تھے۔ تصویر: آئی این این
ہندی سنیمامیں اگر کسی اداکار نے خالص عوامی تفریح، بے ساختہ مزاح اور اسٹیج جیسی توانائی کو پردۂ سیمیں پر زندہ رکھا، تو وہ نام گووندہ کاہے۔ وہ اداکار جس نے نہ صرف ۱۹۹۰ءکی دہائی پر راج کیا، بلکہ مزاح کو عزت، رقص کو وقار اور عام آدمی کے جذبات کو فلمی اسکرین پرایک نئی پہچان دی۔گووندہ کی زندگی اور فلمی سفر ایک ایسے فنکار کی کہانی ہے جو گلی کوچوں سے اٹھ کر سپر اسٹار بنا، مگر اپنے مزاج، بول چال اور انداز میں ہمیشہ زمین سے جڑا رہا۔
گووندہ کا اصل نام گووند آہوجا ہے۔وہ ۲۱؍ دسمبر۱۹۶۳ءکوممبئی میںپیدا ہوئے۔ ان کے والد ارون کمار آہوجا خود ۱۹۴۰ء اور ۱۹۵۰ء کی دہائی کے اداکارتھے، جبکہ والدہ نرگس ایک گلوکارہ اور رقاصہ تھیں۔ یوںگووندہ کو فن کا ورثہ ضرور ملا، مگر قسمت نے شروع سے ہی کڑے امتحان لیے۔ والد کا فلمی کریئرڈھل چکا تھا، مالی حالات کمزور تھے، گھرمیں جدوجہد کا ماحول تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گووندہ نے کم عمری میں ہی زندگی کی سختیاں دیکھ لیں، جو آگے چل کر ان کے مزاح میں بھی جھلکتی رہیں یعنی ہنسی کے پیچھے چھپا ہوا دکھ۔فلمی دنیا میں قدم رکھنا آسان نہ تھا۔ کئی آڈیشن، کئی ناکامیاں، اوربار بار انکار کے بعد ۱۹۸۶ءمیں فلم ’لو ۸۶؍‘ سے انہیں پہلا موقع ملا۔ فلم نے متوسط کامیابی حاصل کی، مگر گووندہ کو پہچان مل گئی۔ اصل موڑ آیا ۱۹۸۸ءکی فلم ’الزام‘ سے، جس کا گانا ’اسٹریٹ ڈانسر‘ نے انہیں نوجوانوں میں بے حد مقبول کر دیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب فلمی دنیا نے محسوس کیا کہ یہ لڑکا صرف اداکار نہیں، ایک مکمل انٹرٹینر ہے۔
۱۹۹۰ءکی دہائی گووندہ کا سنہرا دورثابت ہوئی۔ انہوں نے یکے بعددیگرے ایسی فلمیں دیں جو آج بھی ٹی وی اسکرین پر آتے ہی ناظرین کو روک لیتی ہیں۔ ’آنکھیں‘ (۱۹۹۳ء)نے انہیں سپر اسٹار کی صف میں لا کھڑا کیا۔ اس کے بعد ’راجا بابو‘، ’قلی نمبر ون‘، ’ساجن چلے سسرال‘، ’بڑے میاں چھوٹے میاں‘، ’ہیرو نمبر ون‘، ’دلہن ہم لے جائیں گے‘، ’ہنسی توپھنسی‘، ’دولہے راجا‘ جیسی فلموں نے گووندہ کو ’کنگ آف کامیڈی‘ بنا دیا۔ خاص طور پر ہدایت کار ڈیوڈ دھون کے ساتھ ان کی جوڑی بالی ووڈ کی کامیاب ترین جوڑیوں میں شمار ہوتی ہے۔گووندہ کی کامیڈی محض جگت بازی نہیں تھی۔ ان کے کردار عام آدمی کے تھے،بھی بے روزگار نوجوان، کبھی محبت میں ناکام عاشق، کبھی سسرال سےپریشان داماد۔ ان کی باڈی لینگویج، آنکھوں کی شرارت، مکالموں کی ادائیگی اور سب سے بڑھ کر ان کا رقص،سب کچھ فطری لگتا تھا۔ وہ کیمرے کے سامنے اداکاری نہیں کرتے تھے، بلکہ جیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فلمیں ہر طبقے میں مقبول ہوئیں، چاہے وہ شہر ہو یا قصبہ، امیر ہو یا غریب۔تاہم شہرت کے اس عروج کے بعد زوال بھی آیا۔ ۲۰۰۰ء کے بعد بالی ووڈ کا مزاج بدلنے لگا۔ نئی نسل، نیاسنیما، اور بدلتے موضوعات کے بیچ گووندہ خود کو ہم آہنگ نہ کر سکے۔ان کی کئی فلمیں فلاپ ہوئیں۔ ’بھاگم بھاگ‘ اور ’پارٹنر‘ جیسی فلموں نے وقتی واپسی ضرور دلائی، مگر وہ پرانی مسلسل کامیابی لوٹ کر نہ آ سکی۔ اس دوران ان کا سیاست میں آنا بھی بحث کا موضوع بنا، مگر یہ میدان ان کے فطری مزاج سے میل نہ کھا سکا۔گووندہ کی سب سے بڑی کامیابی شاید یہ ہے کہ وہ آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ ان کی فلمیں آج بھی دیکھی جاتی ہیں، ان کے مکالمے آج بھی دہرائے جاتے ہیں، اور ان کا انداز آج بھی نقل کیا جاتا ہے۔ وہ اس دور کی یادگار ہیں جب فلم دیکھنے کا مطلب ۲؍گھنٹے کی بے فکری، ہنسی اور سیٹیوں کی گونج ہوتا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK