انہیں بچپن سے دو چیزوں کا بے حد شوق تھا، ایک اسنوکر کھیلنا اور دوسرے غیرملکی فلمیں دیکھنا۔ انگلش میڈیم اسکول میں پڑھائی کرنے کی وجہ سے وہ ہندی فلمیں بہت کم دیکھتے تھے لیکن اشوک کمار کی فلم ’قسمت‘ دیکھ کر ان کا ذہن بدل گیا اور پھر اسی میں کریئر بنایا۔
فیروز خان اور وِنود کھنہ کی دوستی بہت مشہور تھی۔ اُن کی دوستی کا یہ رشتہ فیروز خان کی آخری سانس تک قائم رہا۔ تصویر: آئی این این
بنگلور شہرکمپیوٹر ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس شہر کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اِس کی مٹی نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کو ایک ایسا فنکار دیاجو بیک وقت فلمساز، ہدایت کار اور اسکرپٹ رائٹر ہونے کے ساتھ ہی ایک باصلاحیت اداکار بھی تھا۔ اس فنکار کوہم فیروز خان کے نام سے پہچانتے ہیں۔
۲۵؍ستمبر ۱۹۳۹ء کو فیروز خان کا جنم بنگلور میں ہوا۔ اُن کے والد کا نام صادق علی خان تنولی تھا، جن کا تعلق افغانستان کے غزنی صوبے سے تھا۔ ان کی والدہ کا نام فاطمہ تھا اور وہ ایران کی رہنے والی تھیں۔ صادق علی خان کی اولادوں میں ۶؍ بیٹے اور۲؍ بیٹیاں تھیں۔ بہن بھائیوں میں فیروز خان دوسرے نمبر پر تھے۔ اُن سے بڑی ایک بہن تھیں۔ فیروز خان کی ابتدائی تعلیم انگلش میڈیم سے ہوئی، لیکن پڑھائی لکھائی میں انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ شروع ہی سے اُن کے والد کی خواہش تھی کہ اُن کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بیرسٹر بنے مگر فیروز خان کی عمر محض ۱۴؍ برس تھی کہ اُن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح وہ اپنے خواب اپنی آنکھوں میں ہی لئے اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔
فیروز خان کو بچپن ہی سے دو چیزوں کا بے حد شوق تھا۔ ایک تو اسنوکر کھیلنا اور دوسرے غیرملکی فلمیں دیکھنا۔ انگلش میڈیم اسکول میں پڑھائی کرنے کی وجہ سے وہ ہندی فلمیں بہت کم دیکھتے تھے مگر ۱۹۴۳ء میں ریلیز ہونے والی اشوک کمار کی فلم ’قسمت‘ اُنہیں اتنی پسند آئی کہ اِس فلم کو انہوں نے ۱۵؍ سےزائدبار دیکھا۔ اس فلم میں اشوک کمار کی اداکاری سے متاثر ہوکر بچپن ہی میں ان کے دل میں فلموں میں اداکاری کرنے کی خواہش پیدا ہوگئی تھی۔ والد کے انتقال کے بعد وہ بالکل آزاد پنچھی بن گئے۔ اُن کی والدہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں، لہٰذا صحیح اور غلط کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ بہت سے فیصلے فیروز خان ہی پر چھوڑ دیتی تھیں، جس کے نتیجے میں وہ اپنی مرضی کے مالک ہو گئے تھے۔ ممبئی میں جدوجہد کے زمانے میں وہ بلیئرڈس کھیل کر کچھ پیسے کمانے کے چکر میں جوا بھی کھیلنے لگے تھے۔ اس کی وجہ سے انہیں کافی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
فیروز خان فلم انڈسٹری میں کریئر بنانے کیلئے ممبئی تو آگئے لیکن اُن کے کریئر کی شروعات بطور ہیرو نہیں ہو پائی۔ شروع میں انہیں چھوٹے چھوٹے کرداروں پر ہی اکتفا کرنا پڑا تھا۔ فلمسازوں کے دفتروں کے چکر لگاکر کام مانگنا پڑتا تھا، تب کہیں جاکر کوئی چھوٹا موٹا کردار مل پاتا تھا۔ اِسی لئے شروع میں ۶؍ ماہ ممبئی میں اور ۶؍ماہ بنگلور میں گزارتے تھے۔
۱۹۶۰ء میں وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ بنگلور سے ہجرت کرکے ممبئی گئے اور مرین ڈرائیو میں ایک گیسٹ ہائوس میں کرائے پر رہنے لگے۔ اسی سال ان کی فلم ’دیدی‘ ریلیز ہوئی جسمیں انہیں ایک بڑا رول کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم کے ہدایتکار کے نارائن کالے تھے جبکہ فلم کے دیگر اداکاروں میں سنیل دت، شوبھا کھوٹے، للتا پوار اور ڈیزی ایرانی وغیرہ تھے۔ ۱۹۶۲ء میں انہوں نے سمی گریوال کیساتھ ایک انگریزی فلم ’ٹارزن گوز ٹو انڈیا‘ میں بھی اداکاری کی۔
انہی دنوں فیروز خان نے راج کپور اور اشوک کمار کی فلم ’اونچے لوگ‘ میں بھی ایک چھوٹا سا رول کیا تھا۔ فنی مجمدار کی ہدایت میں بننے والی یہ فلم ۱۹۶۵ء میں سلور اسکرین پر پیش کی گئی تھی۔ ’اونچے لوگ‘ کے گیتوں کومجروح سلطانپوری نے تحریر کیا تھا اور چندرگپت نےموسیقی دی تھی۔ فیروز خان اپنےبھائی سنجے خان کے ساتھ فلم ’اُپاسنا (۱۹۷۱ء)، میلہ (۱۹۷۱ء) اورناگن‘ (۱۹۷۶ء) میں ایک ساتھ دکھائی دیئے۔
کہا جاتا ہے کہ ہدایت کار پرکاش مہرہ نے اپنی فلم ’ہیرا پھیری‘ میں فیروز خان کو سُپراسٹار امیتابھ بچن کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا تھا مگر فیروز خان نے صرف اس وجہ سے اُس میں اداکاری سے انکار کر دیا تھا کہ اس فلم میں اُنہیں اتوار کے دن بھی کام کرنا تھا اور اُنہیں اتوار کے دن کام کرنا پسند نہیں تھا۔ ان کے فلم انڈسٹری سے وابستہ ہونے کے بعد ان کے دوسرے بھائی بھی رفتہ رفتہ فلموں سے جڑتے گئے۔ اُن کے بھائیوں میں سنجے خان، شاہ رُخ علی خان، اکبر خان اور سمیر خان ہیں۔ اُن کی دو بہنیں خورشید خان اور دلشاد بیگم شیخ ہیں۔ فیروز خان کے بھائی اکبر خان اور سنجے جہاں اداکار رہے، وہیں سمیر خان نے فلمسازی کو پیشے کے طور پر اپنایا۔
۱۹۶۰ء میں ایک پارٹی میں فیروز خان کی دوستی سندری نام کی ایک لڑکی سے ہوئی جس سے ۵؍ سال تک اُن کا معاشقہ چلا، بعد میں ۱۹۶۵ء میں انہوں نے شادی کر لی۔ اس سے اُن کے دو بچے، ایک بیٹی لیلیٰ خان اور بیٹا فردین خان ہوئے مگر ۱۹۸۵ء میں سندری کا فیروز خان سے طلاق ہو گیا۔ فیروز خان کی بھتیجی اور سنجے خان کی بیٹی سوزین خان کی شادی اداکار رِتیک روشن سے ہوئی جو اداکار راکیش روشن کے بیٹے ہیں مگر یہ شادی زیادہ دنوں تک چل نہیں پائی۔
فلموں میں فیروز خان کہیں خوبصورت ہیرو کے رول میں تھے تو کہیں خونخوار ولین کے رول میں، دونوں ہی طرح کے کرداروں میں وہ اپنی اداکاری سے جان پھونک دیتے تھے۔ اُن کی یادگار فلموں میں ’’اونچے لوگ(۱۹۶۵ء)، تیسرا کون(۱۹۶۵ء)، آرزو(۱۹۶۵ء)، میں وہی ہوں (۱۹۶۶ء)، آگ(۱۹۶۷ء)، پیاسی شام(۱۹۶۹ء)، سفر (۱۹۷۰ء)، اُپاسنا (۱۹۷۱ء)، میلہ(۱۹۷۱ء)، اپرادھ (۱۹۷۲ء)، کھوٹے سکے(۱۹۷۴ء)، کالا سونا(۱۹۷۵ء)، لہو پُکارے گا (۱۹۸۰ء) اورخون اور پانی(۱۹۸۱ء)‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اداکاری کے ساتھ ہی انہوں نے کئی فلموں کی فلمسازی اور ہدایتکاری بھی کی اور کامیاب رہے۔ بطور ہدایت کار اُن کی پہلی فلم ’اپرادھ‘ تھی جو ۱۹۷۲ء میں پردۂ سیمیں پر پیش کی گئی۔ اخترالایمان کی کہانی پر بنی اس فلم میں فیروز خان کے علاوہ دیگر ستاروں میں ممتاز، پریم چوپڑا اور ہیلن نے اپنی اداکاری سے فلم شائقین کو متاثر کیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے فلم ’دھرماتما (۱۹۷۵ء)، قربانی (۱۹۸۰ء)، جانباز (۱۹۸۶ء)، دیاوان (۱۹۸۸ء)، یلغار (۱۹۹۲ء)، پریم اگن (۱۹۹۸ء) اورجانشین‘ (۲۰۰۳ء) کی بھی ہدایت دی۔ بطور فلمساز و ہدایتکار ۱۹۷۶ء میں ریلیز ہونے والی فیروز خان کی فلم ’دھرماتما‘ بالی ووڈ کی پہلی ایسی فلم تھی جس کی شوٹنگ افغانستان میں ہوئی تھی۔ یہ فلم ہالی ووڈ کی مشہور فلم ’گاڈ فادر‘ سے متاثر ہوکر بنائی گئی تھی۔
۱۹۸۰ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’قربانی‘ کے وہ فلمساز و ہدایت کار تھے، جو اُن کے فلمی کریئر کی سب سے کامیاب فلم رہی۔ اس فلم کے ایک گیت ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے‘ کو گانے کی ذمہ داری اُنہوں نے پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن کو دی تھی، جو فلم ریلیز ہونے کے بعد بہت مقبول ہوا تھا۔ بعد میں فیروز خان اپنی اس فلم ’قربانی‘ کا ’ری میک‘ بھی بنانا چاہتے تھے جس میں وہ سیف علی خان اور اپنے بیٹے فردین خان کو کاسٹ کرنا چاہتے تھے مگر خراب صحت کی وجہ سے اُن کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔
فلم ’آدمی اور انسان‘ (۱۹۶۹ء) میں بہترین اداکاری کیلئے انہیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ۲۰۰۱ء میں اُنہیں فلم فیئر کا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا گیا۔ تقریباً ۵۰؍ برس کے اپنے فلمی سفر میں فیروز خان نے ۲۰۰۷ء میں اپنی آخری فلم ’دی ویلکم‘‘ میں اپنی خاص اداکاری کے ذریعہ فلم شائقین کو محظوظ کیا۔ انیس بزمی کی ہدایت میں بننے والی اس فلم کے دیگر ستاروں میں نانا پاٹیکر، اکشے کمار، انل کپور، ملیکا شیراوت اورکترینا کیف وغیرہ نے اہم کردار ادا کئے تھے۔
فیروز خان نے ۱۹۹۸ء میں فلم ’پریم اگن‘ کے ذریعہ اپنے بیٹے فردین خان کو اداکار کے طور پر فلمی دُنیا میں متعارف کرایا۔ اس فلم کے ہدایتکار و فلمساز خود فیروز خان تھے اور دیگر ستاروں میں میگھنا کوٹھاری اور انوپم کھیر کے نام اہم ہیں، مگر کچھ اچھی فلمیں کرنے کے باوجود فردین کو وہ کامیابی نہ مل سکی، جو فیروز خان کے حصے میں آئی تھی۔
فیروز خان کو بالی ووڈ کے سب سے زیادہ اسٹائلش ہیرو کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ شاہانہ زندگی بسر کی۔ فیروز خان اور اداکار وِنود کھنہ کی دوستی بہت مشہور تھی۔ اُن کی دوستی کا یہ رشتہ فیروز خان کی آخری سانس تک قائم رہا۔ یہ عجیب اِتفاق ہے کہ دونوں کی موت کی تاریخ ۲۷؍ اپریل ہے۔ فیروز خان کو جانوروں سے بہت محبت تھی، اسی لئے وہ اپنی ہر فلم میں کوئی نہ کوئی جانور ضرور شامل کرتے تھے۔
طبیعت خراب رہنے کی وجہ سے وہ آرام کرنے کیلئے اپنے آخری دنوں میں بنگلور لوٹ آئے تھے۔ لمبے عرصے تک پھیپڑوں کے کینسر جیسے موذی مرض سے جدوجہد کرتے ہوئے آخرکار ۲۷؍مئی ۲۰۰۹ء کو ۶۹؍ برس کی عمر میں انہوں نے بنگلور میں اپنے فارم ہائوس پر آخری سانس لی اور اس جہانِ فانی سے رُخصت ہو گئے۔ اُنہیں بنگلور میں ہی اُن کی ماں کی قبر کے قریب ہی دفن کیا گیا۔