Inquilab Logo

کیفی اعظمی نےبچپن ہی میں اپنی والدہ سےکہہ دیاتھاکہ ایک دن بڑاشاعربن کردکھائوں گا

Updated: January 14, 2021, 8:05 AM IST | Agency | Mumbai

ہندی فلمی دنیا کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار کیفی آعظمی میںشعر و شاعری کی صلاحیت بچپن سے ہی نظر آنے لگی تھی۔کیفی اعظمی کی ولادت ۱۴؍ جنوری ۱۹۱۹ء کو اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے مجواںگاؤں میں ہوئی تھی۔ ان کا پورا نام اطہرحسین رضوی تھا۔

Kaifi Azmi .Picture :INN
کیفی اعظمی ۔ تصویر:آئی این این

ہندی فلمی دنیا کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار کیفی آعظمی میںشعر و شاعری کی صلاحیت بچپن سے ہی نظر آنے لگی تھی۔کیفی اعظمی کی ولادت ۱۴؍ جنوری ۱۹۱۹ء کو اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے مجواں گاؤں میں ہوئی تھی۔ ان کا پورا نام اطہرحسین رضوی تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے جو انہیں اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھےاور اسی مقصدسے انہوں نے کیفی کا داخلہلکھنؤکےمشہور مدرسے ’سلطان المدارس‘میں کرادیا تھا۔ کیفی نے محض ۱۱؍ برس کی عمر سے ہی شعر کہنا شروع کر دیئے تھے اور وہ اکثرمشاعروں میں شرکت کرنے لگے تھے۔لیکن بیشتر لوگ جن میں ان کے والد بھی شامل تھے یہ سوچا کرتے تھےکہ کیفی اعظمی مشاعروں میں اپنی نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی کی غزلیں پڑھتے ہیں۔
 ایک مرتبہ بیٹے کا امتحان لینے کیلئےان کے والد نےانہیں ایک مصرعہ طرح دیا اور اس پرغزل لکھنے کو کہا۔ کیفی نے اسے چیلنج کے طورپرقبول کیا اور پوری  غزل لکھ ڈالی۔ان کی یہ غزل کافی مقبول ہوئی جسے بعد میںمشہور گلوکارہ بیگم اخترنےاپنی آواز دی۔ غزل کا مطلع یوں ہے:۔
اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے
ہنسنے سے ہو سکون  نہ رونے سے کل پڑے
 کیفی اعظمی محفلوں میں بہت شوق سےنظمیں پڑھا کرتے تھے اس کے لئے انہیں کئی مرتبہ ڈانٹ بھی  کھانی پڑتی تھی جس کےبعد وہ روتے ہوئے اپنی والدہ کےپاس جاتے اور کہتے ’’اماں دیکھنا ایک دن میںبہت بڑا شاعر بن کر دکھاؤں گا۔‘‘کیفی آعظمی کبھی بھی اعلیٰ تعلیم کےخواہش مند نہیں تھے۔مدرسہ میں اپنی تعلیم کےدوران وہاں کے غیرمنظم حالات دیکھ کر انہوں نے طلبا یونین بنائی اور طالب علموں سےہڑتال پر جانے کی اپیل کی ۔ ان کی یہ ہڑتال تقریباً ڈیڑھ برس تک چلی لیکن اس ہڑتال کی وجہ سےکیفی اعظمی مدرسہ انتظامیہ کے لئے مشکل بن گئےجس کی وجہ سے ہڑتال کےخاتمہ کےبعد انہیں مدرسہ سے نکال دیا گیا۔اس ہڑتال سےکیفی اعظمی کو یہ فائدہ ہوا کہ اس وقت کےچند ترقی پسند مصنفین ان کی قیادت سے کافی  متاثرہوئےاور انہیں کیفی میںایک ابھرتا ہوا شاعر دکھائی دیا۔ان لوگوں نے انہیںحوصلہ دیا اور ہر ممکن مدد دینےکی پیشکش کی۔اس کے بعد ایک طالب علم رہنما اطہرحسین میںایک شاعرنےکیفی اعظمی کے طور پر جنم لے لیا۔۱۹۴۲ءمیںکیفی اعظمی اردو اور فارسی کی اعلی تعلیم کیلئےلکھنؤ اور الہ آباد بھیجے گئے لیکن انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت حاصل کرکےپارٹی کارکن کے طورپر کام کرنا شروع کر دیا اور پھر ’بھارت چھوڑو‘ تحریک میں شامل ہو گئے۔ اس دوران مشاعروں میں کیفی اعظمی کی شرکت جاری رہی۔ چنانچہ ۱۹۴۷ءمیںایک مشاعرے میں شرکت کیلئےوہ حیدرآباد پہنچے جہاں ان کی ملاقات شوکت سے ہوئی اور ان کی یہ ملاقات رشتہ ازدواج میں  بدل گئی۔آزادی کے بعد ان کے والد اور بھائی پاکستان چلے گئے لیکن کیفی اعظمی نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔شادی کےبعداخراجات بڑھنے کے سبب کیفی اعظمی نےایک اردو اخبارکیلئےلکھنا شروع کر دیا جہاں انہیں ۱۵۰؍ روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ان کی پہلی نظم ’سرفراز‘لکھنؤ میں شائع ہوئی۔ انہوں نے روزنامہ  اخبارکیلئےمزاحیہ اور طنزیہ شاعری شروع کی۔ اس کے بعد اپنےگھر کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے پیش نظر  کیفی اعظمی نے فلموں کیلئےنغمے لکھنے کا فیصلہ کیا۔ کیفی اعظمی نےسب سے پہلے شاہد لطیف کی فلم ’بزدل‘کیلئےدو نغمے لکھےجس کےعوض انہیں ایک ہزار روپےملے۔اس کے بعد انہوں نے۱۹۵۹ءمیںآئی فلم کاغذکےپھول کیلئے’’وقت نےکیا،کیاحسیں ستم، تم رہےنہ تم، ہم رہے نہ ہم‘‘جیسا سدا بہار نغمہ تحریر کیا۔  اس کےبعد ۱۹۶۵ءمیںفلم’حقیقت‘کے نغموں بالخصوص ’’کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو،اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو‘‘ کی کامیابی کے ساتھ  وہ  کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔کیفی اعظمی نے فلم ’گرم ہوا‘کی کہانی، ڈائیلاگ اوراسکرین پلےلکھےجس کیلئےانہیں فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔فلم’’ہیررانجھا‘کے منظوم مکالموں کے ساتھ ساتھ انہوںنےشیام بینیگل کی فلم ’منتھن‘کی  اسکرپٹ بھی لکھی۔ تقریباً۷۵؍برس کی عمر کے بعد کیفی اعظمی نے اپنےگاؤں مجواںمیں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے خوبصورت نغموں سےسامعین  کومسحورکرنےوالے عظیم شاعراور نغمہ نگار کیفی اعظمی۱۰؍مئی۲۰۰۲ءکواس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK