ایک دور تھا جب حُب الوطنی کے نغموں کیلئے کوی پردیپ کی ایک خاص پہچان بن گئی تھی، ان کے بیشتر نغمے زبان زد عام تھے، حکومت نے اس کیلئے اُنہیں اعزاز سے بھی نوازا تھا۔
EPAPER
Updated: August 10, 2025, 11:56 AM IST | Anis Amrohvi | Mumbai
ایک دور تھا جب حُب الوطنی کے نغموں کیلئے کوی پردیپ کی ایک خاص پہچان بن گئی تھی، ان کے بیشتر نغمے زبان زد عام تھے، حکومت نے اس کیلئے اُنہیں اعزاز سے بھی نوازا تھا۔
ہندوستانی فلموں میں حُب الوطنی کے نغمے فلموں کے ابتدائی زمانے ہی سے گونجنے لگے تھے کیونکہ یہاں فلموں کی ابتدا ایسے دور میں ہو ئی تھی جب آزادی کی تحریک زوروں پر تھی۔ ۱۹۰۰ء میں رابندر ناتھ ٹیگور نے پہلی بار خود اپنی ہی آواز میں گرامو فون پر’ وندے ماترم‘کا نغمہ ریکارڈ کرایا تھا۔ ۱۹۱۳ء میں جب دادا صاحب پھالکے نے ملک کی پہلی متحرک خاموش فلم ’راجہ ہریش چندر‘ کی نمائش کی تو اُس وقت عوام کے دل ودماغ میں حُب الوطنی کے جذبات پروان چڑھ رہے تھے۔ ملک کے نوجوان انگریزوں کو یہاں سے بھگا دینے کا ارادہ کر چکے تھے اور گاندھی جی کی قیادت میں مکمل آزادی کی قرارداد منظور ہو چکی تھی۔ یہی وہ دور تھا جب فلم کی تکنیک بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن تھی۔ اسی دوران ۱۹۳۱ء میں اُس وقت ہندوستانی فلموں کو بولنا بھی آگیا تھا جب فلمساز وہدایتکاراردیشر ایرانی نے فلم’عالم آراء‘کی نمائش کی۔ اب ہندوستانیوں کو بھی فلموں کے ذریعہ اپنے خیالات کو پُراثر انداز میں عوام تک پہنچا نے کا فن آگیاتھا۔
اس سے پہلے ہی ایک ستم یہ ہوا تھا کہ برٹش حکومت نے ۱۹۲۲ء میں ہی پریس سنسرشپ قائم کر دی تھی جس کے دائرہ کار میں سینما بھی تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ فلمساز اور ہدایتکار جو فلموں کے ذریعہ حُب الوطنی کے جذبات لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے، پابند ہو گئے۔ اس کے باوجودکچھ لوگوں نے ہمت کرکےایسی فلمیں بنائیں جن میں تحریک آزادی کو ایک خاص انداز میں پیش کیا اور عوام میں قومیت کا جذبہ پروان چڑھانے کی کوشش کی۔
یوں تو ہماری فلموں نے ہندوستانی عوام کو حُب الوطنی کے جذبات میں ڈوبے بے شمار گیت دیئے ہیں مگر کچھ گیت ایسے ہیں جو لازوال بن گئے ہیں۔ ۱۹۶۱ء میں ریلیز ہونے والی ڈائریکٹر ہیمن گپتا کی فلم ’کابلی والا‘ کا منّا ڈے کی آواز میں گایا نغمہ... ’اے میرے پیارے وطن‘ اور ۱۹۵۴ء میں بنی فلمساز ایس مکھرجی کی فلم ’جاگرتی‘ میں حُب الوطنی کے موضوع پر کوی پردیپ کے لکھے اور موسیقار ہیمنت کمار کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر تین اہم نغمے ’ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘....’آئو بچو، تمہیں دکھائیں جھانکی ہندوستان کی‘ اور ’دے دی ہمیں آزادی بنا کھڑگ بنا ڈھال‘ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ اسی طرح ہدایتکار کیدار کپور، فلمساز گلشن بہل اور اداکار پرتھوی راج کپور کی ایک تاریخی فلم ’سکندرِ اعظم‘ (۱۹۶۵ء) میں حُب الوطنی پر مبنی ایک گیت محمد رفیع کی آواز میں بے حد مقبول ہوا تھا ’جہاں ڈال ڈال پر سونے کی چڑیاں کرتی ہیں بسیرا، وہ بھارت دیش ہے میرا‘ اور بھرت ویاس کا لکھا گیت ’اے بھارت ماتا کے بیٹو سنو‘ بھی حُب الوطنی کے ہی گیت تھے۔
حب الوطنی کے فلمی نغموں کیلئے کوی پردیپ کی ایک خاص پہچان بنی ہوئی تھی اور اس کیلئے حکومت ہند نے اُنہیں اعزاز سے بھی نوازا تھا۔ ایس مکھرجی کی فلم ’بندھن‘ سے انہوں نے ایک نیا مقام حاصل کیا تھا، جب انہوں نے اس فلم کیلئے ایک گانا ’چل چل رے نوجوان‘ لکھا تو اس کی مقبولیت کا اندازہ خود انہیں بھی نہیں تھا۔ کوی پردیپ کا ایک نغمہ ’اے میرے وطن کے لوگو، ذرا آنکھ میں بھر لو پانی‘ جو حُب الوطنی کے حوالے سے لازوال بن گیا ہے، گلوکارہ آنجہانی لتا منگیشکر نے گایا تھا۔ حالانکہ یہ نغمہ کسی فلم میں استعمال نہیں ہوا ہے مگر عام طور پر یہی خیال کیا جا تا ہے کہ یہ فلمی گیت ہی ہے۔ ۱۹۶۳ء میں پہلی بار جب پنڈت نہرو نے لتا کی آواز میں یہ گیت سنا تو اُن کی آنکھیں چھلک آئی تھیں۔ اس گانے کی دھن سی رام چندر نے بنائی تھی۔ جب کبھی لتا منگیشکر جب کسی پروگرام میں اس گیت کو گاتی تھیں تو سماں بندھ جاتا تھا۔
۱۹۴۳ء میں بامبے ٹاکیز کی فلم ’قسمت‘ ریلیز ہوئی تھی جس کی موسیقی انل بسواس نے ترتیب دی تھی۔ انہوں نے کوی پردیپ سے حُب الوطنی پرمبنی ایک گیت لکھوایا تھا ’آج ہمالہ کی چوٹی سے پھر ہم نے للکارا ہے، دُور ہٹو اے دُنیا والو! ہندوستان ہمارا ہے‘۔ اس گانے کی دھوم مچ گئی اور تحریک آزادی کے اُس دَور میں یہ گانا عوام میں بے حد مقبول ہوا۔ اسی گانے پر بنگال جرنلسٹ اسو سی ایشن کی طرف سے انل بسواس کو بہترین موسیقار کا ایوارڈ دیا گیا۔
۱۹۶۱ء میں راج کپور نے فلم ’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ بنائی تھی، حالانکہ ڈاکوئوں کے موضوع پر یہ ایک بہترین فلم تھی مگر اس فلم میں شنکر جے کشن کی موسیقی میں مکیش کا گایا ہوا نغمہ ’ہونٹوں پہ سچائی رہتی ہے، جہاں دل میں صفائی رہتی ہے‘ مکمل طور پر حُب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے اور نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ممالک بھی اِس گیت کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔
حُب الوطنی کے جذبے سے سرشار جو فلمی نغمے آج بھی ترو تازہ ہیں اور عوام کے دِلوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ اُن میں ایک بے حد مقبول گانا محمد رفیع کی آواز میں فلم ’پھول بنے انگارے‘ کا ہے ’وطن پر جو فدا ہوگا، امر وہ نوجواں ہو گا‘۔ ۱۹۶۳ء میں ریلیز ہوئی ہدایتکار سورج پرکاش اور فلمساز کیول سوری کی اس فلم کا نغمہ آج بھی ہر اُس موقع پر توجہ سے سنا جاتا ہے جب ملک کی سا لمیت اور اتحاد کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
حُب الوطنی پر مبنی فلمی گیتوں کی تاریخ میں جو گیت ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا وہ فلم ’حقیقت‘کا محمد رفیع کی آواز میں گایا گیت ’کر چلے ہم فدا جان وتن ساتھیو، اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو‘ ہے۔ فلمساز وہدایت کار چیتن آنند نے یہ فلم ۱۹۶۲ء میں ، ملک پر چین کے حملے سے متاثر ہو کر بنائی تھی۔ مدن موہن کی موسیقی میں اس گانے کو کیفی اعظمی نے لکھا تھا۔ یہ چھ منٹ لمبا گانا فلم کے کلائمکس میں ہوتا ہے اور اس گانے کو پردے پر کوئی نہیں گاتا ہے۔ بیک گرائونڈ میں یہ گانا بجتا ہے اور پردے پر دکھائی دیتے ہیں جنگی مناظر، بہادر جوانوں کی لاشیں، جو وطن کی حفاظت کرتے ہوئے ہمیشہ کیلئے مادر وطن کی گود میں سو گئے تھے۔ یہ فلم کے آخری مناظر تھے۔ کہانی ختم ہو چکی تھی اور پردے پر کوئی واقعہ بھی نہیں ہو رہا تھا مگر جب فلم میں یہ گانا پردے پر ہوتا ہے تو ناظرین دم بخود بیٹھے رہتے ہیں اور دل کی تیز دھڑکنوں سے وطن پر شہید ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہ کمال تھا کیفیؔ کے گیت، مدن موہن کی موسیقی اور محمد رفیع کی آواز کا۔ فلم ’حقیقت‘ یکم جنوری ۱۹۶۵ء کو ریلیز ہوئی تھی مگر آج تک اس گانے کی گونج پورے ملک میں سنائی دیتی ہے۔
۱۹۶۵ء میں ہند پاک جنگ کے بعد فلم والوں کیلئے حُب الوطنی ایک کامیاب فارمولہ بن گیا تھا۔ ایس رام شرما کی ہدایت میں کیول پی کشیپ کی فلم ’شہید‘ باکس آفس پر بہت کامیاب رہی۔ اس فلم میں منوج کمار نے شہید بھگت سنگھ کا کردار ادا کیا تھا، اس فلم کا نغمہ ’میرا رنگ دے بسنتی چولا‘ بے حد مقبول ہوا تھا۔ اسی فلم کا دُوسرا نغمہ ’اے وطن اے وطن تجھ کو میری قسم‘ بھی پسند کیا گیا تھا۔ منوج کمار نے اس وقت سوچا بھی نہیں تھا کہ فلم’شہید‘ اُن کے فلمی کریئر کو یکسر بدل کے رکھ دے گی۔ اس فلم سے منوج کمار کو محب وطن کی جو امیج ملی تھی اُسی کو آگے بڑھانے کیلئے اُنہوں نے فلم ’اُپکار‘ (۱۹۶۷ء) کی پلاننگ کی اور اس طرح وہ اداکار کے ساتھ ہی فلمساز وہدایتکار بھی بن گئے۔ اس فلم میں گلشن باورا کا لکھا گیت ’میرے دیش کی دھرتی سونا اُگلے، اُگلے ہیرے موتی‘ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ مہندر کپور کی آواز میں ریکارڈ اس گیت نے دیش کے کونے کونے تک حُب الوطنی کے جذبے کو ہندوستانی عوام کے دلوں میں اچھی طرح بسا دیا اور فلمساز وہدایت کار کے طور پر منوج کمار کی اس پہلی ہی فلم نے ان کیلئے سونا اُگل دیا۔ اس کے بعد حُب الوطنی کے جذبے کو کیش کرنے کیلئے اُنہوں نے کئی فلمیں بنائیں۔ ۱۹۷۰ء میں ریلیز ہوئی فلم ’پورب اور پچھم‘ کا مکیش کی آواز میں گیت ’ہے پریت جہاں کی رِیت سدا، میں گیت وہاں کے گاتا ہوں ‘، اور ’دلہن چلی ہاں بہن چلی سات رنگ کی چولی‘ جیسے گیت کافی مقبول ہوئے۔
نعت، بھجن، قوالی اور پاپ گانوں میں بھی محمد رفیع اپنا منفرد انداز رکھتے تھے مگر انہوں نے حُب الوطنی کے گیت جس جذبے سے گائے ہیں، ویسے کوئی گا نہیں سکا۔ ان کچھ گیت امر ہیں۔
’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہو‘ (فلم : شہید)
’ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘ (فلم : جاگرتی)
’اپنی آزادی کو ہم ہر گز مٹا سکتے نہیں ‘ (فلم : لیڈر)
’کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو‘ (فلم : حقیقت)
اسی دوران محبوب خان نے ’مدر انڈیا‘ (۱۹۵۷ء) کے بعد فلم ’سن آف انڈیا‘ (۱۹۶۲ء) بنائی جس میں نوشاد علی کی موسیقی میں شانتی ماتھر کا گایا ہوا گیت ’ننھا منا راہی ہوں، دیش کا سپاہی ہوں، بولو میرے سنگ جے ہند جے ہند‘ بہت مقبول ہوا تھا۔ اسے شکیل بدایونی نے لکھا تھا۔ ۱۹۶۱ء میں دلیپ کمار نے ایک فلم بنائی تھی ’گنگا جمنا‘، جو بہت مقبول ہوئی تھی۔ اس فلم میں دلیپ کمار کا چھوٹا بھائی جو بہت دیش بھکت رہتا ہے، شکیل بدایونی کالکھا اور نوشاد کی موسیقی سے سجا ہوا ایک گیت گاتا ہے ’انصاف کی ڈگر پہ، بچو دکھائو چل کے، یہ دیش ہے تمہارا، نیتا تم ہی ہو کل کے‘۔ ہیمنت کمار کی آواز میں اِس گانے کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔
سبھاش گھئی کی ہدایت میں دلیپ کمار کی فلم ’کرما‘ (۱۹۸۶ء) کا نغمہ ’دِل دیا ہے جاں بھی دیں گے اے وطن تیرے لئے‘ اور سبھاش گھئی کی ہی ۱۹۹۷ء میں ریلیز ہوئی فلم ’پردیس‘ کا نغمہ ’یہ میرا انڈیا، آئی لَو مائی انڈیا‘ نے بھی کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔ حالیہ کچھ برسوں میں شہید بھگت سنگھ کی زندگی پر فوکس کرکے چار پانچ فلمیں بنائی گئیں مگر ان فلموں میں کوئی ایک بھی نغمہ ایسا نہیں نکل سکا جس کو سن کر عوام کے دل حُب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو سکیں۔ وقت کےساتھ حُب الوطنی کے جذبوں کو جگانے والے نغموں کی کمی کو بُری طرح محسوس کیا جارہا ہے۔ یہ دراصل ہمارے فلمی نغموں کا گرتا ہوا معیارہے۔ اس طرف فلمسازوں اور نغمہ نگاروں کے ساتھ ہی سامعین اور ناظرین کوبھی توجہ دینی چاہئے۔