گیتا دت ایک منفرد آواز لےکرپیدا ہوئی تھیں ۔ ان کی گائیکی میں جوسوز تھا وہ انہیں پرختم ہو گیا۔ شایدیہی وجہ ہے کہ۴؍ دہائیاں گزرجانے کے باوجود گیتا دت کی آواز مدھم نہیں ہوئی ہے۔
EPAPER
Updated: July 20, 2025, 10:52 AM IST | Mumbai
گیتا دت ایک منفرد آواز لےکرپیدا ہوئی تھیں ۔ ان کی گائیکی میں جوسوز تھا وہ انہیں پرختم ہو گیا۔ شایدیہی وجہ ہے کہ۴؍ دہائیاں گزرجانے کے باوجود گیتا دت کی آواز مدھم نہیں ہوئی ہے۔
گیتا دت ایک منفرد آواز لےکرپیدا ہوئی تھیں ۔ ان کی گائیکی میں جوسوز تھا وہ انہیں پرختم ہو گیا۔ شایدیہی وجہ ہے کہ۴؍ دہائیاں گزرجانے کے باوجود گیتا دت کی آواز مدھم نہیں ہوئی ہے۔ ان کے بول آج بھی دل میں اتر جاتے ہیں اور سننےوالا محو ہوکر رہ جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ گلو کارہ کا درد اپنے اندر بھی محسوس کرتا ہے۔ گیتا دت کا پیدائشی نام گیتا گھوش رائے چودھری تھا اور وہ ۲۳؍نومبر ۱۹۳۰ءکوایک دولت مند زمیندارخاندان میں پیدا ہوئی تھیں جس کا تعلق مشرقی بنگال کےفرید پور سے تھا جو ابھی بنگلہ دیش ہے۔ لیکن ان کے والدین ۱۹۴۲ءمیں ممبئی آگئے تھے اور اس وقت گیتاکی عمرصرف ۱۲؍سال تھی۔ چونکہ گانا بجانا بنگلہ تہذیب و ثقافت کا ایک حصہ ہے۔ اس لئے انہیں بھی بچپن سے ہی اس کی تعلیم دی گئی۔ انہوں نے اپنی ابتدائی آواز۱۹۴۶ءمیں ایک فلم’بھگت پرہلاد‘ میں دی تھی۔ اس کے بعد پھر وہ کچھ چھوٹی چھوٹی فلموں میں بھجن گاتی رہیں۔ لیکن ان کی شناخت ۱۹۵۵ءمیں ’ دیوداس‘ اور۱۹۵۷ءمیں فلم ’پیاسا ‘سے ہوئی۔ انہوں نے فلم ’پیاسا‘کے جو گانے اپنی پر سوز آوازمیں گائےانہیں کوئی آج بھی فراموش نہیں کر پاتا ہے۔ ان کے گائے ہوئے گانے ’ آج سجن موہے انگ لگا لو‘ یا’ہم آپ کی آنکھوں ‘ میں بہت ہی مقبول ہوئے۔ دیو داس کا گانا ’ آن ملو آن ملو ‘ ہر شخص کی زبان پر تھا یا پھر اس سےقبل کا گانا ’ میرا سندر سپنا بیت گیا ‘ فلم ’ دوبھائی‘ اور تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے ‘ مقبول عام تھے۔ دراصل گیتا دت نے ایک منفرد آواز پائی تھی۔ اس لئے انہوں نےجو بھی گانا گایا اسے ایک نئی طرح دے دی۔ ’ صاحب بی بی اور غلام ‘ میں ان کا گایا ہوا گانا ’ نہ جاؤ سئیاں چھڑا کے بیاں ، قسم تمہاری میں رو پڑوں گی، سامع کی آنکھوں میں آنسو لا دیتا ہےیا پھر ’ شرط ‘ فلم کا گانا ’ نہ یہ چاند ہوگا نہ تارے رہیں گے ‘ اور صاحب بی بی غلام ‘ کا گانا ’ پیا ایسو جیا میں سمائےگئیورے ‘ یہ سب ناقابل فراموش گانے ہیں اور یہ گانےجب بھی بجائے جاتے ہیں تو گیتا دت کی کھنکتی ہوئی پر سوز آواز سامع کے ذہن و دل میں اتر جاتی ہے۔ حالانکہ گیتا دت کی ذاتی زندگی بہت اچھی نہیں گزری اس لئے محض ۴۱؍برس کی کم عمر میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی شادی مشہور ادا کار گرو دت سے ۲۳؍مئی ۱۹۵۳ءکوہوئی تھی۔ ۱۹۶۴ء میں ’گرو دت‘ کی بے حد شراب نوشی کے سبب موت واقع ہو گئی تھی بلکہ کہاتو یہ جاتا ہے کہ انہوں نے ذہنی تناؤ کے سبب خودکشی کرلی تھی۔ کیونکہ اس سے قبل بھی وہ دوبار اس طرح کی ناکام کوششیں کر چکے تھے اور ان پر نروس بریک ڈاؤن کا حملہ ہوتا تھا۔ کیونکہ ان کے معاشی حالات کافی خراب ہو گئے تھے۔ ان کی موت کے بعدگیتا دت ۸؍برسوں تک زندہ رہیں ۔ لیکن انہیں بھی حالات کی دشواریوں کاسامنا کرنا پڑا اور ۲۰؍ جولائی ۱۹۷۲ءکو لیور سورائیسس کے سبب ان کی ممبئی میں موت واقع ہو گئی۔ گیتا دت نے کئی فلموں میں اداکاری بھی کی تھی۔ لیکن انہیں ان کی ریشمی غمناک آوازکی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے اور اس آواز کے سہارے انہوں نےسامعین کیلئےبہت سے ناقابل فراموش گیت تخلیق کئے۔
تدبیرسےبگڑی ہوئی تقدیر بنا لے، گرودت کو ہندوستانی فلمی صنعت کی تاریخ میں اساطیری حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے یادگار فلمیں بنائیں۔ وہ بیک وقت اداکار، فلمساز اور ہدایت کار تھے۔ ان کی مشہور ترین فلموں میں پیاسا، چودھویں کا چاند، کاغذ کے پھول اورمسٹر اینڈ مسز۵۵؍شامل ہیں۔