• Sun, 12 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

شیلندر نے قلم کی آزادی کیلئے راج کپور کی پیشکش ٹھکرا دی

Updated: October 12, 2025, 11:45 AM IST | Anis Amrohvi | Mumbai

بعد میں راج کپور ہی کی فلم ’برسات‘ سے اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا، اس کے بعد دونوں کاایسا ساتھ ہوا جو برسوں تک جاری رہا، فلم مبصرین کہتے ہیں کہ راج کپور کی فلمی شہرت میں شیلندر کے نغموں کا بھی بڑا حصّہ رہا ہے، اُن کے گیتوں کو نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی سراہا گیا۔

Lyricist Shailendra in a memorable picture with famous director Raj Kapoor. Photo: INN
مشہور ہدایت کارراج کپور کے ساتھ ایک یادگار تصویر میں نغمہ نگار شیلندر۔ تصویر: آئی این این

ہندوستانی فلمی گیتوں یا نغمہ نگاروں کا جب بھی ذکر آئے گا تو آنجہانی شیلندر کا نام ضرور یاد کیا جائے گا۔ آج وہ ہمارے درمیان جسمانی طور پر نہیں ہیں مگر اُن کے بے مثال نغموں کا اَنمول خزانہ اُن کی یادیں ہمیشہ ہمارے ذہن ودل میں بنائے رکھتا ہے۔ اِس انمول خزانے کو پرکھنے پر آج ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے تجربہ کار قلم سے نکلے ہوئے یہ خوبصورت نغمے فلم کی اپنی ضرورتوں کو تو پورا کرتے ہی تھے۔ اُن میں شیلندر کی شخصیت کی جھلک بھی نمایاں طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔ 
فلموں میں نغمہ نگاری سے قبل شیلندر ریلوے میں ایک معمولی سی ملازمت کرتے تھے۔ اُن کا جنم ۳۰؍اگست ۱۹۲۳ء کو راولپنڈی میں ہوا تھا، جو اَب پاکستان میں ہے۔ اُن کے والد فوج میں ملازم تھے، جس کی وجہ سے ہمیشہ اُن کا تبادلہ ایک جگہ سے دُوسری جگہ ہوتا رہتا تھا۔ اُس زمانے میں فوجی ملازمین کی نہ تو بہت زیادہ تنخواہیں ہوتی تھیں، نہ ہی زندگی کی دُوسری آسائشیں فراوانی کے ساتھ اُن کو میسر تھیں۔ 
ایسے میں شیلندر نے غربت اور تنگ دَستی سے مقابلہ کرتے ہوئےیوپی کے متھرا شہر سے اِنٹر تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اُنہوں نے انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا اور اوّل درجے سے پاس کیا۔ بعدازاں بمبئی (ماٹونگا) میں ریلوے کے پٹیل ورکشاپ میں ملازم ہو گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ہندی میں کویتائیں بھی لکھتے رہتے تھے۔ 
اُس زمانے میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک عروج پر تھی اور شیلندر ایک سچے محب وطن تھے، دیش بھکت تھے، لہٰذا اُن کی نظموں اور گیتوں میں حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ اِنقلاب کے ذریعہ آزادی کا حق چھیننے میں یقین رکھتے تھے۔ یہ آزادی سے کچھ ہی دِن پہلے کی بات ہے۔ شیلندر اپنے لکھے گیت جلسوں میں خود گایا کرتے تھے۔ اُن کی کچھ کویتائیں خاص طور پر مشہور تھیں، جیسے:
تو زندہ ہے تو زندگی کی جیت پر یقین کر
اگر کہیں سورگ ہے تو اُتار لا زمین پر
اسی طرح تقسیم ہند پر لکھی گئی اُن کی نظم ’’جلتا ہے پنجاب‘‘ خاص طور پر مقبول تھیں۔ الفاظ کا استعمال اور اُن کی پیشکش پر اُن کی اچھی گرفت تھی، اِسلئے جب کسی جلسے میں شیلندر اپنی نظمیں سناتے تو ایک سماں سا بندھ جاتا تھا۔ 
۱۹۴۷ء میں بمبئی کے مہاجرین کی امداد کیلئے ایک جلوس نکالا گیا، جو اپنے اختتام پر ایک جلسے میں تبدیل ہو گیا۔ اُس جلسے میں شیلندر نے اپنی نظم ’’جلتا ہے پنجاب‘‘ پڑھی۔ مشہور اداکار، ہدایت کار وفلمساز راج کپور بھی اُس جلسے میں شریک تھے۔ راج کپور اُن کی اس نظم سے، اس کو پڑھنے کے انداز سے اور شیلندر کی نظم نگاری کی صلاحیتوں سے بے حد متاثر ہوئے۔ اُس جلسے میں شیلندر نے اپنی ایک اور نظم ’’موری بگیا میں لگائے گئے آگ گورا پردیسی‘‘ اِتنے جذباتی انداز میں سنائی کہ لوگ واہ واہ کر اُٹھے اور اُن واہ واہ کرنے والوں میں راج کپور بھی شامل تھے لہٰذا جلسے کے اختتام پر راج کپور نے فوری طور پر شیلندر کے اُس گیت کو اپنی فلم میں استعمال کرنے کیلئے خریدنا چاہا مگر شیلندر نے اِنکار کرتے ہوئے راج کپور سے کہا ’’معاف کیجئے گا۔ میں اپنی یہ کویتا فلم کیلئے نہیں دے سکتا۔ فلم کا بھلا کویتا اور شاعری سے کیا تعلق؟ میں نے تو فلموں میں صرف تک بندی ہی سنی ہے۔ سنجیدہ اور گہری شاعری تو میں نے کبھی فلموں میں نہیں سنی‘‘
راج کپور نے اُنہیں بتایا کہ وہ جس قسم کی فلم بنا رہے ہیں، اُس میں گیتوں کی شکل میں زندگی کے گہرے فلسفے کی بات کہی گئی ہے مگر راج کپور کے سمجھانے پر بھی شیلندر نہیں مانے اور ان کی زندگی کی گاڑی ریلوے کے پٹیل ورک شاپ میں ایک ویلڈر کی حیثیت سے چلتی رہی۔ 
اُس زمانے میں اپنی ملازمت کے علاوہ شیلندر کا محبوب مشغلہ صرف اور صرف شاعری تھا۔ شاعری ہی اُنہیں سکون پہنچا رہی تھی۔ اُنہیں اور چاہئے بھی کیا تھا؟ اُس وقت ماحول بھی ایسا ہی تھا کہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار شیلندر ایک سے بڑھ کر ایک اُمنگ اور جوش اور زندگی سے بھرپور لکھتے جا رہے تھے۔ اور آخرکار ۱۹۴۷ء میں جب شیلندر کا خواب پورا ہوا، ملک آزاد ہوا اور آزادی کے بعد اُنہیں گھر بسانے کی فکر ہوئی تو شیلندر نے شادی کر لی۔ 
شادی کے بعد اُن پر نہ صرف گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھا بلکہ اُنہوں نے مالی پریشانیوں کو بھی محسوس کرنا شروع کر دیا۔ اُن کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ راج کپور سے ملاقات کر کے فلموں کیلئے نغمہ نگاری شروع کر دیں مگر شیلندر کو ڈر تھا کہ پتہ نہیں فلموں کیلئے گیت لکھنے میں اُن کے قلم کو کس قدر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ 
اُن دنوں راج کپور فلم ’برسات‘ (۱۹۴۹ء) بنا رہے تھے۔ اِس فلم کیلئے اُنہوں نے اپنا ایک خاص گروپ بنایا تھا، جس میں موسیقار شنکر جے کشن تھے، حسرتؔ جے پوری تھے اور گلوکار مکیش تھے۔ اِسی طرح دُوسرے شعبوں میں بھی اُن کے اپنے پسندیدہ لوگ تھے۔ شیلندر کے آنے سے راج کپور کو خوشی ہوئی اور اُنہوں نے شیلندر کو ’برسات‘ فلم کی یونٹ میں شامل کر لیا۔ ابھی ’برسات‘فلم کا ٹائٹل گیت نہیں لکھا گیا تھا لہٰذا راج کپور نے شیلندر کو ہاتھوں ہاتھ لیااور اُن سے اپنی فلم ’برسات‘ کیلئے دو گیت لکھوائے۔ ایک گیت تھا:
برسات میں ہم سے ملے تم سجن تم سے ملے ہم
اور دوسرا گیت تھا:
پتلی کمر ہے، ترچھی نجر ہے
اِس فلم سے شیلندر کو نہ صرف راج کپور کا ساتھ مل گیا بلکہ موسیقار شنکر جے کشن کے بھی وہ قریب آگئے۔ فلم ’برسات‘ کے یہ دونوں گیت سُپر ہٹ ثابت ہوئے اور شیلندر راتوں رات ایک کامیاب فلمی گیت کار بن گئے۔ اِس کے ساتھ ہی موسیقار شنکر جے کشن کے ساتھ بھی اُن کی جوڑی بن گئی۔ فلم ’برسات‘ (۱۹۴۹ء) کے بعد شیلندر نے فلمساز، ہدایتکار اور اداکار راج کپور کی تقریباً سبھی اہم فلموں کیلئے گیت لکھے، جن میں خاص طور پر ’آوارہ (۱۹۵۱ء)، انہونی (۱۹۵۲ء)، بوٹ پالش (۱۹۵۴ء)، شری چار سو بیس (۱۹۵۵ء)، جاگتے رہو (۱۹۵۶ء)، چوری چوری (۱۹۵۶ء)، اناڑی (۱۹۵۹ء)، کنہیّا (۱۹۵۹ء)، جس دیش میں گنگا بہتی ہے (۱۹۶۰ء)، عاشق (۱۹۶۲ء)، ایک دل سو افسانے (۱۹۶۳ء)، سنگم (۱۹۶۴ء)، تیسری قسم (۱۹۶۶ء)، دیوانہ (۱۹۶۷ء)، ارائونڈ دی ورلڈ (۱۹۶۷ء)، سپنوں کا سوداگر (۱۹۶۸ء) اورمیرا نام جوکر‘ (۱۹۷۰ء) وغیرہ جیسی فلموں میں شیلندر کے لکھے فلمی نغمے بے حد مقبول ہوئے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ راج کپور کی فلمی شہرت میں شیلندر کے نغموں کا بھی بڑا حصّہ رہا ہے۔ اُن کے لکھے گیتوں کو نہ صرف ہندوستان میں شہرت ملی بلکہ بیرون ملک بھی اُن کی گونج پہنچی۔ خاص طور پر راج کپور پر فلمائے گئے گیت ’آوارہ ہوں، میرا جوتا ہے جاپانی، سچ ہے دُنیا والوں کہ ہم ہیں اناڑی، ہم اُس دیش کے واسی ہیں جس دیش میں گنگا بہتی ہے، اور رامیّا وستا ویّا‘ جیسے گیت بیرون ملک میں بھی بے حد مقبول ہوئے۔ 
راج کپور کی فلموں کے علاوہ بھی شیلندر نے بہت سی فلموں کیلئے گیت لکھے اور اُن کی نغمہ نگاری کی صلاحیتوں کے جوہر اُن فلمی نغموں میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں اور وہ بھی مقبولیت کی بلندیوں کو پہنچے ہیں۔ فلم’داغ (۱۹۵۲ء)، پتیتا (۱۹۵۳ء)، انارکلی (۱۹۵۳ء)، دو بیگھہ زمین (۱۹۵۳ء)، سیما (۱۹۵۵ء)، مدھومتی (۱۹۵۸ء)، سنگیت سمراٹ تان سین (۱۹۶۲ء)، دل ایک مندر (۱۹۶۳ء)، میری صورت تیری آنکھیں (۱۹۶۳ء)، بندنی (۱۹۶۳ء)، دُور گگن کی چھائوں میں (۱۹۶۴ء)، گائیڈ (۱۹۶۵ء) اوربسنت بہار (۱۹۵۶ء)‘ ایسی فلمیں ہیں جن کے نغمے نہ صرف اُس زمانے میں مقبول ہوئے بلکہ آج بھی اُتنی ہی توجہ سے سنے جاتے ہیں۔ 
ہندوستانی فلمی گیتوں کا جو معیار آج دِکھائی دے رہا ہے، اُسے مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم شیلندر کے گیتوں کا تجزیہ کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے فلمی نغموں کے ذریعہ ایک بہت بڑا کام کر رہے تھے۔ گیت کیسا بھی کیوں نہ ہو، کسی بھی سچویشن پر گایا جانے والا ہو، اُنہوں نے ہمیشہ معیاری گیت ہی قلمبند کئے اور اِتنے خوبصورت بھی کہ آتے ہی لوگوں کی زبان پر چڑھ جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں ریڈیو سے نشر ہونے والے مقبول گیتوں میں سے آدھے سے زیادہ گیت شیلندر کے ہی ہوتے تھے۔ 
’سجنوا بیری ہو گئے ہمار (تیسری قسم، ۱۹۶۶ء)، سہانا سفر اور یہ موسم حسیں (مدھوومتی، ۱۹۵۸ء)، یہ مرا دیوانہ پن ہے یا محبت کا سرور (یہودی، ۱۹۵۸ء)، یہ رات بھیگی بھیگی یہ مست نظارے (چوری چوری، ۱۹۵۶ء)، اے میرے دل کہیں اور چل (داغ، ۱۹۵۲ء)، او جانے والے ہو سکے تو لوٹ کے آنا (بندنی، ۱۹۶۳ء)، سجن رے جھوٹ مت بولو (تیسری قسم، ۱۹۶۶ء)، پیار ہوا اقرار ہوا ہے پیار سے پھر کیوں ڈرتا ہے دل (شری چار سو بیس، ۱۹۵۵ء)، جینا یہاں مرنا یہاں اس کے سوا جانا کہاں (میرا نام جوکر، ۱۹۷۰ء) ہونٹوں پہ سچائی رہتی ہے جہاں دل میں صفائی رہتی ہے (جس دیش میں گنگا بہتی ہے)‘ جیسے گیتوں کی وجہ سے وہ امر ہیں۔ 
شیلندر نے بطور فلمساز راج کپور اور وحیدہ رحمان کو لے کر فلم ’تیسری قسم‘ شروع کی۔ باسو بھٹاچاریہ کی ہدایت میں بننے والی اِس فلم کی کہانی فنیشور ناتھ رینو کی مشہور کہانی ’مارے گئے گلفام‘ پر تیار کی گئی تھی۔ اس فلم کی تکمیل تک شیلندر پوری طرح کنگال ہو چکے تھے۔ یہاں تک کہ اُن کا گھر، زیور، سب کچھ دائو پر لگ چکا تھا، اُن دِنوں وہ کھار میں رہتے تھے اور اُن کے گھر کا نام ’رم جھم‘ ہوا کرتا تھا۔ قرض داروں سے تنگ آکر وہ ’رم جھم‘ میں ہی روپوش ہو گئے تھے۔ بعد میں راج کپور اور مکیش کی کوششوں سے یہ فلم مکمل ہو کر ۱۹۶۶ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی مگربُری طرح ناکام ہو گئی۔ فلم کا بجٹ بہت زیادہ ہوجانے کی وجہ سے وہ بہت زیادہ مقروض ہوگئے تھے۔ اِنہی پریشانیوں سے تنگ آکر اُنہوں نے مئے نوشی میں بے حد اضافہ کر دیاتھا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف ۴۳؍ سال کی عمر میں ۱۴؍دسمبر ۱۹۶۶ء کو اُن کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں ان کی اسی’ فلاپ‘ کو ۱۹۶۷ء کے بہترین فلم کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ صرف چودہ سال فلمی دُنیا سے وابستہ رہے اور اس دوران اُنہوں نے تقریباً ایک ہزار گیت لکھے، جن میں سے بیشتر آج بھی گنگنائے جاتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK