Inquilab Logo

گلوکارطلعت محمود کی آواز براہ راست دل میں اتر جاتی ہے

Updated: March 06, 2024, 10:22 AM IST | Agency | Mumbai

اے میرے دل کہیں اور چل جیسے متعدد گیتوں کو اپنی سریلی اور درد بھری آواز سے لازوال بنا دینے والے برصغیر کے لیجنڈ گلوکار و اداکار طلعت محمود ۲۴؍ فروری ۱۹۲۴ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔

Talat Mehmood, the owner of the charming voice. Photo: INN
دلکش آواز کے مالک طلعت محمود۔ تصویر : آئی این این

اے میرے دل کہیں اور چل جیسے متعدد گیتوں کو اپنی سریلی اور درد بھری آواز سے لازوال بنا دینے والے برصغیر کے لیجنڈ گلوکار و اداکارطلعت محمود ۲۴؍ فروری ۱۹۲۴ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ طلعت محمود کو بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا اور ۱۵؍سال کی عمر میں ہی انھوں نے لکھنؤ ریڈیو سے اپنے فنی کریئر کا آغاز کیا۔ ان کے والد بھی گلور تھے۔ ان کے والد اپنی آواز کو اللہ کا دیا ہوا گلا کہہ کر اللہ کو ہی وقف کرنے کی تمنا رکھتے تھے۔ وہ صرف نعت گانے کیلئےمشور تھے۔ بچپن میں طلعت نے اپنے والد کی آواز کی نقل کرنےکی بہت کوشش کی لیکن وہ اس میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ ان کی خالہ ان کی سریلی آواز سنتی تھیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ انہوں نے ہی اپنی ضد پر طلعت کو موسیقی سکھانے کے لئے کالج میں داخل بھی کروایا۔ ۱۶؍سال کی عمر میں طلعت کو کمل داس گپتا کا گیت ’سب دن ایک سمان نہیں ہوتے‘گانے کا موقع ملا۔ یہ نغمہ گانے کے بعد لکھنؤ میں بہت مشہور ہوا۔ تقریباً ایک سال بعد معروف ریکارڈنگ کمپنی ایچ ایم وی کی ٹیم کلکتہ سے لکھنؤ پہنچی اور پہلے ان کے دو گانے ریکارڈ کئے۔ اس کے بعد طلعت کے چار اور گانوں کی ریکارڈنگ کی گئی۔ 
ہندی فلموں کے لیجنڈ گلوکار بطور اداکار راج لکشمی، تم اور میں، آرام، دلِ نادان، ڈاک بابو، وارث، رفتار، دیوالی کی رات، ایک گاؤں کی کہانی، لالہ رخ، سونے کی چڑیا اور مالک نامی فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ 
بطورگلوکار دیوداس، بوٹ پالش، حقیقت، ٹیکسی ڈرائیور، بابُل، سزا، ترانہ، نادان، مدہوش، سنگدل، داغ، انوکھی، فٹ پاتھ، بارہ دری، سجاتا، ایک پھول چار کانٹے، پریم پتر جیسی فلموں کے لیے گیت گائے۔ ان کے یادگار گیتوں میں ’جائیں تو جائیں کہاں ‘، ’جلتے ہیں جس کے لیے ‘، ’ اے غمِ دل کیا کروں ‘، ’پھر وہی شام وہی غم‘، ’پیار پر بس تو نہیں ‘، ’میرا پیار مجھے لوٹا دو ‘، ’ شامِ غم کی قسم ‘، ’حسن والوں کو‘، ’یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی ‘، ’تصویربناتا ہوں تصویر نہیں بنتی‘، ’تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی‘، ’میری یاد میں تم نہ آنسو بہانا‘، ’اے میرے دل کہیں اور چل‘، ’سینے میں سلگتے ہیں ارمان، ‘، ’اتنا نہ مجھ سے تو پیار بڑھا‘، ’راہی متوالے ‘، ’زندگی دینے والے سُن‘، ’دیکھ لی تیری خدائی‘، ’ہم درد کے ماروں کا‘، ’اندھے جہاں کے اندھے راستے ‘، ’کوئی نہیں میرا اس دنیا میں ‘، ’ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا‘، ’دلِ ناداں تجھے ہوا کیاہے ‘، ’بے چین نظر بے تاب جگر‘، ’آئی جھومتی بہار‘، ’ہوکے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا‘، وغیرہ شامل ہیں۔ 
نیوتھیٹرس نے ۱۹۴۵ءمیں بنی فلم راج لکشمی نےطلعت کو ہیرو-گلوکار بنایا۔ سنگیت کار رابن چٹرجی کےہدایت میں اس فلم میں ان کے گائے‘ جاگو مسافر جاگو ’ گانے کو سراہا گیا۔ خوش ہوکر طلعت نےممبئی کا رخ کیا اور انل بسواس سے جاکر ملے۔ انل دا نےیہ کہہ کر انہیں واپس بھیج دیا کہ ہیرو بننے کے لئےوہ بہت دبلے پتلے ہیں اور وہ مایوس ہوکر واپس کولکتہ چلے گئے۔ لیکن طلعت محمود نے حوصلہ نہیں ہارا۔ کچھ وقت گزارنےکے بعد انہوں نے ایک مرتبہ پھر ممبئی کا رخ کیا۔ اس مرتبہ انل بسواس نے انہیں فلمستان اسٹوڈیو کی فلم آرزو میں پردے کے پیچھے سےگانے کا موقع دیا۔ دلیپ کمار کے اوپر فلمایا گیا نغمہ ’اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو‘ ہٹ ہوگیا اور طلعت کی کپکپاتی آواز سنگیت کاروں کی نگاہ میں جم گئی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK