Inquilab Logo

موسیقاراعظم نوشاد کی موسیقی دورجدید کے سامعین کو بھی متاثر کرنے کی طاقت رکھتی ہے

Updated: May 05, 2023, 3:34 PM IST | Mumbai

سال۱۹۶۰ء میں ریلیز ہوئی شاہکار فلم مغل اعظم کی سحر انگیز موسیقی آج بھی اسی طرح مقبول ہے جیسی  اس وقت تھی جب یہ فلمریلیز ہوئی تھی ۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

سال۱۹۶۰ء میں ریلیز ہوئی شاہکار فلم مغل اعظم کی سحر انگیز موسیقی آج بھی اسی طرح مقبول ہے جیسی  اس وقت تھی جب یہ فلم ریلیز ہوئی تھی ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دور جدید کی نسل آج  بھی اس فلم  کے نغمے سنتی اور گنگناتی ہے لیکن اس فلم کے موسیقارنوشاد علی نے ا  فلم میں موسیقی دینے سے انکار کردیاتھا۔کہا جاتا ہے کہ مغل اعظم کے ہدایت کار کے آصف جب نوشاد کے گھر ان سے ملنے گئے ۔وہ اس وقت ہارمونیم پر کوئی دھن تیار کررہے تھے۔اسی وقت کےآصف نے ۵۰؍ہزار  روپے کے نوٹوں کا بنڈل ہارمونیم پر پھینکا ،نوشاد کو اس بات پر بے انتہا غصہ آیا  اور نوٹوں کا پھینکا ہوا بنڈل واپس کرتے ہوئے کہا  ’’ایسا ان لوگوں کیلئے کرنا جو بغیر ایڈوانس فلموں میں موسیقی نہیں دیتے۔ میں آپ کی فلم میں موسیقی نہیں دوں گا۔‘‘ بعد میں کے آصف کی  منت سماجت  پر نوشاد نہ صرف فلم میں موسیقی  دینے کے لئے تیار ہوئے بلکہ اس کیلئےایک پیسہ تک نہیں لیا۔
 لکھنؤ کے ایک متوسط مسلم خاندان میں۲۵؍دسمبر۱۹۱۹ء کو نوشاد کی پیدائش ہوئی۔ان کا رجحان  بچپن سے ہی موسیقی کی طرف  تھا اور انہیں اپنے اس شوق کو پروان چڑھانےکیلئے  اپنے والد کی ناراضگی بھی برداشت کرنی  پڑتی تھی۔ان کے والد ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تم گھر یا موسیقی میں سے ایک کو منتخب کرو۔اسی دوران لکھنؤ میں ایک ڈراما کمپنی آئی  اور نوشاد نے آخر کار ہمت کرکے اپنے والد سے کہہ دیا ’’آپ کو آپ کا گھر مبارک  اور مجھے میری موسیقی‘‘،اس کے بعد وہ گھر چھوڑ کر اس ڈراما کمپنی میں شامل ہوگئے اور اس کے ساتھ جےپور ، جودھپور،بریلی اور گجرات جیسے بڑے شہروں میں گھومتے رہے۔ 
 نوشاد کے بچپن کا ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔لکھنؤ میں بھوندومل اینڈ سنس کی موسیقی کے آلات کی ایک دکان تھی جسے موسیقی کے دیوانے نوشاد حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔ایک بار دکان کے مالک نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ وہ یہاں کیوں کھڑے رہتے ہیں۔نوشاد نے کہا کہ وہ ان کی دکان میں کام کرنا چاہتے ہیں۔نوشاد کا ارادہ تھا کہ وہ اسی بہانے موسیقی کے آلات پر ریاض کر سکیں گے۔ایک دن دکان کے مالک نے انہیں ریاض کرتے ہوئے دیکھ لیا اور انہیں ڈانٹ لگائی کہ انہوں نے آلات گندے کردیئے لیکن بعد میں اس نے محسوس کیا کہ نوشاد بہت خوبصورت دھن بجا رہے تھے جس کے بعد اس نے نہ صرف انہیں موسیقی کے آلات تحفہ میں دئے بلکہ ان کے لئے موسیقی سیکھنے کا انتظام بھی کردیا۔یہ سال۱۹۳۷ء کا ذکر ہے جب نوشاد اپنے ایک دوست سے۲۵؍روپے بطور قرض لے کر موسیقار بننے کا خواب آنکھوں میں لئے ممبئی آئےلیکن یہاں آکر انہیں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔اس دوران ان کی ملاقات فلم ساز اور ہدایت کار اے آر کاردار سے ہوئی،انہی کی سفارش پر نوشاد کو موسیقار حسین خان کے یہاں۴۰؍ روپے ماہانہ پرپیانو بجانے کا کام ملا۔اس کے بعد انہوں نےموسیقار کھیم چندر پرکاش کے اسسٹنٹ کے طورپر بھی کام کیا۔بطور موسیقار نوشاد کو۱۹۴۰ء میں فلم پریم نگر میں پہلی بار۱۰۰؍روپے ماہوار پر کام کرنے کا موقع ملا۔۱۹۴۴ء میں ریلیز  ہوئی فلم رتن میں ان کی موسیقی سے آراستہ نغمہ’انکھیاں ملا کے جیا بھرما کے چلے نہیں جانا‘ کی کامیابی کے بعد نوشادنے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔اس کے بعد وہ فلموں میں بہترین موسیقی دیتے رہے اور ان کی مقبولیت میں ہر روز اضافہ ہوتا رہا۔انہوں نے ۶؍ دہائی کے اپنے فلمی کریئر میں تقریباً۷۰؍فلموں میں موسیقی دی ہے۔اس طویل سفر میں انہوں نے سب سے زیادہ فلمیں نغمہ نگار شکیل بدایونی کے ساتھ کی ہیں اور ان دونوں کی جگل بندی ہمیشہ سپرہٹ ہوئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK