موسیقی سے محبت کرنے والوں کو ان کی کمی کا احساس ہمیشہ رہے گا ۔ شاید اس بات کا احساس رفیع صاحب کو بھی تھا ،تبھی تو انھوں نے ایک گیت میں کہا تھاکہ’’تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گےجب کبھی بھی سنو گے گیت مرے،سنگ سنگ تم بھی گنگناؤ گے۔‘‘
EPAPER
Updated: July 31, 2025, 1:23 PM IST | Muhammad Abbas Dhaliwal | Malir Kotla, Punjab
موسیقی سے محبت کرنے والوں کو ان کی کمی کا احساس ہمیشہ رہے گا ۔ شاید اس بات کا احساس رفیع صاحب کو بھی تھا ،تبھی تو انھوں نے ایک گیت میں کہا تھاکہ’’تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گےجب کبھی بھی سنو گے گیت مرے،سنگ سنگ تم بھی گنگناؤ گے۔‘‘
جگ والا میلہ یارو تھوڑی دیر دا.... اللہ پاک نے اپنی کائنات میں بے شمار انسان ایسے پیدا کیے ہیں ،جن کو اس نے الگ الگ خوبیوں اور اوصاف سے نوازا ہے ۔اسی طرح میٹھی آواز بھی خدا کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمت تحفہ ہے ۔ اس سلسلے میں جب ہم آواز کی دنیا کے اچھے گلوکاروں کی بات کرتے ہیں، تو ایک نام جو ہمیں سرِ فہرست نظر آتا ہے ،وہ نام ہے معروف بالی وڈ پلے بیک سنگر محمد رفیع صاحب کا۔گیت ہو یا غزل ،قوالی ہو یا نعت ،شبد ہو یا پھربھجن رفیع صاحب نے ہر طرح کی موسیقی میں اپنی آواز کا کچھ ایسا لوہا منوایاکہ آج موسیقی کو بھی ان پہ ناز ہے۔بے شک رفیع صاحب کو ہم سے جدا ہوئے تقریباً چار دہائیاں گزر چکیں، اسکے باوجود ان کی آواز کا جادو آج بھی چاہنے والوں کے ذہن و دل پر سر چڑھ کر بولتا ہے ان کی آواز آج بھی کانوں میں رس گھولتی اور دل کو سکون پہنچاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ۷؍ دہائی پہلے جادو جگاتی تھی ۔ محمد رفیع کی پیدائش ۲۴؍ دسمبر ۱۹۲۴ء کوہندوستان میں امرتسر کے نزدیکی گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں ہوئی ۔ ان کے والد حاجی علی محمد ایک نیک صفت انسان تھے۔محمد رفیع اپنے ۶؍ بھائیوں میں سے دوسرے نمبر پر تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں ہی حاصل کی اوراسکے بعد گاؤں کے اسکول میں صرف دوسری جماعت تک ہی پڑھائی حاصل کر سکے۔ انہیں بچپن سے ہی گانے کا شوق تھا اس لیے پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔اس کا انکشاف کرتے ہوئے رفیع ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ میری عمر کوئی دس بارہ سال رہی ہوگی کہ گاؤں میں ایک فقیر آیا کرتاتھا،وہ بہت ہی خوبصورت آواز میں ایک گیت ’جگ والا میلہ یارو تھوڑی دیر دا‘ گایا کرتا تھا ۔اسی گیت کو دہراتے ہوئے وہ اس فقیر کاپیچھا کرتے ہوئے بہت دور نکل جاتے تھے۔ ایک مرتبہ اس فقیر نے رفیع صاحب سے کہاتھا تو ایک دن بہت بڑا گلوکار بنے گا اور زمانے بھر میں اپنا اوراپنے ماں باپ کا بڑا نام روشن کریگا۔
۱۹۴۴ء میں رفیع صاحب ممبئی چلے آئے، انھوں نے عبدالحمید کے ساتھ ممبئی کے گنجان آبادی والے بھنڈی بازار میں ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنا شروع کیا۔ شاعر تنویر نقوی نے محمد رفیع کو فلم پروڈیوسر عبدالرشید ڈائریکٹر محبوب خان اور اداکار نذیر وغیرہ سے ملوایا۔محمد رفیع نے شاستری (کلاسک) نغموں سے لے کردیش بھگتی کے گیت ،اداس گیت سے لیکر رومانوی نغمے ،غزل،بھجن اور قواّلی سبھی قسم کے گیتوں کو اپنی آواز کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے رہتی دنیا تک زندہ جاوید کر دیا۔ان کو مختلف فلمی اداکار وں کی آواز کے ساتھ ملتی جلتی آواز میں گانے کی خدا داد صلاحیت حاصل تھی۔ اسی خوبی کا نتیجہ تھا کہ وہ ۱۹۵۰ء سے۱۹۷۰ء کے درمیان بالی ووڈ کے موسیقار رفیع صاحب سے سب سے زیادہ گانا گوانا پسند کرتے تھے ۔ دلیپ کمار سے لے کر امیتابھ بچن تک ہر چھوٹے بڑے اداکا ر کے لیے رفیع نے اپنی پس پردہ آواز مہیا کی ۔ رفیع کے انتقال کے بعد ایک دفعہ اداکار شمی کپور نے کہا تھا کہ آج ان کی آواز چلی گئی ۔محمد رفیع عام طور پر ہندی/اردو کے نغمے گانے کیلئے مشہور تھے جن پر ان کو کمال حاصل تھا ۔انھوں نے کئی دیگر زبانوں مین بھی گیت گائے ان میں آسامی،کوکنی،بھوجپوری،اڑیا،پنجابی بنگالی، مراٹھی ،سندھی،کنّڑ ،گجراتی ، تیلگو، مگاہی ،میتھلی وغیرہ شامل ہیں۔ ہندوستانی زبانو ں کے علاوہ انھوں نے انگریزی ،فارسی،عربی،ڈچ وغیرہ میں بھی بڑی مہارت کے ساتھ پورا پوار انصاف کرتے ہوئے نغمے گائے ۔ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کہ وہ دوسری زبانوں میں اتنی خوش اسلوبی سے کیسے گا لیتے ہیں؟تو انھوں نے کہا کہ وہ پہلے دوسری بھاشا کے گیتوں کو اردو میں لکھ لیتے ہیں،اس کے بعد پوری ریہرسل کرتے ہیں، پھر اس گیت کو گاتے ہیں۔
اپنے۳۵؍ سالہ کریئرمیں رفیع صاحب نے تقریباً۲۶؍ ہزار نغمے گائے ہیں ۔(’ہندی گیت مالا‘ کے مطابق رفیع صاحب کے فلمی نغموں کی تعداد ۴۵۰۰؍ سے زائد ہے)۔اتنے زیادہ گیت گانے کے باوجود رفیع صاحب کس قدر سادہ طبیعت کے مالک تھے ،اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک بار فلم نصیب کا مشہور گیت ’چل میرے بھائی‘ امیتابھ بچن کے ساتھ ریکارڈ کرواکر آئے، تو گھر آتے ہی اپنے اہل خانہ سے بولے کے آپ کو پتا ہے کہ آج میں کس عظیم ایکٹر کے ساتھ گیت گاکر آرہا ہوں ،پھر خود ہی بولے امیتابھ بچن کے ساتھ۔ حالانکہ اس وقت رفیع صاحب کا قد خود اتنا زیادہ بلند تھا کہ کسی بھی بڑے اداکار کو ان کے ساتھ گانے میں فخر محسوس ہو تاتھا۔اسی طرح کشور کمار کے ساتھ ان کے رشتوں کو لے کر میڈیا والے آئے دن کچھ نہ کچھ ایسا لکھتے رہتے تھے ،جس سے قارئین کو ایسا لگتا تھا کہ ان میں کافی زیادہ ان بن اور کھٹاس ہے لیکن ایسا نہیں تھاکیوں کہ اتفاق سے اگر کسی اسٹوڈیو میں رفیع صاحب اور کشور دا کی ریکارڈنگ ایک ہی دن ہوتی تو دونوں میں جو بھی ریکار ڈنگ پہلے کروا لیتا، وہ بیٹھ کر دوسرے کا انتظار کرتا اور پھر دونوں جب ملتے تو گھنٹوں آپس میں باتیں کرتے ۔ایک بار فلم ’امر اکبر انتھونی‘ کی مشہور قوالی، جو کہ رشی کپور کے اوپر فلمائی گئی تھی ،اس کی ریکارڈنگ کے بعد رفیع صاحب نے منموہن دیسائی سے کہا کہ اس میں ایک سین ،جو امیتابھ پر فلمانا ہے ،اس کیلئے ’تو اکبر میرا کی جگہ تیرا نام نہیں ہے ‘آنا چاہئے تھا۔ اسی بیچ رفیع صاحب لندن چلے گئے ۔ بعد میں جب منموہن دیسائی کو اس بات کا احساس ہوا ،تو انھوں نے رفیع صاحب کو فون کیا کہ آپ اس ایک لائن کو دوبارہ ریکارڈ کروا جا ئیں تو انھوں نے کہا کہ میں تو لندن میں ہوں ،آپ کشور کمار سے اس ایک لائن کی ریکارڈکروا لیں لیکن منموہن دیسائی نے معذرت چاہی کہ کشور کمار میرے کہنے سے شاید نہ آئیں، تو رفیع صاحب نے سیدھا کشور کمار کو فون کیا اور تمام ماجرا سمجھایا ،تو کشور کمار فوراً اس ایک لائن کی ریکارڈنگ کروانے کیلئے اسٹوڈیو آئے ، وہ ایک لائن فلم میں قوالی کے دوران امیتابھ بچن پر فلمائی گئی ہے۔رفیع صاحب بہت کم بولتے تھے اور طبیعت میں نرمی گویا کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔اگر کوئی آپ کے گانے کی تعریف کرتا ،توشہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر کہہ دیتے کہ یہ اوپر والے کی بخشش ہے اور میری ماں کی اور فقیر بابا کی دعاؤں کا ثمرہ ہے ۔
ایک دفعہ مجھے لکھنؤ سے ایک درزی پاٹھک کا فون آیا تو اس نے باتوں باتوں میں مجھے بتایا کہ رفیع صاحب ایک بار لکھنؤ کے ریسٹ ہاؤس میں آکر ٹھہرے تو مجھے (اس درزی کو) ان کے کپڑوں کے ناپ کے لیے بلایا گیا تو میں نے رفیع صاحب کو بہت سادہ طبیعت پایا… میری طرف سے انکے کرتے پائجامے کا ناپ لیتے وقت رفیع صاحب نے مجھ سے کہا کہ بھائی کپڑے تھوڑے کھُلے بنائیے گا کیونکہ میں اکثر نماز کُرتے پاجامہ پہن کر پڑھتا ہوں۔ایک بار کسی اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی کہ کسی شہر میں کسی مجرم کو پھانسی دی جانی تھی، تو اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی ،تو اس نے بتانے سے انکار کردیا، جب بار بار اصرار کیا گیا تو اس مجرم نے کہا کہ وہ رفیع صاحب کا گیت:او دنیا کے رکھوالے ،سن درد بھرے میرے نالے !جیون اپنا واپس لے لے ،جیون دینے والے!سننا چاہتاہے۔پھر کیا تھا، جیل میں ٹیپ ریکارڈ کا انتظام کیا گیا اور اس کے بعد سزا کے حکم کی تعمیل کی گئی۔
رفیع صاحب کو ۶؍ فلم فیئر اور ایک نیشنل ایوارڈ ملا۔۱۹۶۷ء میں انہیں حکومت ِ ہند کی جانب سے پدم شری سے نوازاگیا ۔آخر کا ر آواز کی دنیا کا یہ عظیم فنکارو ستارہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۸۰ء کو دورہ قلب کی وجہ سے ممبئی ایک اسپتا ل میں رات کے قریب دس بج کر بیس پر اس جہانِ فانی کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے الودع کہہ گیااور ساتھ ہی موسیقی کی دنیا میں ایک ایسا خلا پیدا کر گیا، جس کی تلافی ممکن نہیں ۔بے شک موسیقی سے محبت کرنے والوں کو ان کی کمی کا احساس ہمیشہ رہے گا۔شاید اس بات کا احساس رفیع صاحب کو بھی تھا ،تبھی تو انھوں نے ایک گیت میں کہا تھا کہ:تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گےجب کبھی بھی سنو گے گیت مرے،سنگ سنگ تم بھی گنگناؤ گے!