اسی ہتھیار سے وہ اپنی جنگ لڑتا ہے۔ یہ جنگ اسے بیک وقت کئی سمتوں میں اور کئی محاذوں پر لڑنا پڑتی ہے۔ اس کی اپنی ذات سے معاشرے تک ایک عالمِ تضادات اس کی فکری رزم گاہ ہے۔ اب اگر اس کا یہ ہتھیار ہی زنگ آلود اور کھوکھلا ہو گا، منافقت اور جھوٹ سے آلودہ ہو گا، تو وہ رزمِ ہستی اور بزمِ عالم میں اپنا کردار مؤثر طور پر کیسے ادا کرے گا؟
حقیقی ادب اور ادیب گوشہ نشین ہو تے جارہے ہیں۔ جاگرن
ہمارے ہاں یہ درست طور پر سمجھا نہیں گیا کہ شاعر اور ادیب کا معاشرہ میں کیا کردار ہے۔ ہمارے ہاں تو ابھی تک یہ نہیں سمجھا گیا کہ شاعر یا ادیب ہونا محض دانشور یا تعقلی ذہین ہونے سے زیادہ افضل ہے اور اس کی ذمہ داریاں ایک مجرد دانشور سے کہیں زیادہ ہیں۔ معاشرے میں شاعر اور ادیب کا کردار عام لوگوں کی نسبت پیچیدہ نوعیت کا ہوتا ہے۔ بطورِ خاص ایسے ملکوں میں جہاں شرح خواندگی اور معیشت، ہر دو کا گراف نیچے ہو، کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا رجحان کم ہونے کے باوجود پبلشر امیر تر اور ادیب غریب تر ہوں اور شعر و ادب کو سمجھنے سمجھانے کا معاملہ صرف ادب لکھنے والوں تک محدود ہو، وہاں اس کے خالق کے حقیقی کردار کا تعین چنداں آسان نہیں۔ یہاں ایک اور سوال بھی بہت دلچسپ ہے کہ کیا ہر فن پارے اور ہر ادبی تحریر کا کوئی مقصد ہونا ضروری ہے؟ کیا شعر و ادب اور آرٹ کی تخلیق بذاتِ خود ایک مقصد نہیں؟ کارل یونگ نے اپنی کتاب ’ماڈرن مین اِن سرچ آف سول‘ میں لکھا ہے کہ شاعر کا کام ہے معاشرے کی روحانی ضروریات کو پورا کرے۔
اگر ہم روحانی ضروریات کو وسیع تر مفاہیم میں پھیلا کر دیکھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم کی نفسیاتی صحت کا دار و مدار اس قوم کے شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کی سچائی اور سماجی انصاف سے وابستگی پر ہے۔ روحانیت کا پاس ورڈ ہی سچائی ہے۔ ادیب کے پاس سب سے بڑا ہتھیار اس کی تحریر ہے، جس سے وہ اپنی جنگ لڑتا ہے۔ یہ جنگ اسے بیک وقت کئی سمتوں میں اور کئی محاذوں پر لڑنا پڑتی ہے۔ اس کی اپنی ذات سے معاشرے تک ایک عالمِ تضادات اس کی فکری رزم گاہ ہے۔ اب اگر اس کا یہ ہتھیار ہی زنگ آلود اور کھوکھلا ہو گا، منافقت اور جھوٹ سے آلودہ ہو گا، تو وہ رزمِ ہستی اور بزمِ عالم میں اپنا کردار مؤثر طور پر کیسے ادا کرے گا؟
عالمی تناظر میں مختصر ترین بات کی جائے تو انقلاب ایران میں ادب اور ادیبوں کا بڑا کردار رہا۔ لاطینی امریکہ کے بعض ممالک اور فلسطین کی مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ دیگر خطوں میں جھانکیں تو مشرقی یورپی ممالک اور روس میں ادب اور ادیبوں کا کردار بڑا واضح اور مؤثر رہا۔ امریکہ میں جہاں پچاس ساٹھ سال پہلے تک معاشرے میں شاعر اور ادیب کا کردار ایک سنجیدہ لکھاری اور دانشور کا تھا، وہاں اب اس کی حیثیت محض ایک تفریح مہیا کرنے والے کی رہ گئی ہے۔ جدید امریکی ادبی معاشرہ ایک طرح کے تذبذب اور الجھاؤ میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اس سے تو یوں لگتا ہے جیسے معاشرتی اور سماجی مقاصد میں ادبی کساد بازاری اور معاشرے میں ادیب و شاعر کے کردار کی نوعیت میں تبدیلی ایک گلوبل فنامنا ہے۔
اب ایک سادہ سا سوال ہے کہ کیا اُردو کے شاعر اور ادیب معاشرے میں اپنا صحیح اور فعال کردار ادا کر رہے ہیں؟ اس کا جواب ایک سادہ سی نفی میں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے بیشتر لکھاری ادب اور ادبی ترفع کے بجائے اپنی تحریروں کے بل بوتے پر چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات، انعام و اکرام، شہرت و ناموری اور داد و تحسین حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی سعی میں مصروف ہیں۔ بعض تو اپنا اصل کام چھوڑ کر زندگی ہی میں اپنی تاریخ لکھنے اور لکھوانے میں لگے ہوئے ہیں۔ مسابقت کی جگہ حسد نے لے لی ہے اور جلد از جلد نتائج حاصل کرنے کی دوڑ نے وقت سے پہلے تخلیق کاروں کو مضمحل کر دیا ہے۔ ان میں تخلیقی اپج نہیں رہی۔ پہلے کتاب کا شائع ہونا کسی شاعر اور ادیب کی زندگی میں ایک بڑا سنگِ میل سمجھا جاتا تھا اور اس کے مندرجات پر مباحث کا ایک نیا در کھلتا تھا۔ اب کتاب آتی ہے تو رونمائیوں، پذیرائیوں اور اخبارات میں تبصروں تک آتے آتے صاحبِ کتاب تو چند دن نظر آتے ہیں مگر کتاب کا متن ہمیشہ کے لئے گم ہو جاتا ہے۔ بعض ادیبوں اور شاعروں کی رونمائیوں اور پزیرائیوں کی تقریبات کی تعداد ان کی تخلیقات کی تعداد سے زیادہ ہوتی ہے۔ جو زوال و انحطاط اور منافقانہ طرزِ فکر و عمل معاشرتی اور سیاسی قدروں اور اشرافیہ سے عوام تک کے رویوں میں آ چکا ہے، بدقسمتی سے وہی ادیبوں و شاعروں کی ذات و تحریر میں سرایت کر گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں نہ سچی شاعری رہی ہے نہ ادب اور نہ شاعر و ادیب۔ بس ایک غت ربود (ملا، جلا، گڑبڑ، گڈمڈ) ہے، فکری ابتری اور سطحی پن ہے، نقالی اور جگالی ہے اور شخصی دھوم دھام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ادب اور ادیب معاشرے میں کوئی حقیقی کردار ادا کرنے اور کسی انقلابی تبدیلی کی روح بیدار کرنے میں قطعی طور پر ناکام ہے۔ صورتِ حال اتنی دل شکن ہے کہ اس پر لکھتے ہوئے بھی الفاظ کے ضیاع کا احساس حاوی ہونے لگتا ہے۔ ادبی تخلیق پر ادبی سماجیات غالب آ چکی ہے۔
نہایت قلیل استثنائی مثالوں کے علاوہ ہمارے زیادہ تر نمایاں شاعروں اور ادیبوں کا سارا زور زندگی میں پرائڈ آف پرفارمنس لینے، نوکریاں پکی کرنے، آرٹ اور ادب کے سرکاری اداروں کی سربراہیاں حاصل کرنے، ادبی کانفرنسوں اور مشاعروں کے ذریعے اپنی عظمت کے چرچے کروانے، سفارشوں کے ذریعے بیرونِ ملک ادبی دوروں، تقریبات کی صدارتوں اور رونمائیوں جیسی غیر تخلیقی ادبی سرگرمیوں پر صرف ہو جاتا ہے۔ کچھ تو ادبی اداروں کے سربراہوں سے عہدے سنبھالتے ہی یوں چپکتے ہیں کہ یک جان دو قالب اور ہر تقریب میں ان کے پہلو میں نظر آتے ہیں۔ کچھ سارا سال اپنی پزیرائیاں کرواتے رہتے ہیں۔ ادب اور معاشرے کے لئے کوئی حقیقی ادا کرنے کے لئے ان بےچاروں کے پاس وقت کہاں! وہ کب لکھتے ہیں، کب پڑھتے ہیں، اس کا حال کوئی جن ہی بتا سکتا ہے۔ ادبی سرگرمیوں میں حقیقی ادب کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔ چند مخصوص لوگ اور گروپس ہیں، ادبی گاڈ فادر ہیں، سارا اردو ادب، سارے ادبی اعزازات، انعامی رقوم، تمام ادبی اور ثقافتی میلے، تشہیری سے انہی کے گرد گھوم رہا ہے۔ ان کے بس میں ہو تو ہر سال ادب کا نوبیل پرائز بھی یہی حاصل کریں۔ جن ادبی بزرج مہروں کو سرکاری اداروں میں حصہ بقدر جثہ نہیں ملتا وہ نت نئے اخباروں میں کالم نگاری شروع کر دیتے ہیں اور معاشرے کے یہ عکاس باقی ماندہ عمر اپنے ذاتی تعلقات، ذاتی پسند ناپسند اور ذاتی ادبی معیارات و تعصبات کی بنیاد پر ادبی فتاویٰ جاری کر کے اپنی شہرت و شخصیت کو کیش کراتے ہیں۔
ایسے میں ادب کیا اور معاشرے میں ادیب کا کردار کیا اور چند ایک اصلی لکھنے والوں کی کیا بساط رہ جاتی ہے! یوں بظاہر تو ادبی سرگرمیاں بہت دکھائی دیتی ہیں، ادبی شور و غل بھی سنائی دیتا ہے لیکن حقیقی ادب اور ادیب مزید گوشہ نشین ہو جاتا ہے۔