اروناچل پردیش کے سیاحتی خزانوں میں ایک نایاب گوہرجو ثقافتی اعتبار سے اس قدر متنوع ہے کہ یہاں ۵۰؍سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔
EPAPER
Updated: July 16, 2025, 11:24 AM IST | Mohammed Habib | Mumbai
اروناچل پردیش کے سیاحتی خزانوں میں ایک نایاب گوہرجو ثقافتی اعتبار سے اس قدر متنوع ہے کہ یہاں ۵۰؍سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔
ہندوستان کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش میں واقع چانگلانگ، قدرتی حسن، ثقافتی تنوع اور تاریخی اہمیت کا ایک شاندار مرقع ہے۔ ایک خوبصورت وادی میں بسے اس ضلع کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں کی بلندی۲۰۰؍میٹرسےلےکر ۴۵۰۰؍میٹر تک ہے، جو اسے جغرافیائی لحاظ سے ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ جہاں ایک طرف چانگلانگ کی پہاڑیاں اور سرسبز و شاداب مناظر دل کو مسرور کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف یہاں کی زبانوں کی کثرت اور رنگین ثقافت اسے انسانی تہذیب کا ایک دلچسپ آئینہ بنا دیتی ہے۔ یہاں ۵۰؍سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔
میاؤ
نوآ دہینگ دریا کے کنارے واقع مِیاؤ ایک خوبصورت چھوٹا سا قصبہ ہے، جو چانگلانگ کے معروف ترین سیاحتی مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کی پٹکائی پہاڑیوں کے دامن میں واقع مقام سیاحوں کو قدرتی حسن کا دلکش تجربہ فراہم کرتا ہے۔ یہاں کا ایک اہم سیاحتی مقام نمدا فہ نیشنل پارک ہے، جس کی جنوبی اور جنوب مشرقی سرحدیں انہی پہاڑوں سے ملتی ہیں۔ مِیاؤ میں عجائب گھر اور چھوٹا چڑیا گھر بھی ہے۔ یہاں تبتی پناہ گزینوں کی ایک بڑی بستی بھی ہے، جو اپنی بنائی گئی رنگین اون والی قالینوں کے لیے مشہور ہے۔ اس کے علاوہ مِیاؤ تیل کی کھدائی اور چائے کے باغات کیلئے بھی مشہورہے۔
نمدا فہ نیشنل پارک اور ٹائیگر ریزرو
چانگلانگ ضلع میں واقع نمدا فہ نیشنل پارک کو۱۹۸۳ءمیں ٹائیگر ریزرو قرار دیا گیا تھا۔ ہمالیائی سلسلے کے قریب واقع یہ پارک ۲۰۰؍میٹرسے۴۵۰۰؍میٹرکی بلندی پر پھیلا ہوا ہے اوریہ۱۹۸۵؍ مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ یہاں پر موجود جنگلات میں آپ کو ببر شیر، تیندوا، ہمالیائی سیاہ ریچھ، ہاتھی اور کئی نایاب پرندے و درختوں کی اقسام دیکھنے کو ملیں گی۔ یہاں کی سرسبز و شاداب وادیاں دیکھنے والے کو قدرت کی صناعی کا قائل بنا دیتی ہیں۔
لیک آف نو ریٹرن
چانگلانگ میں واقع ’نو ریٹرن‘ جھیل کا نام جتنا منفرد ہے، اس کی تاریخ بھی اتنی ہی خاص ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ جھیل ان طیاروں کی’سافٹ لینڈنگ‘ کیلئے استعمال ہوئی جنہیں واپسی کے دوران دشمنوں نےنشانہ بنایا تھا یا ان کے انجن فیل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں کئی طیارے تباہ ہوئے، جس کی وجہ سے اسے’واپسی نہ ہونے والی جھیل‘ کا نام ملا۔ یہ جھیل نیمپونگ سےصرف ۱۲؍کلومیٹر کی دوری پر ہے اور پنگساؤ درّےسے صاف دکھائی دیتی ہے۔
جنگ عظیم دوم قبرستان
یہ مقام جیرام پور قبرستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں ان سپاہیوں کی قبریں ہیں جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران اپنی جانیں قربان کیں۔ یہ سپاہی ہندوستان، چین، امریکہ اور برطانیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس وقت علاقے میں کام کرنے والے مزدور بھی پیچش، ملیریا، سیلاب اور لینڈ سلائیڈ جیسی قدرتی آفات کا شکار ہو کر جان بحق ہوئے تھے۔
نیمپونگ
ہندوستان-میانمار کی سرحد پر واقع نیمپونگ ایک تاریخی مقام ہے جسے دوسری جنگ عظیم کے وقت ’جہنم کا درّہ‘ (Hell’s Pass) کےنام سےجانا جاتا تھا۔ اس جگہ کا راستہ اتنا دشوار گزار تھا کہ اسے عبور کرنا ایک کارنامہ تصور کیا جاتا تھا۔ یہاں سے ہی مشہور اسٹل ویل روڈ گزرتا ہے۔ پنگساؤ درہ، جہاں سے’نو ریٹرن جھیل‘ نظر آتی ہے، نیمپونگ سے صرف۱۲؍ کلومیٹر دور ہے۔
فطرت اور تاریخ کا ملاپ
چانگلانگ نہ صرف فطرت کے حیرت انگیز مناظر سے مزین ہے بلکہ اس کی سرزمین نےتاریخ کے زخم بھی سہے ہیں۔ جنگ عظیم کے دوران یہاں کے لوگوں نے جن مصیبتوں کا سامنا کیا، وہ آج بھی زندہ روایتوں میں نظر آتی ہیں۔ یہ علاقہ قدرت، ثقافت، قربانی اور جنگ کے اثرات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اگر آپ یہاں کا سفر کرتے ہیں تو صرف مناظر ہی نہیں، بلکہ یہاں کی فضاؤں میں تاریخ کی سرگوشیاں اور ثقافت کا حسن بھی آپ کے دل کو چھو جائیں گے۔ یہ نہ صرف آپ کو فطرت کے ساتھ ایک ہونے کا احساس دلائے گا بلکہ یہ آپ کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کرے گا کہ طاقتیں رنگین زمین پر کیسے اپنا نشان چھوڑ سکتی ہیں۔