’’قلی‘‘ میں انڈین سنیما کے بڑے ناموں کو کاسٹ کیا گیا مگر کہانی اتنی کمزور ہے کہ بعض موقعوں پر یہ مشہور اداکار بھی کردار میں جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں
EPAPER
Updated: August 23, 2025, 12:14 PM IST | Mohammed Habib | Mumbai
’’قلی‘‘ میں انڈین سنیما کے بڑے ناموں کو کاسٹ کیا گیا مگر کہانی اتنی کمزور ہے کہ بعض موقعوں پر یہ مشہور اداکار بھی کردار میں جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں
قلی (Coolie)
اسٹارکاسٹ: رجنی کانت، ناگارجن، عامر خان، شروتی ہاسن، ثوبین شہیر، ستیہ راج، اوپیندر اور پوجا ہیگڑے وغیرہ۔
ڈائریکٹر :لوکیش کنگراج
رائٹر :چندرو آنبازگان، لوکیش کنگراج
پروڈیوسر:ایم بالا مروگن، رمیش کوچریار، سریش منیان
موسیقی:انیرودھ روی چندر
سنیماٹوگرافر:گریش گنگادھرن
ایڈیٹر:فلومن راج
کاسٹنگ:پاٹھک روشن
آرٹ ڈائریکٹر:ستیش کمار
کاسٹیوم ڈیزائن:پروین راجا
ریٹنگ: **
’’تھلائیور‘‘ کے نام سے مشہور اداکار رجنی کانت نے اس سال فلم انڈسٹری میں ۵۰؍ سال مکمل کر لئے ہیں۔ اس لئے ان کی تمل فلم ’’قلی‘‘ ان کے مداحوں کیلئے بہت خاص ہے۔
فلم کی کہانی
یہ دیوا (رجنی کانت) کی کہانی ہے، جو کسی زمانے میں ’’قلی‘‘ تھا۔ اب وہ چنئی میں اپنا مینشن ہاؤس چلاتا ہیں۔ ایک دن انہیں اپنے پرانے دوست راج شیکھر (ستیہ راج) کی موت کی خبر ملتی ہے۔ انہیں معلوم پڑتا ہے کہ راج شیکھر کو قتل کیا گیا ہے۔ دراصل، راج شیکھر نے ایک ایسی مشین بنائی ہے جو کسی بھی جانور کی لاش کو چند سیکنڈ میں راکھ میں بدل سکتی ہے جس کا استعمال اسمگلر سائمن (ناگا رجن اور اس کا خاص آدمی دیال (ثوبین شہیر) انسانوں کی لاشوں کو جلانے کیلئے کرتے ہیں۔ اس لئے وہ راج شیکھر اور ان کی بیٹی پریتی (شروتی ہاسن) کو بھی دھمکیاں دیتے ہیں۔ کہانی آگے بڑھتی ہے کہ دیوا اپنے دوست کی موت کا بدلہ کیسے لے گا۔
فلم کی کہانی لوکیش کنگراج نے لکھی ہے جنہوں نے ’’وکرم‘‘، ’’کیتھی‘‘ اور ’’ماسٹر‘‘ جیسی شاندار فلموں کی ہدایت کاری کی ہے۔ رجنی کانت کی شہرت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے انہیں ہر فریم میں سپر ہیرو کی طرح دکھایا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے انہوں نے کہانی میں بہت کچھ شامل کیا ہے، جیسے دیوا شادی شدہ ہیں، ان کی ایک بیٹی بھی ہے، سائمن کے بیٹے کا عشق ہے، دیال کے کانسٹیبل بننے کی اپنی کہانی ہے، سائمن اور دیوا کے درمیان پرانی دشمنی بھی ہے۔ اس طرح فلم میں ہر کردار کی اپنی کہانی ہے مگر کوئی بھی کہانی اپنے انجام تک نہیں پہنچ پائی ہے۔ ایسے میں دوست کی موت کا بدلہ لینے کی طرف بڑھنے والی کہانی مختلف کرداروں کے درمیان گم ہو جاتی ہے۔
موسیقی، ہدایتکاری، ایڈیٹنگ اور سنیماٹوگرافی
فلم کی کمزور کہانی کو سنبھالنے اور اسے دیکھنے کے قابل بنانے کا سہارا کیمرے کے پیچھے موجود ٹیم کو جاتا ہے۔ موسیقار انیرودھ کی موسیقی فلم کو ہر موڑ پر سنبھالتی ہے۔ گریش گنگادھرن کی سنیماٹوگرافی فلم کے پیمانے اور کاسٹ کے ساتھ انصاف کرتی ہے۔ فلومن راج کی پرفیکٹ ایڈیٹنگ اور ستیش کمار کا پروڈکشن ڈیزائن اسے بھرپور بناتا ہے۔ اس فلم کو سینسر بورڈ سے ’’اے‘‘ سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے کیونکہ میں میں متعدد پُرتشدد ایکشن مناظر ہیں۔
۱۹۹۶ء کی بالی ووڈ فلم ’’ماچس‘‘ کا مشہور نغمہ ’’چپہ چپہ چرخہ چلے‘‘ پر رجنی کانت کا غنڈوں کو مارنے کا منظر انتہائی طاقتور ہے۔ مشہور ناموں سے بھری اس فلم میں لوکیش نے ایک بار پھر اداکارہ کیلئے مایوس کن کردار لکھا ہے۔ شروتی ہاسن کا کردار پریتی اتنا کمزور ہے کہ جب اس کے والد کا قاتل اس کے سامنے ہوتا ہے تو وہ دیوا سے پوچھتی ہے کہ کیا اسے اسے تھپڑ مارنا چاہئے؟ اس محاذ پر لوکیش مزید توجہ دے سکتے تھے۔ فلم مکمل طور پر مردوں کو طاقتور ظاہر کرتی ہے جبکہ خواتین کے کردار کافی کمزور لکھے گئے ہیں۔
رجنی کانت ہیں فلم کا ’’پاور ہاؤس‘‘
اداکاری کی بات کریں تو اس کمزور فلم میں بھی رجنی کانت ایک پاور ہاؤس لگ رہے ہیں۔ وہ کہانی کو اپنی انوکھی اداکاری سے سنبھالتے محسوس ہورہے ہیں۔ فلم کو ہندوستان بھر میں قابل قبول بنانے کیلئے اس میں کنڑ فلم انڈسٹری سے اوپیندر، ہندی سے عامر خان اور ملیالم انڈسٹری سے ثوبین شہیر کو کاسٹ کیا گیا ہے۔ لیکن اوپیندر کا کردار یوں محسوس ہوتا ہے جیسے روٹی آدھی سینکی ہوئی ہو۔
فلم کے کلائمیکس میں مہمان کردار میں عامر خان کا صرف لک ہی متاثر کن اور مضبوط ہے۔ مرکزی ویلن کے طور پر ناگارجن کا کردار صرف اپنے انداز دکھانے تک محدود ہے، جو ہر منظر میں شراب نوشی یا سگریٹ نوشی میں مصروف نظر آتا ہے۔ البتہ ویلن دیال کے کردار میں ثوبین شہیر ان سے زیادہ طاقتور محسوس ہوتے ہیں۔ وہ ڈانس، ایکشن، ڈائیلاگ ڈیلیوری، ہر چیز میں اسکرین پر چھا جاتے ہیں۔
رجنی کانت اپنے ایکشن کیلئے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ناگارجن کی اداکاری کو شائقین پسند کرتے ہیں جبکہ عامر خان کو ایکشن کرتے دیکھنا ایک انوکھا تجربہ ہے مگر فلم کی کہانی حد درجہ کمزور ہے۔