• Fri, 17 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اراؤلی کی تاریخ سیکڑوں نہیں کروڑوں سال پرانی ہے

Updated: October 01, 2025, 2:22 PM IST | Mohammed Habib

مشہور پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع اسی نام کے ضلع میں دلکش آبشار، بدھ مت کے آثار اورکروڑوں سال پرانے ڈائناسور کے باقیات ہیں۔

Jhanjhari waterfall of Arauli. Photo: INN
اراؤلی کا جھانجھری آبشار۔ تصویر: آئی این این

ہندوستان کی سرزمین پر قدرت نے ایسے بے شمار عجائبات رکھے ہیں جو اپنی تاریخ، جغرافیہ اور حسن سے دنیا کو حیران کرتے ہیں۔ انہی میں ایک ہے ’اراؤلی کا پہاڑی سلسلہ‘،جو نہ صرف ملک کی قدیم ترین پہاڑیوں میں شمار ہوتی ہے بلکہ اپنی فطری خوبصورتی اور سیاحتی کشش کے باعث آج بھی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
اراؤلی کی پہچان
 اراؤلی پہاڑیاں تقریباً۳۵۰؍کلومیٹرتک پھیلی ہوئی ہیں، جن کی ابتدا دہلی کے قریب سے ہوتی ہے اور یہ گجرات تک جاتی ہیں۔ جغرافیائی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کے قدیم ترین پہاڑی سلسلوں میں شامل ہے، جن کی عمر کروڑوں سال پرانی ہے۔ ان پہاڑیوں نے نہ صرف زمین کے ارتقا کو دیکھا ہے بلکہ تاریخ کے کئی اہم ادوار کی گواہ بھی رہی ہیں۔
فطری حسن
 اراؤلی پہاڑیاں گھنے جنگلات، ندیوں، جھیلوں اور تاریخی قلعوں سے پرہیں۔ یہاں کے مناظر صبح کے وقت دھند میں لپٹے اور شام کے وقت سورج کی لالی میں نہائے ہوئے دل موہ لیتے ہیں۔ اراؤلی کے جنگلات میں ہریالی کے ساتھ نایاب پرندے اور جانور بھی دیکھنے کو ملتے ہیں، جن میں چیتل، نیل گائے اور مور خاص طور پر نمایاں ہیں۔
جھانجھری آبشار
 گجرات میں واقع اراؤلی ضلع کے’بیاد تعلقہ‘کے گاؤں ’دابھا‘ کے قریب،’واترک ندی‘کے کنارے قدرت نے ایک حسین تحفہ عطا کیا ہےجس کا نام’جھانجھری آبشارہے۔ یہ آبشار بیادسےتقریباً۱۲؍ کلو میٹر اور بیاد-دھیگام روڈ سے۷؍کلو میٹر جنوب میں واقع ہے۔
 اس دلکش مقام کو دیکھنے کیلئے احمد آباد، گاندھی نگر اور مہسانہ سے بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں، خاص طور پر سنیچر، اتوار اور تعطیل کے دنوں میں یہاں کافی بھیڑ دیکھی جاتی ہے۔ جھرنے کے نچلے حصے میں پتھریلی چٹانیں پانی کے تیز بہاؤ سے کٹ کر ایک قدرتی تالاب بنا دیتی ہیں، جو سیاحوں کے لیے کشش کا باعث بنتا ہے۔
دیونی موری
 اراؤلی کی سرزمین پر نہ صرف قدرتی حسن ہے بلکہ تاریخ کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔’دیونی موری‘ ایک ایسا مقام ہے جہاں کبھی بدھ مت کی عظیم روایت زندہ تھی۔ یہ شاملاجی سےمحض ۲؍کلو میٹر اور بھلواڈا سے ۲۰؍ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں ’میشوو ندی‘کے کنارے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھیں جن میں ایک پہاڑی کا نام ’بھراجراج کا ٹیکرا‘ تھا۔یہ مقام اس وقت کے بدھ بھکشوؤں کیلئے ایک بڑا’وِہار‘تھا۔
 یہاں کے تعلق سےمعلومات حاصل کرنےکیلئےکہ زمانہ قدیم میں یہاں کیا کچھ موجود تھا اور یہاں کس قسم کی ثقافت آباد تھی ،یہاں کھدائی کی گئی تھی۔ کھدائی کے دوران یہاں سے قدیم ’زیورات، مٹی کے برتن اور پتھروں پر نقوش برآمد ہوئے تھے جن میں سے ایک پر سنسکرت زبان میں درج تھا کہ ’یہ تعمیرات اگنی ورما سدرشن نے ڈیزائن کی تھی اور اس کی تکمیل رُدرسین نامی راجہ نے کروائی تھی۔‘یہ استوپ تیسری صدی عیسوی کا مانا جاتا ہے اور اس جیسے آثارتکشیلا اور سندھ میں بھی پائے گئے ہیں۔یہاں پائی جانے والی ان قدیم اشیا کو دیکھ کر اندازہ لگایا گیا ہے کہ بدھ مت کی ترویج کے زمانے میں یہاں ایک اعلیٰ تہذیب اور فنِ تعمیر موجود تھا۔
 ڈائناسور فوسل پارک
 اراؤلی کی دھرتی صرف تاریخ تک محدود نہیں بلکہ کروڑوں سال پرانی زمین کی کہانی بھی سناتی ہے۔ ۱۹۸۰ءکی دہائی میں بالاسینور کے قریب’ریولی‘ گاؤں میں ماہرینِ آثار قدیمہ کو ڈائناسور کے فوسل ملے۔ اس دریافت نے دنیا بھر کی توجہ اس خطے پر مبذول کرادی۔
 یہاں کے’فوسل پارک‘ میں آج بھی سیاح ان قدیم جانوروں کی حقیقت کے قریب پہنچ سکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق تقریباً ۶ء۵؍ کروڑ سال پہلے اس خطے میں۱۳؍سےزیادہ اقسام کے ڈائناسور آباد تھے۔ یہاں ڈائناسور کی اصل ہڈیوں کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی پر مبنی بڑے پیمانے کی مجسمے بھی نصب ہیں۔ان میں سب سے زیادہ مشہور ڈائناسور’راجاسورَس نرمانڈینسس ہے، جسے’نرمدا کا راجہ‘کہا جاتا ہے۔ اس کے سر پر نکیلا سینگ اور بھاری جسم اسے دیگر نسلوں سے ممتاز کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ڈائنوسار گوشت خور تھا اور اس کا تعلق مشہور’ٹائرانوسورس ریکس‘ کے خاندان سے تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK