Inquilab Logo

’’نیا ہندوستان‘‘ اور فلسطین، مشترک کیا ہے؟

Updated: February 25, 2024, 5:57 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

امریکہ میں بوسٹن ساؤتھ ایشین کولیشن کے تحت منعقدہ ایک میٹنگ میں مَیں نے شرکت کی جس میں دومقررین ٹیسٹا سیتلواد اور سلیم ہلال نے بالترتیت ہندوستان اور فلسطین کے حالات پر روشنی ڈالی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

مَیں  یہ مضمون امریکہ سے لکھ رہا ہوں  جہاں  مَیں  نے یکجہتی کے موضوع پر منعقد کی گئی ایک دلچسپ میڈنگ میں  شرکت کی۔ مَیں  نے اسے دلچسپ اسلئے کہا کہ اس کے مرکزی موضوع میں  دو موضوعات کو یکجا کیا گیا۔ پہلا موضوع: جمہوری ہندوستان میں  سیکولرازم کی جدوجہد اور دوسرا موضوع: فلسطین میں  سامراجی تسلط۔ 
 بوسٹن ساؤتھ ایشین کولیشن کے زیراہتمام منعقدہ اس میٹنگ کے دو مقررین تھے: (۱) ٹیسٹا سیتلواد جن کی پہچان ایک ذہین اور جری سماجی خدمتگار کی ہے۔ وہ گجرات فسادات کے دوران انصاف کی لڑائی میں  پیش پیش تھیں ، بعد کے ادوار میں  بھی وہ حق و انصاف کی لڑائی لڑنے سے پیچھے نہیں  ہٹیں ۔ (۲) دوسرے مقرر ایک جواں  سال لبنانی سلیم ہلال تھے۔ میٹنگ کے سامعین میں  چند درجن لوگ تھے جن میں  کئی ہندوستانی نژادتھے۔ اسی وجہ سے یہ میٹنگ زیادہ دلچسپ ہو گئی تھی جس کی تفصیل آگے آئے گی۔ 
 دونوں  مقررین کی گفتگو حقائق پر مبنی تھی۔ ایک نے اپنی توجہ فرقہ وارانہ جرائم پر مرکوز رکھی جنہیں  اقتدار کی پشت پناہی حاصل تھی ، دوسرے نے اپنے اظہار خیال کو حصول آزادی کیلئے جاری قومی مزاحمت پر محیط کیا۔ دونوں  موضوعات اور ان پر ہونے والے اظہار خیال کے درمیان ایک قدر مشترک تھی جسے آپ تاریخی نظر ثانی یا تاریخ کو ازسرنو لکھنے کی کوشش سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ مَیں  ایسا اس لئے کہہ رہا ہو ں کہ وہ چاہے ’’نیا ہندوستان‘‘ ہو یا فلسطین، دونوں  میں  بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایک ہزار یا دو ہزار سال پہلے یہاں  کوئی اور رہتا تھا۔ اسی بنیادی نکتہ کے ذریعہ عوام کے خلاف تشدد یا اداروں ، ڈھانچوں  اور تاریخی عمارات کے خلاف تحریک کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ سامعین میں  تنہا مَیں  ہی نہیں  کئی دیگر لوگ بھی دونوں  ملکوں  میں  پائی جانے والی یکسانیت کو نہ صرف سمجھ رہے تھے بلکہ جب اسے بیان کیا جارہا تھا تو ہم اپنا سر ہلا رہے تھے۔ ٹیسٹا نے، جو کہ ایک اچھی دوست ہیں  ، اپنی گفتگو کو مختصر اور نپا تلا رکھا۔ مَیں  جان رہا تھا کہ سامعین میں  موجود بہت سے لوگ اس بات سے واقف نہ ہوں  گے کہ ۲۰۲۲ء میں  گجرات میں  کیا ہوا تھا۔ 
 ٹیسٹا نے اُن ۱۷۴؍ ملزمین کی بابت بتایا جنہیں  عدالت نے سزا سنائی۔ ان میں  سے ۱۲۴؍ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔یہ ذکر بھی آیا کہ اُنہیں  کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے سماجی رضاکاروں  اور زندہ بچ رہنے والوں  نے کتنی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ یہ کتنا مشکل تھا اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں  آزاد دیکھنے کیلئے ہزار جتن کئے گئے۔ اس کا سبب سوائے تعصب کے اور کیا ہے؟
 آج بھی بہت سے لوگ نہ جانتے ہونگے اور اگر اُنہیں  علم رہا ہوگا تو یہ بات ذہن سے نکل چکی ہوگی کہ انہی ملزمین کے کیسیز کو سپریم کورٹ کے حکم پر گجرات کے باہر کی عدالت میں  بھیجا گیا۔ ایسا نہ تو پہلے کسی معاملے میں  ہوا تھا نہ ہی اس کے بعد کبھی ہوا۔ 
 لبنان کے سلیم ہلال نے اپنے اظہار خیال کے دوران بتایا کہ دونوں  ملکوں  کے زمینی حالات کتنے غیر منصفانہ ہیں  اور یہ حالات پیدا کرنے یا انہیں  پروان چڑھانے کیلئے کس قدر جھوٹ کا سہارا لیا گیا۔ سلیم ہلال نے بتایا کہ فلسطین میں  جو ابتدائی بازآبادکار آئے وہ فلسطینیوں  کو ملنے والی امداد کی وجہ سے وہاں  رہ پائے بالکل اُسی طرح جیسے امریکہ میں  آنے والے ابتدائی بازآبادکاروں  کا حال تھا۔ اُنکے مطابق فلسطین میں  جو کچھ ہوتا رہا اور ہورہا ہے، اُس کے مرکز میں  کوئی مذہبی تنازع نہیں  ہے بلکہ قابض اور مقبوض کے درمیان کی رسہ کشی ہے۔ اُنہوں  نے یہ بھی بتایا کہ فلسطین کی زمین ہتھیانے کی کوشش اس غلط بیانی پر مبنی رہی کہ جن کے پاس زمین نہیں  اُنہیں  ایسی زمین پر بسایا جائیگا جو غیر آباد ہے ۔ ہلال کے بقول یہ بیانیہ کہ فلسطین کا مسئلہ پیچیدہ ہے دراصل ایک آسان حقیقت کو پیچیدہ بنانے کی کوشش ہے۔یہ نئی کالونی بنانے اور تاریخ کو ازسرنو لکھنے کی سازش ہے ۔ 
 اس میٹنگ کا ویڈیو ’’یوٹیوب‘‘ پر موجود ہے اور میں  چاہوں  گا کہ قارئین اُسے دیکھیں  اور سنیں  تاکہ بذات خود دیکھ سکیں  کہ وہاں  کیا کچھ کہا گیا اور کس طرح حالات و واقعات کا تجزیہ کیا گیا۔ اب آئیے اس سوال کی طرف کہ مَیں  نے اس میٹنگ کو دلچسپ کیوں  کہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں  رہنے والے ہندوستانی باشندے عموماً اپنی حکومت کو درست مانتے ہیں ۔ اگر ’’ہاؤڈی‘‘ جیسے پروگرام ہوں  تب بھی وہ حکومت کے ساتھ ہیں  اور حکومت اقلیتوں  کے ساتھ جو کچھ بھی کرتی ہے اُس میں  بھی اُنہیں  اعتراض نہیں  ہوتا۔ یہ بات خاص طور پر میری گجراتی برادری پر صادق آتی ہے جو اہل اقتدار کے فرقہ پرستانہ اقدام کے دفاع میں  پیش پیش رہتی ہے مگر اس تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے جو اُن لوگوں  پر مشتمل ہے جو حالیہ برسوں  کے حکومتی اقدامات سے نالاں  ہیں ۔ ایسے ہی لوگ اس میٹنگ میں  موجود تھے۔ میٹنگ میں  مَیں  نے مختصراً کہا کہ بیرون ملک مقیم ہندوستانی کیا کر سکتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے ملک میں  جمہوری عمل کو استعمال کرتے ہوئے ہندوستان میں  جو کچھ ہو رہا ہے اس پر کس طرح فعال رہیں ۔ ہندوستان میں  ۲۰۱۹ء میں  شہریت کا امتیازی قانون منظور ہونا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی بنیادی وجہ اس کے خلاف احتجاج تھا۔ لیکن ایک اور وجہ یورپی پارلیمنٹ کی طرف سے اس کے خلاف لیا گیا مذمتی موقف تھا۔ 
 حیرت ہوتی ہے کہ ایسا کیوں  تھا کہ دور دراز علاقوں  کے ممبران پارلیمنٹ اس بات میں  دلچسپی لیں  گے جسے ہم اپنے ’اندرونی معاملات‘ سمجھتے ہیں  لیکن یہ واضح ہے کہ ایسا اس لئے ہوا کہ بیرون ملک ہندوستانی اپنے مقامی قانون ساز کے ساتھ قانون کی بالادستی کیلئے کافی فکر مند تھے۔ ہندوستان انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ اور شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کنندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دوست ہمیں  اپنی حقیقت یاد دلاتے ہیں ۔ نتیجتاً ایسا ہونے کا زیادہ امکان ہے کہ بیرون ملک مقیم ہندوستانی مقامی سطح پر زیادہ فعال رہیں  اور باتوں  کو سمجھیں ، اور یہ جانیں  کہ ہندوستان میں  دراصل کیا ہورہا ہے۔ 
 یکجہتی نہ صرف اس لئے ضروری ہے کہ بحیثیت انسان ہمیں  دوسروں  کے دکھ درد کو سمجھنا چاہئے بلکہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس طرح کی شرکت ہمارا فرض ہے۔
 آئین کی تمہید کہتی ہے کہ ہم ہندوستانیوں  نے ہندوستانیوں  کیلئے `بھائی چارے، فرد کے وقار کو یقینی بنانے کا عزم کیا ہے۔ بھائی چارہ اسی وقت آسکتا ہے جب ہم ایک دوسرے کیلئے کھڑے ہوں ۔
 بوسٹن ساؤتھ ایشین کولیشن کے مقامی افراد (بیرون ملک مقیم ہندوستانی) دراصل ایسا ہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK