اوڈوپی میں مسلمانوں نے گزشتہ دن نماز جمعہ کے بعد انسانی زنجیر بنا کر وقف ترمیمی ایکٹ ۲۰۲۵ء کے خلاف مظاہرہ کیا۔
EPAPER
Updated: July 05, 2025, 7:04 PM IST | Udupi
اوڈوپی میں مسلمانوں نے گزشتہ دن نماز جمعہ کے بعد انسانی زنجیر بنا کر وقف ترمیمی ایکٹ ۲۰۲۵ء کے خلاف مظاہرہ کیا۔
اڈوپی میں مسلمانوں نے وقف ترمیمی ایکٹ ۲۰۲۵ء کے خلاف جمعہ کو انسانی زنجیر بنا کر مظاہرہ کیا، جس میں مرکزی حکومت سے حالیہ ترامیم کو واپس لینے کی اپیل کی گئی۔ یہ زنجیر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ملک گیر مظاہرہ کا حصہ تھی۔ اُوڈوپی جامع مسجد اور اُوڈوپی انجمن مسجد کے مشترکہ طور پر منعقد ہونے والے اس مظاہرے نے شرکاء کی ایک بڑی بھیڑ کو اپنی طرف متوجہ کیا جو جمعہ کی نماز کے بعد نئے قانون کی سخت مخالفت کا اظہار کرنے کے لیے جمع ہوئے۔’’وقف کا دفاع، دین کا دفاع کریں‘‘، ’’وقف کی سیاست کرنا بند کرو‘‘ اور ’’بھارت وقف ترمیمی ایکٹ کو مسترد کرتا ہے‘‘ جیسے پیغامات والے پلے کارڈز اٹھائے مظاہرین نے اوڈوپی میں جامع مسجد اور انجمن مسجد کے قریب انسانی زنجیریں بنائیں۔ اسی طرح کے مظاہرے برہماگیری، نیئر کیرے، کولمبے، نیجر اور ہوڈے میں بھی کئے گئے، جو ترمیم کے خلاف وسیع پیمانے پر اختلاف کو ظاہر کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ کہ وقف (ترمیمی) بل ۲۰۲۵ء، جس کا مقصد وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء میں ترمیم کرنا تھا، گرما گرم بحث کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کر لیا گیا ہے۔ راجیہ سبھا میں بل کے حق میں ۱۲۸؍ اور مخالفت میں ۹۵؍ ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اگلے دن کی صبح لوک سبھا میں اسے منظور کیا گیا۔ یہاں ۲۸۸؍ ارکان نے اس کی حمایت کی اور ۲۳۲؍ نے مخالفت کی۔ اس ایکٹ نے پورے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کو جنم دیا ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں اور اپوزیشن گروپوں کے خدشات ہیں جو اسے امتیازی اور مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھتے ہیں۔اپوزیشن جماعتوں اور مسلم تنظیموں نے اس ایکٹ پر تنقید کرتے ہوئے اسے غیر آئینی اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔
وقف (ترمیمی) ایکٹ ۲۰۲۵ء کے آئینی جواز کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں کئی عرضیاں دائر کی گئی ہیں۔ درخواست گزاروں میں سیاسی جماعتیں جیسے کانگریس، اے آئی ایم آئی ایم، آئی یو ایم ایل، ڈی ایم کے، سی پی آئی، سی پی ایم، عام آدمی پارٹی، وائی ایس آر سی پی، اور تاملگا ویٹری کزگم، آل انڈیا مسلم تنظیم کے سربراہ اور مسلم قانون ساز بورڈ کے ساتھ جماعت اسلامی ہند، اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) بھی شامل ہیں۔