Inquilab Logo Happiest Places to Work

’الیکشن کمیشن کا کام شہریت کی سند دینا نہیں‘

Updated: July 07, 2025, 10:56 AM IST | Agency | Patna

سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسانے بھی بہار میں ووٹرس سےشہریت کا ثبوت مانگنے پر تنقید کی، مہوا موئترا اور یوگیندر یادو بھی کورٹ پہنچے۔

Former Election Commissioner Lavasa, who has questioned the Election Commission`s decision. Photo: INN
سابق الیکشن کمشنر لواسا جنہوں الیکشن کمیشن کےفیصلے پر سوال اٹھایا ہے۔ تصویر: آئی این این

بہار میں عین الیکشن سے چند ماہ قبل انتخابی فہرست پر ’’خصوصی گہری نظر ثانی‘‘ کے الیکشن کمیشن کے فیصلے اور ۲۰۰۳ء کے بعد رجسٹرڈ ہونےوالےتمام ووٹروں سے شہریت کا ثبوت طلب کئے جانے پر تنقیدوں   کے بیچ سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسا نےبھی کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا کام شہریت کا سرٹیفکیٹ بانٹنانہیں ہے۔ واضح رہے کہ ۲۰۰۳ء کےبعد تمام ووٹرس سے جس طرح کے دستاویز الیکشن کمیشن نےطلب کئے ہیں اور صرف ایک ماہ کا وقت دیا ہے اس کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ لاکھوں  افراد اپنےحق رائے دہی سےمحروم ہوجائیں گے۔ اس کے خلاف عدالتی لڑائی بھی شروع ہوگئی ہے۔ اے ڈی آر کے بعد مہوا موئترا اور یوگیندر یادو نےبھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے جبکہ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو ہائی کورٹ پہنچے ہیں۔ 
شہریت کی سند دیناحکومت کی ذمہ داری
  سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسا نے جنوبی ہند سے شائع ہونےوالےمعروف انگریزی اخبار ’دی نیو انڈین ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سٹیزن شپ ایکٹ کی رو سے یہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ شہریت کا کسی بھی قسم کا کارڈ یا سرٹیفکیٹ جاری کرے۔ انہوں  نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہےا وراس کا کام صرف اور صرف الیکشن کا انعقاد اوراس کی نگرانی ہے۔ الیکشن کمیشن نے بہار میں  انتخابی فہرست کی نظر ثانی کیلئے ۲۴؍ جون کو جاری کی گئی ہدایت میں آئین کے آرٹیکل ۳۲۶؍ کا حوالہ دیا ہے جو کہتا ہے کہ ’’انتخابی فہرست میں نام کے اندراج کیلئے کسی بھی شخص کا ہندوستانی شہری ہونا لازمی ہے۔ اس لئے الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ووٹر لسٹ میں  صرف ان لوگوں  کے نام ہوں  جو شہری ہیں۔ ‘‘اس پر اشوک لواسا نے سوال کیا کہ’’اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا اب تک جو نام انتخابی فہرست میں  رہے ہیں وہ آرٹیکل ۳۲۶؍ کے مطابق نہیں  ہیں ؟‘‘
الیکشن کمیشن کی دلیل اطمینان بخش نہیں 
 سابق الیکشن کمشنر نے زور دے کر کہا کہ ’’گزشتہ ۷؍دہائیوں سے ایک نظم ہے جس کے تحت بطور ووٹر لوگوں  کا اندراج ہورہاہے۔ آج تک کبھی کسی نے بالخصوص الیکشن کمیشن نے، یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ عمل کسی موجودہ قانون کے منافی ہے لہٰذا آج آرٹیکل۳۲۶؍کا حوالہ دینا اطمینان بخش نہیں لگتا۔ ‘‘واضح رہے کہ ۲۰۰۳ء کے بعد سے ۵؍ پارلیمانی اور ۵؍ اسمبلی الیکشن ہوچکے ہیں۔ ان میں   ووٹ دینےوالوں سےکہا جا رہا ہے کہ اگر ووٹر لسٹ میں اپنا نام برقراررکھنا ہے تو اس بات کا ثبوت پیش کریں  کہ وہ ہندوستانی شہری ہیں۔ اس کیلئے ان سے والدین کی تاریخ اور جائے پیدائش کا ثبوت بھی طلب کیا گیاہے۔ لواسا نے کہا کہ ’’جن کا نام پہلے ہی ضابطہ کی پیروی کے بعد ووٹر لسٹ میں  شامل کیا جاچکاہے، اب ان سے دستاویز مانگنا اور وہ بھی اس انتباہ کے ساتھ کہ ان کا نام حذف ہوسکتاہے، مناسب نہیں ہے۔ ‘‘
سپریم کورٹ میں مزید کئی پٹیشن
  غیر سرکاری تنظیم اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائٹس (اے ڈی آر) کے بعد پبلک یونین فار سول لبرٹیز، رکن پارلیمان مہوا موئترا اور سماجی کارکن یوگیند یادو نےبھی سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ مہوا موئترا نے نہ صرف بہار میں انتخابی فہرست پر اس طرح کی نظر ثانی پر فوراً روک لگانے کی مانگ کی ہے بلکہ بنگال اور دیگر ریاستوں  میں   بھی ایسے کسی بھی عمل کے خلاف پیشگی حکم امتناعی کی اپیل کی ہے۔ 
بہار میں ۹۳ء۲؍ کروڑ ووٹرمتاثر
  الیکشن کمیشن کےحکم سے ۲۰۰۳ء کےبعد بطور ووٹر رجسٹر ہونےوالے ۲ء۹۳؍کروڑ افراد متاثر ہیں۔ انہیں نہ صرف یہ ثابت کرنا ہےکہ وہ ہندوستان میں  پیدا ہوئے بلکہ ۱۹۸۷ء سے ۲۰۰۴ء کے درمیان پیدا ہونےوالوں کواپنے والدین میں   سے کسی ایک کے ہندوستانی ہونے کا ثبوت دینا ہے جبکہ ۲۰۰۴ء کے بعد پیدا ہونے والوں  کیلئے لازمی ہے کہ وہ ماں  اور باپ دونوں  کے ہندوستانی ہونےکا ثبوت پیش کریں  ۔ اس کیلئے انہیں   ایسے دستاویز پیش کرنے ہیں جن سے تاریخ اور جائے پیدائش ثابت ہوتی ہو۔ کمیشن آدھار کارڈ، راشن کارڈاور الیکشن شناختی کارڈ قابل قبول نہیں ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK