Inquilab Logo

؍ ۸۷؍ سالہ محمد شبیراس عمرمیں بھی مستعدہیں، اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا رہےہیں

Updated: October 24, 2021, 12:23 PM IST | Saadat Khan

ان کا خاندان تقریباً ۱۳۰؍ سال سے پائیدھونی میں واقع جامع مسجد بلڈنگ میں قیام پزیر ہے،ریلوے یونینوں میں وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، وہ سماجی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں

 Muhammad Shabbir Tangekar  .Picture:INN
محمد شبیر تنگیکر۔ تصویر: آئی این این

ان کی زندگی کے واقعات جاننے کیلئے انقلاب نے محمد شبیر تنگیکر سے خصوصی بات چیت کی
 وہ کہتے ہیں کہ ’’۱۹۴۶ء میں جب میری عمر ۹؍سال تھی، اور میں احمد سیلراسکول میں زیر تعلیم تھا، اس وقت اسکول کی فیس ۵؍تا ۷؍روپے ماہانہ تھی،اس دورمیں ۵؍روپے فیس بھی بہت تھی۔ میرے والد جامع مسجد میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کی تنخواہ ۱۸۰؍ رو پے تھی ۔ہم ۵؍بھائی اور ایک بہن تھی۔ ۱۸۰؍ روپے میں سے ۳۰؍تا ۳۵؍روپے بھائی بہنوں کی فیس پر ہر ماہ خر چ ہوتے تھے۔بقیہ ۱۳۰؍ روپےمیں گھر کے اخراجات پورے کرنےمیں دقت ہوتی تھی اسلئے میرے والد نل بازار کی ایک مسجد، ماہم درگاہ اور ایک جگہ پارٹ ٹائم کام کرتے تھے۔ ان تینوں جگہوں سے انہیں اضافی ۱۰۰؍ روپے مل جاتےتھے۔ والدکی جانفشانی کے بارےمیںسوچتا ہوںتو اب بھی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں۔‘‘  انہوں نے ایک واقعہ بتایا کہ۱۹۴۴ءمیں بیلارڈ پیئر پر ایک برطانوی جہاز آیاتھا۔ جنگ کا دور تھا۔ اکثر بلیک آئوٹ کردیاجاتاتھا۔ برطانوی فو ج سڑک پر گشت کرتی تھی۔ باردو سے بھر ے مذکورہ جہاز میں زبردست دھماکہ ہوا تھا۔ ہمارے محلے میں بارود کے گولے آکر گرے تھے۔ پڑوس میں ایک خاتون اپنے ۱۰؍ماہ کو بچے کو دودھ پلارہی تھی۔ دھماکے کی آواز سے اس کا بچہ گود سے گر گیاتھا۔ وہ بچہ اب بھی حیات سے ہے لیکن مسجداسٹریٹ راکھ ہوگئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اسی دور میں ہمارے محلے کے علاوہ شہر کے دیگر علاقوںمیں صبح کے وقت بلدیہ والے جھاڑوں لگانے کے ساتھ بیل گاڑی پر پانی کی ٹانکی لے کر آتے تھے اور پائپ سے سڑک کی دھلائی کی جاتی تھی۔ شہر میں اسٹریٹ لائٹ کے بجائےگیس کے فانوس لگے تھے۔ روزانہ مغرب سے قبل ایک شخص ہاتھ میں لمبی لکڑی لئے آتا۔ لکڑی سے فانوس روشن کرتااور صبح آکر اسے بندکردیتا۔‘‘ انہوں نے الیکٹرک ٹرام کا بھی دور دیکھا ہے۔ جب فل ٹکٹ کی قیمت ایک آنا اور بچے کی ٹکٹ کی ۲؍ پیسے تھی۔یہ ٹرام پٹے پر چلتی تھی۔ اس زمانےمیں ۴؍ڈبوں کی لوکل ٹرین ہواکرتی تھی جو چرچ گیٹ کے بجائے قلابہ سے اندھیری اور بوریولی کے درمیان چلائی جاتی تھی۔ 
 محمد بشیر نے منیش مارکیٹ کے متعلق بتایا کہ ۱۹۴۶ء میں وہاں ریڈیو سنیمانامی ایک میمن کا تھیٹر تھا۔ہر جمعہ کو اس میں پرانی ہند ی فلم لگتی تھی۔ جمعہ کو دوپہر کے ۳؍بجے کا شو طلبہ اور خواتین کیلئے مختص تھا۔ طلبہ کیلئے ۳؍آنا اور خواتین کیلئے ۵؍ آنا ٹکٹ کادام تھا۔ اس دور میں دادا ،اسکول جاتے وقت ایک آنا دیتے تھے۔ ہفتہ بھر میں جو پیسہ کھانے پینے کے بعد بچتا تھا ۔ا ن پیسوں سے ہم جمعہ کو ریڈیو سنیما میں فلم دیکھتے تھے۔
 اس دور کی شادیوں کے متعلق انہوں نے کہا کہ کوئی بھی شادی ہال میں نہیں بلکہ محلوںمیں ہواکرتی تھی۔ منڈپ باند ھ دیئے جاتے تھے۔ کرسیاں سجادی جاتی تھیں۔ پہلے صف میں بزرگوں کوبٹھایاجاتاتھا۔ نکاح کےبعدمہمانوںکو شربت پھر وہیں پر طعام کا اعلان کیاجاتا تھا، اور ایک کرسی پر بڑا تھالا رکھ دیاجاتا۔ اس دور میںغریب اور امیر دونوںکی شادی میں ایک ہی قسم کا کھاناکھلایاجاتاتھا ۔ بریانی، کچومر اور زردہ سے مہمانوںکی خاطر کی جاتی تھی۔ اس وقت ممبئی کے اسلام پورہ میں غلام محمد منصوری نامی باورچی کی بریانی کافی مقبول تھی۔
 ان کی زندگی کا ایک ناقابل فراموش اور اہم واقعہ یہ ہے:
 میری ایک بیٹی ہے جوجیٹ ایئر ویز میں برسرروزگار ہے۔ اس سے قبل وہ راج ٹراویل میں ملازمت کیاکرتی تھی۔ ۲۰۰۳ء میں اس نےکہاکہ ابامیں عمرہ کرنا چاہتی ہوں۔ دیکھتی ہوں ٹکٹ کا کوئی انتظام ہوتاہے کیا۔ ایک دن راج ٹراویل کے مالک للت سیٹھ نے بیٹی سے یو نہی پوچھ لیاکہ تم کہیں تفریح کیلئے جانا پسندکرو گی، بیٹی نے کہاکہ میں عمرہ کرنے کیلئے مکہ جانا چاہتی ہوں۔ للت سیٹھ نے اسی وقت اپنے پی اےکو بلایااورکہاکہ انہیں عمرہ کے ۳؍پاس دے دو تاکہ یہ اپنے والدین کے ساتھ عمرہ کیلئے جا سکے۔ بیٹی نے شام کو گھر آکر بتایاکہ ابا، عمرہ کرنےکیلئے آفس سے مجھے جدہ جانے کا ۳؍پاس ملا ہے۔میں نے حیران ہوکر پوچھا پاس تو ٹھیک ہے مگر ویزاکیسے ملے گا۔ خیال آیاکہ ہماری بلڈنگ کی دوسری منزل پر سعودی کونسل میں کام کرنےوالے سید علی نذیر رہاکرتے تھے۔ ان سےبات کی گئی۔ انہوںنے دوسرے دن ہماراویزا لگا دیا۔ اس طرح ۳؍دنوںمیں،میں اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ عمرہ کیلئے روانہ ہوگیا۔ 
 ۱۹۶۵ءمیں ہندوستان اور چین کی جنگ ہوئی تھی جس کے تعلق سے پنڈت جواہر لال نہرو نے بریبورن اسٹیڈیم (چر چ گیٹ) میں ایک پروگرام منعقد کیا تھا۔ اس کے انتظام کی ذمہ داری فلم ڈائریکٹر محبو ب کو سونپی گئی تھی۔ موسیقارنوشاد بھی وہاںموجودتھے۔ یہاں پر لتا منگیشکر نے شکیل بدایونی کالکھا ہوا جوگاناگایاتھا ، اس کے بول تو یاد نہیں ہیں لیکن گانا سن کر اسٹیڈیم میں موجود تقریباً ۸۰؍ہزار لوگ روپڑے تھے۔ اس منظر کو میں اب تک نہیں بھلاسکاہوں۔۵؍روپے کی ٹکٹ لے کر میں بھی اس پروگرام میں گیاتھا۔
  اس عمرمیں مستعدی کی وجہ دریافت کرنے پر بشیر تنگیکر نے بتایا کہ ’’ الحمدللہ میں عبادت گزارہوں۔ تہجد کی نماز گزشتہ ۳۰؍ سال سے پابندی سے پڑھ رہاہوں۔ تراویح بھی سب کے ساتھ کھڑاہوکر پڑھتاہوں۔ روزانہ ۲؍تا۳؍ کلومیٹر پیدل چلتاہوں۔ خوراک پر بہت کنٹرول ہے۔یہی میری مستعدی کا راز ہے۔‘‘ نوجوانوںکیلئے ان کا پیغام ہے کہ ’’والدین کی دعائیں لیں۔ اللہ کی عبادت میں اپنا وقت گزاریں۔‘‘محمد شبیر تنگیکر کا مختصر تعارف
 ممبئی کے پائیدھونی ، قاضی اسٹریٹ میں۷ ؍ نومبر ۱۹۳۵ء کو پیدا ہونے والے ۸۷؍ سالہ محمد بشیر تنگیکر اس ضعیفی میں بھی اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں، سماجی ،ملی اور گھریلو ذمہ داریوں کو پورا کررہے ہیں۔ ان کا خاندان تقریباً ۱۳۰؍ سال سے متذکرہ محلے میںواقع جامع مسجد بلڈنگ میں قیام پزیر ہے۔ ابتدائی تعلیم اسی علاقےکی محمدیہ اُردو میڈیم اسکول سے حاصل کی بعدازیں ناگپاڑہ کی احمد سیلر اسکول سے ۱۹۵۳ءمیں میٹرک کرنےکےبعد سدھارتھ کالج فورٹ سے انٹر ( آرٹس )کیا۔ اس کے بعد بامبے پورٹ ٹرسٹ میں بطور کلرک ملازمت اختیار کی۔ ۶؍ مہینے بعد ریلوے پبلک سروس کمیشن میں قسمت آزمانے کا موقع ملا۔ تقدیر نے ساتھ دیا، ریلوےمیں بطور کمرشیل کلرک ملازمت مل گئی۔ مئی ۱۹۵۶ء میں ریلوے جوائن کیا۔ ایک سال کی ملازمت کے بعد وہ ویسٹرن ریلوے ایمپلائز یونین بعدازیں ریلوے مزدور سنگھ سے منسلک ہوئے۔ ان یونین میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے ساتھ ہی دہلی نیشنل فیڈریشن آف ریلوے مین کے ورکنگ کمیٹی کے ممبر ہونے کا بھی اعزاز انہیں حاصل ہوا۔وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوچکےہیں اس کے باوجود یونین سے ان کا رشتہ برقرار ہے۔ وہ وقتاً فوقتاممبئی سینٹر ل اسٹیشن کے قریب واقع یونین کے دفتر جاتےہیں۔ محمد بشیر تنگیکر جامع مسجد ٹرسٹ کے اہم عہدوںپر فائز رہ چکےہیں۔ کوکنی مسلم ویلفیئر اسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے سماجی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتےہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK