یہ تہران کی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے نہ صرف تل ابیب کو دندان شکن جواب دیا بلکہ امریکہ کو جو خود کو ’’سپرپاور‘‘ کہتاہے، اس بات کیلئے مجبور کیا کہ وہ ایرانی حملوں کا سامنا کرے اورکسی جواب الجواب میں پڑے بغیر امن کا راستہ اختیار کرے۔
EPAPER
Updated: June 29, 2025, 2:23 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
یہ تہران کی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے نہ صرف تل ابیب کو دندان شکن جواب دیا بلکہ امریکہ کو جو خود کو ’’سپرپاور‘‘ کہتاہے، اس بات کیلئے مجبور کیا کہ وہ ایرانی حملوں کا سامنا کرے اورکسی جواب الجواب میں پڑے بغیر امن کا راستہ اختیار کرے۔
ایران پراسرائیل نے جس طرح ۱۳؍ جون کو اچانک بلا اشتعال حملے شروع کئے، بالکل اسی طرح جنگ بندی کے کسی باقاعدہ معاہدہ یا کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ۲۴؍ جون کی صبح یکطرفہ طور پر حملے بند بھی کر دیئے۔ کم از کم ایران کا یہی دعویٰ ہے اور اسرائیل نے اس کی تردید بھی نہیں کی۔ یعنی یہ جنگ جو اسرائیل نے شروع کی تھی، اسرائیل کو ہی ختم کرنی پڑی، وہ بھی کسی معاہدہ اور کسی کاغذ پر دستخط یا کسی یقین دہانی کے بغیر۔ جو منظر نامہ سامنے اور بہت واضح ہے اس کے مطابق نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے جنگ بندکروانے کی خواہش ظاہر کی، ٹرمپ نے اپنے اتحادی ملک قطر کے ذمہ داران سے رابطہ کیا، انہوں نے تہران میں ایرانی قائدین تک پیغام پہنچایا، تہران نے وہی موقف اختیار کیا جو روز اول سے تھا کہ اگر اسرائیل حملے نہیں کریگا تو جواب نہیں دیا جائے گا، حملے بند ہوئے اور جوابی حملے بھی بند ہوگئے، یعنی جنگ بند ہوگئی۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے اگر خودہی جنگ بند کی ہے تو کیا ۱۲؍ دنوں کی لڑائی میں اس نے اپنے مقاصد حاصل کرلئے؟ اس کا جواب اثبات میں قطعی نہیں ہے۔ ایران کے خلاف جنگ کے آغاز میں نیتن یاہو نے اس کا مقصد تہران کے نیوکلیائی پروگرام کا خاتمہ بتایاتھا جبکہ حملے کےبعد ایران میں اقتدار کی تبدیلی کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔ یعنی جنگ کا بنیادی مقصد ایران کے نیوکلیائی پروگرام کا خاتمہ اور جزوی مقصد ایران میں اقتدار کی تبدیلی تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے نیوکلیائی پروگرام کو ختم کرنے کی اسرائیل میں کتنی صلاحیت تھی اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنگ شروع کرنے کے دوسرے ہی دن سے نیتن یاہو نے ٹرمپ سے منت سماجت شروع کردی کہ وہ ایران کے خلاف چھیڑی گئی اسرائیل کی یکطرفہ جنگ میں اس کی طرف سے شامل ہوجائیں۔ امریکہ باقاعدہ جنگ میں شامل تو نہیں ہوا مگریہ دیکھنے کے بعد کہ جنگ میں ایران اسرائیل کی تمام تر فضائی بالا دستی کے باوجود اس کی اینٹ سے اینٹ بجا رہاہے، بندرگاہی شہر حیفا کھنڈر میں تبدیل ہورہاہے اور دارالحکومت تل ابیب بھی محفوظ نہیں ، اس نے دنیا کے سب سے طاقتور بنکر بسٹر بم ایران کے نیوکلیائی ٹھکانوں پر برسادیئے۔ اس کے بعد یہ دعویٰ بھی کیا کہ ایران کا نیوکلیائی پروگرام تباہ و برباد ہو چکاہے۔ مقصد واضح طور پر جنگ کے خاتمے کا جواز پیدا کرنا اوراسرائیل کو اس دلدل سے نکالنا تھا جس میں وہ خود اپنی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے کود پڑا تھا۔ یعنی جب ایران کا نیوکلیائی پروگرام ہی تباہ ہوگیا اور جنگ کا ’’بنیادی مقصد حاصل ہوگیا ‘‘ توپھر جنگ کو جاری رکھنے کی ضرورت ہی کیا رہ گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ خود امریکہ کے محکمہ دفاع کی انٹیلی جنس رپورٹ نے اس دعوے کی یہ کہہ کر قلعی کھول دی کہ ان حملوں سے ایران کا نیوکلیائی پروگرام بمشکل ۲؍ مہینے پیچھے دھکیلا جاسکا ہے۔ عالم یہ ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد ایران اپنےنیوکلیائی پروگرام کو ایک بار پھر بحال کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ یعنی پہلا مقصد حاصل کرنے میں نیتن یاہو امریکہ کی مدد ملنے کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکے۔
دوسرا ہدف ایران میں اقتدار کی تبدیلی تھا۔ اس کیلئے اسرائیلی وزیراعظم نے ایرانی عوام کو ورغلانے کی بھر پور کوشش کی، ان کے نام ویڈیو پیغام جاری کئے اورجس جیل میں سیاسی مخالفین قید ہیں، اس جیل کے داخلی دروازے کو نشانہ بنایا تاکہ قیدی(حکومت مخالف سیاسی لیڈر) فرار ہوکر حکومت کے خلاف مہم چلائیں اور اسرائیلی حملوں کا فائدہ اٹھا کر تہران میں تختہ پلٹ کردیں۔ یہ داؤ بھی تل ابیب پر ہی اُلٹاپڑ گیا کیوں کہ اپوزیشن سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح حکومت کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ حکومت کے ناقدین نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ اگر وہ اقتدار کی تبدیلی چاہتے بھی ہیں تو اس کیلئے بیرونی طاقت کی مدد قطعی نہیں لیں گے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ایران پہلے سے زیادہ متحد ہے۔ یعنی اسرائیل دوسرا مقصد حاصل کرنے میں بھی بری طرح ناکام ثابت ہوا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی فضائی بالادستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل ایران پر شدید بمباری اور۶۰۰؍سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے میں کامیاب رہا مگر اس کےمدمقابل وہ ملک تھا جو کم از کم ۲؍ دہائی سے عالمی پابندیوں سے جوجھ رہا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ’سپرپاور‘ امریکہ کی پشت پناہی والے خطےکی اس سب سے بڑی فوجی طاقت کےآگے ایک دن بھی نہ ٹک پاتا مگر اس کے برخلاف ایران نے اسرائیل کو دندان شکن جواب دیا اور صہیونی ریاست میں ایسی تباہی مچائی کہ نیتن یاہو جنگ بندی سے ۲؍ روز قبل یہ کہنے پر مجبورہوگیا کہ اسرائیل ایران کے ساتھ ’طویل اور تھکادینے والی جنگ میں نہیں پڑنا‘ چاہتا۔
مجموعی طور پر ایران پر حملہ کرکے اسرائیل نےاپنے پیر پر کلہاڑی مار لی تھی۔ ایران پر اس کے حملوں سےزیادہ عالمی توجہ کا مرکز ایران کی جانب سے داغی جانے والی وہ میزائلیں تھیں جنہیں روکنے میں اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام ناکام رہا۔ یہ بات خود اسرائیلی اخبار لکھنے پر مجبورہوئے کہ اسرائیل کے شہر غزہ جیسے مناظر پیش کررہے ہیں۔ یعنی بیانیہ کی جنگ میں بھی اسرائیل پر ایران ہی حاوی رہا۔ جنگ کے نتیجے میں ایک طرف جہاں تہران نے خطے کی ایک اہم طاقت کے طور پر اپنالوہا منوالیا وہیں تل ابیب کی’’ناقابل تسخیر‘‘ والی وہ شبیہ بری طرح متاثر ہوگئی جو دہائیوں کی محنت سےبنائی گئی تھی۔ اس نےنہ صرف اپنی مٹی پلیدکرلی بلکہ امریکہ کو بھی ذلیل و خوار کردیا کیوں کہ ایران نے امریکہ کی تمام تر دھمکیوں کے باوجود اپنے نیوکلیائی ٹھکانوں پر اس کے حملے کا انتقام ضرور لیا۔
فوجی طاقت کے لحاظ سے دیکھیں تویہ ممولے اور شہباز کا مقابلہ تھا۔ تل ایب نے بحرین، عراق اور قطر میں امریکی فوجی ٹھکانوں پر حملے کرکے یہ باور کرا دیا کہ تہران امریکہ کو ’’سپر پاور‘‘ تسلیم نہیں کرتا اور جوابی حملے کا نہ صرف حق رکھتا ہے بلکہ اس حق کو استعمال کرنے کی جرأت بھی رکھتا ہے۔ ۲۳؍ جون کی رات جب ایران نے آپریشن ’بشائر الفتح‘ (فتح کی نوید) کے تحت مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا اور باالخصوص دوحہ کے قریب العدید ہوائی اڈے پر حملہ کیا جو خطے میں واشنگٹن کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے، تو ایسا لگا کہ اب جنگ بھیانک رُخ اختیار کرلے گی۔ یہ اندیشہ بلا وجہ نہیں تھا۔ ٹرمپ اور ان کے نائبین نے ایران کے فوجی اڈوں پر دنیا کے طاقتور ترین بم برسانےکے بعد ایک سے زائد بار دھمکی دی تھی کہ اس کے جواب میں ایران کے پاس صرف امن کا راستہ ہے، اگر وہ کسی جوابی کارروائی کی جرأت کرتا ہے تو تہران کو اس سے بھی شدید حملوں کا سامنا کرنا پڑےگا۔ مگر حیرت انگیز طورپر جوابی حملوں کے بعد ایران کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔
سفارتی حلقوں میں یہ بات گشت کررہی ہے کہ ایران کے جوابی حملے ’میچ فکسنگ‘ تھے جو ٹرمپ انتظامیہ کو اعتماد میں لے کرکئے گئے، اگرا یسا ہے اور گمان غالب ہے کہ ایسا ہی ہے، تب بھی یہ تہران کی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے امریکہ کو جو اِس وقت خودکو تنہا’سپرپاور‘ قرار دیتاہے، اس بات کیلئے مجبور کیا کہ وہ ایرانی حملوں کا سامنا کرے اورکسی جواب الجواب میں پڑے بغیر امن کا راستہ اختیار کرے۔
اسرائیل کیا شاید امریکہ نےبھی تہران کی جانب سے ایسے جواب کی امید نہیں کی ہوگی جیسا جواب دیاگیا۔ عالم یہ ہے کہ تہران کے تیور وہی ہیں جو کل تھے۔ اسرائیلی حملوں کا سامنا کرتے ہوئے اس نے نہ صرف تل ابیب کے دانت کھٹے کر دیئے بلکہ پوری دنیا اور بطور خاص عرب ممالک کے سامنے یہ حقیقت بھی کھول کر رکھ دی کہ خود کو مشر ق وسطیٰ کا ’سپر پاور‘ بنا کر پیش کرنے والا تل ابیب کتنا کمزور ہے۔ اس کا مشہور زمانہ فضائی دفاعی نظام ’آئرن ڈوم ‘ جس کے تعلق سے پوری دنیا کو برسوں سے تاثر دیکر رکھا گیا تھا کہ اسرائیلی فضاؤں پر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، ایرانی میزائلوں کے سامنے نہ صرف بے بس تھا بلکہ کئی موقعوں پر اس قدر بوکھلایاکہ خود اپنے آپ پر ہی حملے کرتا نظرآیا۔ ایران کے خلاف محاذ کھولنے کے ۲؍ دن بعد ہی اسرائیل کا امریکہ کو مدد کیلئے پکارنا اس بات پر مہر لگادیتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اس کا وجود امریکہ اور مغرب کی حمایت کے مرہونِ منت ہے۔ لیکن اب حالات بدل رہےہیں اور یہ جنگ اس حوالہ سے سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر باریکی سے نگاہ رکھنے والی برطانوی مصنفہ سمیہ غنوشی کے لفظوں میں کہیں تو’’اسرائیل امریکہ کےبغیر نہیں جیت سکتا اور اب امریکہ کیلئے اسرائیل کے ساتھ مزید جیتنا آسان نہیں رہ گیا۔ ‘‘