ہیمنت کرکرے، گلاب رائو پول اور وی این جادھو جیسے اعلیٰ پولیس افسران سمیت سیکڑوں پولیس اہلکاروں کو اردو سکھائی۔
EPAPER
Updated: August 11, 2025, 4:53 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
ہیمنت کرکرے، گلاب رائو پول اور وی این جادھو جیسے اعلیٰ پولیس افسران سمیت سیکڑوں پولیس اہلکاروں کو اردو سکھائی۔
شہرِ ادب بھیونڈی کے بزرگ اور قادر الکلام شاعر شاکر ادیبی محتاجِ تعارف نہیں ہیں۔ وہ اپنے پُر مغز کلام اور کلاسیکی شعری روایت کی پاسداری کی وجہ سے پورے ملک میں جانے پہچانے گئے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں نئے نئے خیالات، نئے نئے موضوعات و امکانات کی عکس بندی کچھ اس طریقے سے کی کہ مطالعہ کے بعد قاری کے منہ سے واہ نکل جاتی ہے۔ انہوں نے حضرت ادیب مالیگانوی سے شرف تلمذ حاصل کیا اور اسی وجہ سے اپنے تخلص میں ادیبی کا استعمال کرتے رہے۔ انہوں نے تقریباً ۶؍ دہائیوں تک گیسوئے شعر و ادب کو سنوارنے کی سعی کی۔ چند روز قبل ہی انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ یہ کالم ان کی شعر و شاعری پر گفتگو، نئی تحقیق یا اس پر تنقید کے لئے نہیں ہے۔ یہ کام تو ہمارے محققین، شعراء اور ادیب کردیں گے بلکہ یہ کالم شاکر ادیبی کی اس خدمت کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ہے جس کے ذریعے انہوں نے اردو زبان کی بے لوث خدمت کی۔ جی ہاں ! انہوں نے بھیونڈی شہر میں صرف شعر و شاعری یا درس و تدریس ہی انجام نہیں دی بلکہ اردو کے فروغ کے لئے تن من دھن سے نچھاور ہو گئے۔ انہوں نے بھیونڈی میں فائز ہونے والے تقریباً ہر اعلیٰ پولیس افسر سمیت متعدد پولیس افسران اور اہلکاروں کو اردو سکھائی۔ ان کی یہ خدمت اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ انہوں نے صرف زبان ہی نہیں سکھائی بلکہ اس زبان کو بولنے والوں کی پولیس محکمے میں ترجمانی بھی کی اور وہ غلط فہمیاں بھی دور کرنے کی کوشش کی جو دونوں طرف در آتی ہیں۔
شاکر ادیبی صاحب کی اس خدمت کے بارے میں معروف معلم، ادیب و شاعر اور انشائیہ نگار محمد رفیع انصاری نے بتایا کہ’’ شاکرؔ ادیبی اردو کے ایک بلند قامت شاعر ہی نہیں بلکہ اردو کے ایک باخبر سفیر بھی تھے۔ محبت کی اس زبان کو انہوں نے جس پیار سے قانون کے رکھوالوں اور برادرانِ وطن تک پہنچایاوہ کسی کارنامے سے کم نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق انہوں نے بھیونڈی کے چار سے پانچ ڈی سی پی صاحبان کو محبت کی بولی سکھائی۔ ‘‘ رفیع انصاری کے مطابق جن جن پولیس افسران کو موصوف نے اردو سے قریب کیا ان میں خصوصیت کے ساتھ ہیمنت کرکرے ، گلاب راؤ پول اور وین این جادھو کے نام آتے ہیں۔ میں نے ایک محفل میں کرکرے صاحب کو شگفتہ اردو میں تقریر کرتے ہوئے سنا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ کس کی دین ہے تو انہوں نے بے ساختہ ’شاکر ؔ صاحب ‘ کا نام لیا۔ جتنا عرصہ شاکر صاحب نے اردو کی یہ انوکھی تشہیر کی ہے وہ دن اس شہر کے اچھے دنوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جن جن پولس افسروں میں انہوں نے اردو کا شوق پیدا کیا وہ نہ صرف محبت کی زبان سے قریب ہوئے بلکہ اردو والوں کو بھی اپنے قریب محسوس کیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے درد کو سمجھا اور دونوں ایک دوسرے کے ہمدرد ہوئے۔ رفیع سر کے مطابق بابری مسجد کی شہادت کے بعد جب پورا ملک فرقہ وارانہ فساد کی لپیٹ میں تھا، مقامِ حیرت ہے کہ اس پُرآشوب دور میں ’ بھیونڈی‘ فتنہ و فساد سے یکسر محفوظ رہا۔ اس بات پر قومی سطح پر گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوا، مقالے لکھے گئے، ماہرین اور مخلصین نے اس کی وجوہات جاننے کی بھرپور کوشش کی، کاش انہیں کوئی بتاتا کہ اس کے پیچھے اردو کے ایک شاعر کی فروغِ اردو کی مخلصانہ کوششوں کو بھی دخل تھا۔ یقیناً یہ امر قابلِ غور بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ افسوس !ہم نے ان کی ویسی قدر نہ کی جس کے وہ قرار واقعی مستحق تھے۔ انہوں نے اپنی آخری غزل کے ایک شعر میں یہی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔
وہاں سے ہم بہت آگے ملیں گے جہاں تک ہم کو دیکھا جا رہا ہے
بھیونڈی کےمعروف شاعر و محقق رونق افروز نے شاکر ادیبی کی اس خدمت کے بارے میں کہا کہ’’شاکر ادیبی نے اردو کی روزی روٹی کھائی تو اس کا حق بھی ادا کیا۔ انہوں نے ۹۰ء کی دہائی میں خصوصاً جو کام اردو کے فروغ اور فرقہ وارانہ ماحول کو بہتر بنانے کے لئے تن تنہا کیا وہ ہم جیسے سیکڑوں مل کر بھی نہیں کرپارہے ہیں۔ ‘‘رونق افروز کے مطابق شاکر ادیبی نے بھیونڈی آنے والے تقریباً ہر پولیس افسر کو اردو سکھانے کا بیڑہ اٹھالیا تھا اور اس کام کے لئے وہ غالباً کوئی محنتانہ بھی نہیں لیتے تھے۔ وہ خود شانتی نگر پولیس اسٹیشن جاکر پولیس اہلکاروں کو اردو سکھاتے تھے۔ وہ جتنے اچھے معلم تھے اتنے ہی اچھے مقرر بھی تھے۔ پولیس اہلکاروں کے علاوہ بھی ان کے شاگردوں میں وکیل، ڈاکٹرس، سیاسی لیڈران، انجینئرس اور دیگر افراد ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ پولیس افسران سے ان کے گھریلو تعلقات ہو گئے تھے جبکہ گلاب رائو پول اور جادھو صاحب تو ان کی اردو دانی کے گرویدہ ہو گئے تھے۔
شاکر ادیبی کے دیرینہ ساتھی، مقامی کانگریس لیڈر اور معروف سماجی کارکن عبد اللطیف عبدالغنی (لطیف بابا) نےبتایا کہ ’’ بابری مسجد کی شہادت کے بعد امن و امان قائم رکھنے کے لئے امن کمیٹی اور محلہ کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں۔ شاکر صاحب امن کمیٹی کے ممبر تھے۔ اسی وجہ سے پولیس سے ان کا رابطہ مسلسل ہوتا تھا۔ اس دور میں پولیس نے بھی محسوس کیا تھا کہ حالات کو قابو میں رکھنے کے لئے ہمیں اردو سیکھنی ہو گی تاکہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنی بات کمیونٹی تک پہنچائی جاسکے۔ امن کمیٹی کا ممبر ہونے کی وجہ سے انہوں نے شاکر صاحب سے ہی اپیل کی کہ وہ انہیں اردو سکھائیں۔ ‘‘ لطیف بابا کے مطابق اپنی مستقل مزاجی اور اردو کے ذریعے محبت کے پیغام کو عام کرنے کی وجہ سے ہی ڈی سی پی، آرسی راٹھوڑ سے ان کے بہت اچھے تعلقات قائم ہو گئے تھے جو طویل وقت تک رہے۔ پولیس اہلکار انہیں ’گروجی ‘ کہتے تھے۔ ساتھ ہی انہیں نے محلہ محلہ امن کی اپیلیں کرنے اور تقاریر کے لئے مدعو کیا جاتا تھا۔ میرےبہت محتاط اندازے کے مطابق انہوں نے ۵۰۰؍ سے زائد پولیس افسران اور اہلکاروں کو اردو سکھائی۔