اسلام میں اخلاص کی اہمیت: قرآن مجید میں متعدد بار اخلاص کی طرف دعوت دی گئی ہے، فرمایا: ’’اور ان کو یہی حکم ہوا کہ صرف اللہ ہی کی بندگی کریں۔‘‘ (البینہ)اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اعمال کی قبولیت کا مدار اخلاص ہی کو ٹھہرایا ہے۔
EPAPER
Updated: August 26, 2022, 1:30 PM IST | Al-Sayyid Sabiq | Mumbai
اسلام میں اخلاص کی اہمیت: قرآن مجید میں متعدد بار اخلاص کی طرف دعوت دی گئی ہے، فرمایا: ’’اور ان کو یہی حکم ہوا کہ صرف اللہ ہی کی بندگی کریں۔‘‘ (البینہ)اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اعمال کی قبولیت کا مدار اخلاص ہی کو ٹھہرایا ہے۔
اسلام میں اخلاص کی اہمیت: قرآن مجید میں متعدد بار اخلاص کی طرف دعوت دی گئی ہے، فرمایا: ’’اور ان کو یہی حکم ہوا کہ صرف اللہ ہی کی بندگی کریں۔‘‘ (البینہ)اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اعمال کی قبولیت کا مدار اخلاص ہی کو ٹھہرایا ہے۔ حدیث میں ہے کہ ’’ ایک شخص آیا اور عرض کیا، یا رسولؐ اللہ! میں حج کرتا ہوں اور مناسک کی ادائیگی کے وقت اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ لوگوں کو میرا ان مناسک کو ادا کرنا معلوم ہو جائے، وہ دیکھیں کہ میں یہ نیک اعمال کر رہا ہوں… آپؐ نے سن کر کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی: ’’پھر جس کو اپنے رب سے ملنے کی اُمید ہو وہ نیک کام کرے اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔‘‘ (الکہف) (بروایت ابن ابی حاتم، عن طاوس)اخلاص کمالِ ایمان کی دلیل ہے: ابوداؤدؒ اور ترمذیؒ نے سند حسن کے ساتھ روایت کی ہے:
’’جس نے اللہ کے لئے محبت کی اور اللہ کے لئے بغض رکھا، اسی کے لئے دُعا کی اور اسی کی خاطر روکا، تو اس نے اپنے ایمان کو مکمل کر لیا۔‘‘اللہ سبحانہ و تعالیٰ دلوں کو دیکھتے ہیں مظاہر اور اشکال کو نہیں: حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے:رسالتمآب جناب رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتے بلکہ وہ تمہارے دلوں (کی نیتوں) کو دیکھتے ہیں۔‘‘(مسلم)حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، ایک آدمی اپنی بہادری کے اظہار کے لئے لڑتا ہے، ایک آدمی قومی حمیت کے تحت لڑتا ہے، ایک آدمی دکھاوے کے لئے لڑتا ہے، ان میں سے کون شخص راہِ خدا میں لڑ رہا ہے؟ آپؐ نے فرمایا، جو شخص اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کرتا ہے وہ جہاد فی سبیل اللہ کرتا ہے یعنی جس کا لڑنا کلمہ حق کی سربلندی کے لئے ہو وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہے۔ (بخاری و مسلم)عمل کا معیار:کوئی عمل اس وقت تک عمل خیر نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ اس کے کرنے میں نیت نیک نہ ہو اور خالص اللہ کے لئے نہ ہو کیونکہ ہر عمل کی ایک غایت ہوتی ہے اور غایت اولیٰ ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ سوائے خیر کے کسی کام کا حکم نہیں کرتا اور سوائے خیر کے کسی چیز کو پسند نہیں فرماتا لہٰذا انسان کی تمام زندگی کا مقصد اپنے لئے اور تمام بنی نوع انسان کے لئے طلبِ خیر ہونا چاہئے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ ہر آدمی کو اسی کا اجر ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ لہٰذا جس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے لئے ہجرت کی تو اس کا اسے ثواب ملے گا اور اگر کسی نے کسی دنیاوی غرض کے لئے ہجرت کی تو اسے وہی کچھ ملے گا اور اگر کسی عورت کے لئے ہجرت کی (تو ہو سکتا ہے کہ) اس سے نکاح کر لے لیکن آخرت میں ان کا اجر مرتب نہ ہو گا۔‘‘(بخاری و مسلم)اخلاص کی قیمت:اخلاص اور نیک نیت سے انسان کو رفعت و بلندی عطا ہوتی ہے اور اس کو ابرار کی منازل پر لے جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مخلصین کے لئے بشارت ہو، وہ لوگ کہ جب وہ کسی جگہ موجود ہوں تو کوئی انہیں جانتا نہ ہو، اور جب وہ کسی جگہ موجود نہ ہوں تو ان کی کمی محسوس نہ ہو، یہی لوگ ہدایت کے چراغ ہیں، انہی کی برکت سے انسان پر آئی ہوئی مصیبت ٹلتی ہے۔‘‘(رواہ البیہقی عن ثوبانؓ)جو شخص صفت اخلاص سے متصف ہو گا اسے کامیابی حاصل ہو گی۔ جس جماعت میں ایسے افراد ہوں گے اس جماعت میں خیر و برکات کا دور دورہ ہو گا، گھٹیا صفات اس میں معدوم ہوں گی، دنیاوی شہوات ان سے مرتفع ہوں گی، ملت میں اعلیٰ مقاصد کا حصول ان کا مطمح نظر ہو گا اور معاشرے میں امن و سلامتی عام ہو گی۔ یہ اخلاص ہی کی برکت تھی کہ صحابہؓ میں ریا، نفاق اور جھوٹ بالکل معدوم تھا۔ زندگی کے اعلیٰ مقاصد کا حصول ہی ان کا مقصدِ حیات تھا۔ تمام صحابہؓ اقامتِ دین، اعلاء کلمۃ اللہ اور عدل و انصاف کو عام کرتے اور رضائے خداوندی کو اصل مقصود سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکومت و شوکت عطا فرمائی، دنیا کا مقتدا بنایا اور وہ تمام عالم کے سردار بن گئے۔عمل میں اگر کچھ کمی بشری کمزوری کی وجہ سے رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اخلاص کی برکت سے اس عمل کا پورا پورا اجر فرما دیتے ہیں۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ تبوک میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، آپؐ نے فرمایا (ہم تو یہاں جہاد کر رہے ہیں لیکن) مدینہ میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کوئی سفر نہیں کیا، کوئی وادی طے نہیں کی مگر (ثواب میں) وہ تمہارے ساتھ ہیں، انہیں مرض نے گھیر لیا (ورنہ نیت ان کی بھی جہاد کی تھی) ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ’’مگر ثواب میں وہ تمہارے ساتھ شریک ہیں۔‘‘
(ابوداؤد اور ترمذی)
ریا اور بری نیت:جس طرح صفت اخلاص اور نیک نیت سے متصف ہونے سے انسان کو اعلیٰ مرتبہ نصیب ہوتا ہے اسی طرح سے ریاء سے متصف ہونے سے اور بری نیت کی وجہ سے انسان اسفل سافلین کے درجے میں جا گرتا ہے کیونکہ عمل کا اصل باعث اخلاقی عنصر ہے اور وہی رب تعالیٰ سبحانہ کی نظر کا محور ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اسی اخلاقی عنصر کو دیکھتے ہیں، عمل کا درجہ ثانوی ہے) جیسے ایک حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان تلواریں سونت کر آمنے سامنے آتے ہیں (اور نتیجے میں ایک قتل ہو جاتا ہے) تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قاتل کا دوزخی ہونا تو سمجھ میں آ گیا لیکن مقتول کیونکر دوزخی ہوا؟ آپؐ نے فرمایا، مقتول بھی تو اپنے مدمقابل کو قتل کرنے پر حریص تھا۔ (بخاری و مسلم)
غرضیکہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا ارادہ بھی اسے دوزخ میں لے گیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ حساب تو نیتوں پر لیں گے خواہ انسان اسے ظاہر کرے یا چھپائے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’خواہ تم اپنے دل کی بات چھپاؤ یا اسے ظاہر کرو اللہ تعالیٰ تم سے حساب ضرور لیں گے۔‘‘(بقرہ :۲۸۴) اسی فرمان باری تعالیٰ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث قدسی سے واضح فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے نیکیوں اور بدیوں کو لکھا اور ہر ایک کو واضح کر دیا۔ پھر جس کسی نے نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس نیکی پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھ دیتے ہیں۔ اور اگر نیکی کا ارادہ کر کے وہ نیکی بھی کر گزرے تو اسے ایک نیکی کے بدلے دس سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ اجر عطا فرماتے ہیں (یعنی اخلاص میں جتنی قوت ہو گی اتنا ہی اجر زیادہ ہو گا)۔ لیکن اگر برائی کا ارادہ کیا لیکن وہ برائی نہیں کی تو اس (اجتناب) پر بھی ایک کامل نیکی اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جائے گی۔ اور اگر بدی کا ارادہ کر کے وہ گناہ بھی کر لیا تو صرف ایک گناہ ہی لکھا جائے گا۔‘‘ قارئین کرام، ذرا محسوس کیجئے اللہ اپنے بندوں کو کس طرح نوازتے، معاف کرتے اور نیکیاں عطا کرتے ہیں۔ (رواہ البخاری و مسلم عن عبد اللہ بن عباس) یعنی اگر برائی کا ارادہ کر کے خوفِ خدا اور اس پر ایمان کی وجہ سے برائی سے باز رہا تو عند اللہ یہ ایک نیکی گنی جائے گی، لیکن اگر وہ گناہ کسی خارجی سبب سے نہ کر سکا تو یہ کوئی نیکی نہیں لیکن اس پر بھی اسے خدا کا شکر کرنا چاہئے کہ اس نے گناہ سے بچا لیا۔ مزید برآں حضورؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لوگوں کے دلوں کے وسوسوں کو معاف فرما دیا ہے۔‘‘ ریا کی شان (اثر) یہ ہے کہ وہ بندے اور خدا کے درمیان حجاب بن جاتی ہے اور اسے حیوانوں کے زمرے میں لا شامل کرتی ہے، پھر اس کے نفس کا تزکیہ نہیں ہو پاتا۔ اس کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا کیونکہ دکھلاوے کے کام کرنے والے کی نہ کوئی رائے ہوتی ہے نہ اس کا کوئی عقیدہ ہوتا ہے بلکہ وہ ’’گرگٹ‘‘ کی طرح ہوتا ہے کہ رنگ بدلتا رہتا ہے اور ہوا کے رخ پر چلتا ہے، عمل کی پختگی اس سے زائل ہو جاتی ہے۔ ریا کا مطلب ہے عبادات کے ذریعے جاہ و منزلت کا طلب کرنا اور اللہ سبحانہ نے اس سے بچنے اور اسے ترک کرنے کا صریحاً حکم فرمایا ہے کیونکہ اس سے انفرادی اور اجتماعی برائیاں پھیلتی ہیں، اسلئے فرمایا: ’’جو شخص عزت چاہتا ہے تو اﷲ ہی کے لئے ساری عزت ہے، پاکیزہ کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور وہی نیک عمل (کے مدارج) کو بلند فرماتا ہے، اور جو لوگ بری چالوں میں لگے رہتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر و فریب نیست و نابود ہو جائے گا۔‘‘ (فاطر :۱۰) ’’بیشک منافق (بزعمِ خویش) اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ انہیں دھوکے کی سزا دینے والا ہے، اور جب وہ نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی کے ساتھ (محض) لوگوں کو دکھانے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کویاد (بھی) نہیں کرتے مگر تھوڑا۔‘‘ (نساء: ۱۴۲)