وقت محض گزرنے کا نام نہیں، یہ ایک مسلسل پکار ہے ضمیر کی، بصیرت کی، اور تعمیرِ ذات کی۔
EPAPER
Updated: June 28, 2025, 1:28 PM IST | Mohammad Tauqeer Rahmani | Mumbai
وقت محض گزرنے کا نام نہیں، یہ ایک مسلسل پکار ہے ضمیر کی، بصیرت کی، اور تعمیرِ ذات کی۔
وقت محض گزرنے کا نام نہیں، یہ ایک مسلسل پکار ہے ضمیر کی، بصیرت کی، اور تعمیرِ ذات کی۔ اسلامی کیلنڈر کے آخری مہینے، ذوالحجہ کی رخصتی اور محرم الحرام کی آمد صرف ایک تقویمی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک معنوی لمحۂ مکاشفہ ہے جہاں ماضی کا احتساب اور مستقبل کی تعمیر، دونوں ہمارے ضمیر کے در پر دستک دیتے ہیں۔ یہ وقت، جو نہ تھمتا ہے، نہ رکتا ہے، ہمارے لیے ہر نئے لمحے کے ساتھ ایک سوال لے کر آتا ہے: ’’تو نے خود کو کتنا جانا؟‘‘
یہ سالِ نو فقط کیلنڈر کی ورق گردانی نہیں، بلکہ روح کی بیداری کا لمحہ ہے، ایک فکری انقلاب کی تمہید ہے۔ وقت اپنی خاموشی میں بڑی شدت سے سوال کرتا ہے: تم نے پچھلے سال کیا سیکھا؟ کیا کھویا، کیا پایا؟ کس خواب کو حقیقت میں ڈھالا اور کون سا خواب مٹی میں دفن ہو گیا؟
ہم ایک ایسے سیّال وقت کے مسافر ہیں جو کسی پڑاؤ پر نہیں رکتا، نہ کسی کو پیچھے مڑ کر دیکھنے دیتا ہے۔ مگر ان لمحوں میں، جب نیا سال ہماری روح کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے، لازم ہے کہ ہم رکیں، جھکیں، اور جھانکیں اپنے باطن میں، اپنی ترجیحات میں، اپنے تعلقات میں، اپنے خوابوں اور اپنے گناہوں میں۔ وقت نہ بولتا ہے، نہ ٹھہرتا ہے؛ لیکن یہ سب سے بڑا معلم ہے۔ یہ خاموشی سے ہماری سانسوں کو گنتا رہتا ہے، اور ہم کبھی بے خبر، کبھی بے پروا زندگی کو گزارنے کے وہم میں خود کو گزار رہے ہوتے ہیں۔ وقت کا یہ بے رحم بہاؤ انسان کو ماضی کی یادوں، حال کی مصروفیات اور مستقبل کے اندیشوں کے درمیان اس طرح الجھا دیتا ہے کہ وہ اصل سوال یعنی ’’میں کون ہوں اور کہاں جا رہا ہوں ؟‘‘سے غافل ہو جاتا ہے۔
خود کو وقت کے اس دھارے میں یوں چھوڑ دینا کہ نہ منزل کا پتہ ہو، نہ راستے کا شعور، سراسر خسارے کا سودا ہے۔ کیا ہم نے وقت کے دریا میں محض تیرنا سیکھا یا سمتِ نجات کی طرف کوئی پیش قدمی بھی کی؟ یہ سوال آج کے دن ہر انسان کے ضمیر پر بجلی بن کر گرتا ہے۔ ہماری زندگی کا ہر لمحہ دراصل ایک بیج ہے، جو یا تو ضیاع کی زمین میں گم ہو جاتا ہے، یا فکر و اخلاص کی زمین میں تناور درخت بن کر اگتا ہے۔ اگر ہم آج بھی اپنی سمت کا تعین نہ کریں، تو اگلا سال بھی گم گشتہ لمحوں کا قبرستان بن جائے گا جہاں دفن خواب اور ماندہ عزم، صرف ایک افسوسناک نوحہ چھوڑ جاتے ہیں۔
سالِ نو کا آغاز ہمیں اس عظیم موقع کی یاددہانی کراتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کا زینہ لمحہ لمحہ چڑھتے ہوئے کہاں پہنچے ہیں ؟ کیا ہم نے اس دنیا میں کچھ ایسا کیا ہے جو ہمارے بعد باقی رہے؟ کیا ہم نے کسی یتیم کے آنسو پونچھے؟ کیا ہم نے کسی مظلوم کے حق میں آواز بلند کی؟ کیا ہم نے اپنے نفس کی اصلاح کی راہ پر ایک قدم بھی اٹھایا؟ یہ سوالات فقط احساس کی چنگاریاں نہیں ؛ یہ ہماری حیات کی سمت طے کرنے والے مینارے ہیں۔ ہر شعور یافتہ انسان کو لازماً اپنے وجود کی غایت پر غور کرنا چاہئے، ورنہ وہ ایک چلتی پھرتی جسمانی مشین بن کر رہ جاتا ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی کا مقصد طے نہ کرے، تو وہ خود اپنی روح کے ساتھ ظلم کر رہا ہے۔
ماضی صرف ماتم کا نام نہیں۔ یہ ایک معلم بھی ہے، جو ہمیں سبق سکھاتا ہے کہ زخم بھی نعمت ہیں اگر ان سے ہم شعور کی آنکھ کھول سکیں۔ وہ تلخ یادیں، وہ گم کردہ راہیں، وہ کھوئے ہوئے لمحے، سب ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم اب بھی نئے سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اس سال کو ہم ایک روحانی بعثت کا آغاز بنائیں۔ اپنے اندر کے بتوں کو توڑیں، غرور، حسد، غفلت، حرص اور اپنے دل کو ایک عبادت گاہ میں تبدیل کر دیں۔ یہ سال ہماری روح کی تجدید، عقل کی تطہیر، اور دل کی تعمیر کا سال بنے۔ علم ہماری رَہ ہو، عبادت ہمارا زادِ راہ، خدمتِ خلق ہماری منزل، اور نیک صحبت ہمارا ہمسفر۔
آئیے! ہم اس سال کی پہلی ساعت کو ایک عہد بنائیں۔ وہ عہد جو صرف الفاظ میں نہ ہو، بلکہ اعمال میں نظر آئے؛ جو صرف دعا نہ ہو، بلکہ نیت، کوشش اور قربانی سے مزین ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلے سال، اسی دن، ہم پھر یہی سوال کریں : ’’کیا ہم نے واقعی کچھ بدلا؟ یا ہم وقت کے تیز بہاؤ میں اپنے آپ کو ایک بار پھر کھو بیٹھے؟‘‘