Inquilab Logo Happiest Places to Work

دینی نقطۂ نظر سے ایران اسرائیل جنگ اور غزہ کے حالات کو کیسے سمجھیں!

Updated: June 28, 2025, 1:49 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

اسلام، ظالم کو ظالم سمجھنے اور کہنے ہی کی دعوت نہیں دیتا، اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق اُسے ظلم سے باز رکھنے کی بھی تلقین کرتا ہے۔ یہ حکم صرف حکومتوں کیلئے نہیں، عام انسانوں کیلئے بھی ہے۔

We should raise our voice against the oppressor, no matter at what level. Photo: INN
ظالم کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا چاہئے خواہ کسی بھی سطح پر کی جائے۔ تصویر: آئی این این

اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لئے جو دین ِحق بھیجا ہے، اس کی بنیادی خصوصیت ہے: عدل۔ عدل کے معنی ہیں : ہر ایک کے ساتھ انصاف، حق کو قبول کرنا اور ظلم سے نفرت، چاہے وہ کسی انسان یہاں تک کہ جانور یا اللہ تعالیٰ کی کسی اور مخلوق کے ساتھ ہو، یہ در اصل انسان کی فطرت کی آواز ہے؛ اسی لئے ایک شریف انسان ظلم کو دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے اور اس کا دل بے چین ہو جاتا ہے، اگر انسان اس کیفیت سے محروم ہو جائے تو اس کے اور درندہ کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ یہ فرد سے لے کر قوم اور حکومت تک سبھوں کے اخلاق و کردار کو تولنے کا معیار ہے؛ اس لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف اسلوب میں کم سے ۳۰؍ مقامات پر قرآن مجید میں عدل کا حکم دیا ہے، کم ہی کسی اور عمل کی اس درجہ تاکید کی گئی ہے۔ 
 مسلمانوں کو خاص کر ہر شخص اور ہر مخلوق کے ساتھ عدل سے کام لینے اور ہر مظلوم کو ظلم سے بچانے کا حکم فرمایا گیا ہے؛ اگرچہ اس میں مسلمان اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں ہے؛ لیکن مسلمانوں کے ساتھ انسانی رشتوں کے علاوہ ایک دینی رشتہ بھی ہے؛ اس لئے مسلمانوں کو خصوصی طور پر اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں عدل وانصاف سے کام لینے، اس پر ظلم و زیاتی سے بچنے اور اس کو ظلم و زیادتی سے بچانے کی تعلیم دی گئی ہے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس پر ظلم ہوتا ہوا چھوڑ دیتا ہے، پھر جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت میں کام آئے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کو پوری فرما دیں گے، اور جو شخص کسی مسلمان سے کوئی مصیبت دور کردے اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت کو دور فرما دیں گے اور جو مسلمان کسی مسلمان کی غلطی کو ڈھانپ دے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ کو ڈھانپ دیں گے۔ ‘‘ 
(مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم، حدیث نمبر: ۲۵۸۰)
 مسلمانوں میں یہ مزاج ہمیشہ قائم رہنا چاہئے؛ مگر افسوس کہ آج اُمت اس جذبۂ اُخوت سے محروم ہوتی جا رہی ہے، بالخصوص عالمی سطح پر مسلمانوں کی صورت حال نہایت افسوس ناک اور انجام کے اعتبار سے تباہ کن ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد عالم اسلام پارہ پارہ ہوگیا، اس کو چھوٹی چھوٹی بے وزن اور بے اثر ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا گیا، اور مغرب نے ایک منصوبہ کے تحت ان کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ آج وہ اپنے ملکی مسائل کا فیصلہ بھی اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے، اشیاء کے تبادلہ کے لئے کون سی کرنسی استعمال کریں، اپنے ملک میں صنعتوں کو کس حد تک فروغ دیں، ان کی زمین میں جو قدرتی خزانے ہیں ان کو کس حد تک نکالیں اور کس قیمت میں فروخت کریں، کن ملکوں سے دوستی رکھیں اور کن ملکوں کی دشمنی میں خواہی نخواہی شامل ہوں یا کن ملکوں سے فاصلہ رکھیں، ان سب میں وہ مغربی طاقت کے دست نگر ہیں، یوں تو پوری امت مسلمہ اس صورت حال سے گزر رہی ہے؛ لیکن اس سلسلہ میں سب سے ابتر صورت حال عالم عرب کی ہے، اور شاید ان کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سزا ہے؛ کیوں کہ خلافت عثمانیہ کو توڑنے اور اسرائیل کو قائم کرنے میں اہل مغرب نے ان ہی کو آلۂ کار بنایا تھا، اور آج تمام عرب حکومتیں مغرب اور اسرائیل کے سامنے سجدہ ریز ہونے کو مجبور ہیں، عجمی مسلم ممالک جیسے ترکی، افغانستان، ملایشیاء وغیرہ تو کم سے کم زبان کھولتے ہیں ؛ لیکن عرب ملکوں اور حکومتوں میں زبان کو حرکت دینے کی جرأت بھی نہیں ہے، اوران کو ایسا زہر دے دیا گیا ہے کہ ان کی غیرت وحمیت بھی دم توڑ چکی ہے۔ 
 اس کی ایک واضح مثال عرب اور اسرائیل قضیہ ہے، اسرائیل چاروں طرف سے عرب ملکوں سے گھِرا ہوا ہے، ان ہی ملکوں سے اسرائیلی جہاز گزرتے ہیں، وہ پڑوسی عرب ملکوں سے زور زبردستی سے پینے کا پانی حاصل کرتا ہے، فلسطینیوں پر کھلا ہوا ظلم کرتا ہے، بین الاقوامی قوانین کو تار تار کر رہا ہے، جب چاہتا ہے پڑوسی ملکوں پر بمباری کرتا ہے، اس کے ظلم کی وجہ سے فلسطینی فاقہ سے مر رہے ہیں، ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگ شہید ہو چکے ہیں، جن انسانی حقوق کی امریکہ اور یورپ دہائی دیتا ہے، یہاں ہر دن ان کو پامال کیا جاتا ہے؛ لیکن فلسطین کے پڑوسی کسی مسلمان ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کم سے کم فلسطین کے مظلوموں کے لئے اپنی سرحدیں کھول دے۔ ان میں سے صرف اردن اور مصر اپنی سرحدیں کھول دیتے اور خلیجی ممالک اپنی ضائع ہونے والی غذائیں فلسطین میں پہنچا دیتے تو غزہ کے بے شمار شہریوں کی جانیں نہ جاتیں اور اسرائیل کے حوصلے اتنے بلند نہ ہوتے۔ اب ایک مدت کے بعد یہ خوش آئند پہلو سامنے آیا ہے کہ ایران نے اسرائیل کو ظلم سے روکنے کی کوشش کی ہے اور اس میں اس کو کسی قدر کامیابی حاصل ہوئی ہے، بجائے اس کے کہ عالم عرب اس جنگ میں ایران کے ہم نوا ہوتے اور اپنے مشترک دشمن اسرائیل کو جھکنے پر مجبور کرتے، یہ سب اسرائیل کو تحفظ دیتے رہے، سارے عرب اور خلیجی ممالک اسرائیلی فضائیہ کے لئے اپنی فضاء فراہم کرتے رہے اور ایران کی طرف سے جو میزائیل اسرائیل کی طرف جاتے تھے، ان کو روکنے میں بھی اسرائیلیوں کی مدد کرتے رہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے یہ کس قدر شرمناک بات ہے!
 ’’عذر ِگناہ بدتر از گناہ‘‘ کے مصداق اب کچھ لوگ اس کو شیعہ سنی نزاع کا عنوان دے کر ایران کو مجرم قرار دینے اور عرب پڑوسیوں کو بے قصور قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ نہایت افسوس ناک بات ہے، یہ لڑائی شیعہ سنی کی لڑائی ہے ہی نہیں، یہ ظالم اور مظلوم کی لڑائی ہے، اسرائیل کھلا ہوا مجرم ہے، اور فلسطین سے لے کر ایران تک پوری مسلم قوم واضح طور پر مظلوم ہے، اور فلسطینیوں پر تو ایسا ظلم کیا جا رہا ہے کہ شاید تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملے، جس نے یہودیوں پر ہونے والے نازیوں کے ظلم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ مسلمان اس صورت حال کو محسوس کریں، اس موقع پر شیعہ اور سنی اختلاف کو اُبھارنا مغرب کی سازش اور مغرب کے آلہ کار منافقین کی کوشش ہے، اس سے متنبہ رہنے کی ضرورت ہے۔ 
 کچھ لوگ شیعہ سنی ایجنڈے کو طاقت پہنچانے کے لئے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جب فلسطین پر ظلم ہو رہا تھا تو اس وقت ایران نے کیا کیا؟ یہ ایک معقول سوال ہے مگر سوال یہ بھی ہے کہ عرب ملکوں کا جو فلسطینیوں سے دوہرا رشتہ ہے، ایک اسلامی اخوت کا اور دوسرا عربیت کا، انہوں نے اس سلسلہ میں کیا قدم اُٹھایا؟ ایران اور اس کی ہم نوا طاقتوں نے تو فلسطین قائدین کو پناہ دی، لبنان اور یمن نے ان پر میزائل داغے، ان بزدلوں سے تو یہ بھی نہیں ہو سکا، حقیقت یہ ہے کہ کہ فلسطین سے بے اعتنائی برتنے کے مجرم سبھی مسلم ممالک ہیں ؛ لیکن اس سلسلہ میں فلسطین کے پڑوسی عرب ممالک اور پیٹرول کی دولت سے مالا مال خلیجی ممالک سب سے بڑے مجرم ہیں، اللہ تعالیٰ کے یہاں تو ان کو حساب دینا ہی ہوگا؛ لیکن دنیا میں بھی بے وزنی، ناطاقتی اور رسوائی کی شکل میں ان کو اس کی سزا مل ہی رہی ہے، اور مستقبل میں بھی ملتی رہے گی۔ 
 اسلام نے ہمیں دو بنیادی باتوں کی تعلیم دی ہے، ایک یہ کہ ہم ظالم کے مقابلہ مظلوم کا ساتھ دیں، دوسرے یہ کہ اگر دو ظالموں اور نامنصفانہ طاقتوں سے سابقہ ہو تو کم تر درجہ کو گوارا کریں اور بڑے دشمن سے دوری اختیار کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جب رومیوں اور ایرانیوں کے درمیان جنگ ہوئی تھی تو مسلمانوں کا جھکاؤ رومیوں کی طرف تھا؛ کیوں کہ وہ توحید کے، نبوت و رسالت کے اور تصورِ آخرت کے قائل تھے، اور متعدد باتوں میں وہ مسلمانوں کی سوچ سے اتفاق رکھتے تھے۔ اس وقت بھی ہمارا اور تمام مسلمانوں کا اور عرب یا مسلم حکومتوں کا یہی طرز فکر اور طرز عمل ہونا چاہئے۔ 
 قرآن مجید نے ملے جلے مسلم اور غیر مسلم معاشرہ کیلئے بھی یہ اصول مقرر کیا ہے کہ ہر طبقہ اپنے طریقہ پر عبادت کرے، اور دوسرے کے مذہبی معاملات میں دخل نہ دے: لکم دینکم ولی دین (الکافرون: ۶) جہاں مسلمانوں کے مختلف فرقے اور مسالک کے لوگ آباد ہوں، ان کے لئے بدرجہ اولیٰ یہی طریقہ ہونا چاہئے کہ ہر گروہ کو اپنی عبادت گاہ بنانے کی اجازت ہو، اور اپنے اپنے طریقوں پر عبادت کرنے کا حق ہو، جبرواکراہ کے ساتھ وحدت پیدا کرنے کی صورت میں اتحاد کے بجائے انتشار وافتراق پیدا ہو جاتا ہے اور بحیثیت مجموعی ملت کمزور اور بے وزن ہو جاتی ہے اور اس کی دھاک یا دبدبہ کم ہونے لگتا ہے۔ 
  نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان مشترکہ امور زیادہ ہیں بمقابلہ اختلافی امور کے، عقیدہ توحید، عقیدہ رسالت، وحیٔ الٰہی، آسمانی کتاب، آخرت کا تصور، اہل بیت کا احترام، اسلام کے بنیادی فرائض، محرمات اور ممنوعات، ان سب میں اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان کافی یکسانیت ہے، موجودہ حالات میں اسلام مخالف دشمن طاقتیں چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہو، وہ اپنے اصل دشمنوں کی طرف سے توجہ ہٹا لیں اور آپس میں دست و گریباں ہو جائیں ؛ اس لئے ہمیں اس پر پوری توجہ رکھنی چاہئے؛ کیوں کہ عالم اسلام میں بھی اور غیر مسلم ممالک میں بھی اس وقت ملت اسلامیہ کو سب سے بڑھ کر اتحاد کی ضرورت ہے، ہمیں اس موقع پر ایران کی پوری اخلاقی مدد کرنی چاہئے، اس کے لئے دعاء کرنی چاہئے، اتحاد کے اصول پر عمل کرنا چاہئے اور ایرانی سربراہوں سے خواہش کرنی چاہئے کہ وہ متوقع جنگ بندی کو ایران اور اسرائیل تک محدود نہ رکھیں ؛ بلکہ غزہ کی جنگ بندی کو بھی اس کے ساتھ مربوط کر دیں، اس سے پورے عالم اسلام میں ایران کا وقار بڑھے گا اور مسلمانوں کی وحدت و اخوت میں اضافہ ہوگا۔ 
 حکومتیں کیا فیصلے کرتی ہیں اس سے قطع نظر عام انسانوں کو ظلم سے نفرت اور مظلوم کی مدد کا جذبہ اپنے اندر بیدار کرنا چاہئے، ظالم کے خلاف اپنی رائے دینی چاہئے خواہ کسی بھی سطح پر دی جائے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کیونکہ حکومتیں عوامی رائے کو یکسر نظر انداز نہیں کرتیں بلکہ مختلف سرویز اور انٹلی جنس رپورٹس کے ذریعہ خود عوام کے رجحان کا پتہ لگاتی رہتی ہیں اس لئے یہ سمجھنا کہ ہمارے سوچنے یا کرنے سے کیا ہوگا ٹھیک نہیں۔ ہمیں اپنے آس پاس کے لوگوں کو سمجھانا چاہئے کہ حالات کا ازخود تجزیہ کریں اور سوشل میڈیا کے گمراہ کن مواد سے ہر ممکن طور پر دور رہیں کہ اس میڈیا پر بہت سی چیزیں بالکل ردی اور غیر مصدقہ ہوتی ہیں۔ انہی غیر مصدقہ اطلاعات کے ذریعہ عوامی ذہنوں کو پراگندہ کیا جاتا ہے۔ ہم اپنے پر بہت بڑا احسان کریں گے اگر خود کو گمراہ کن باتوں سے بچائیں گے اور سچی پکی خبروں پر یقین کرینگے نیز اپنے دماغ سے سوچیں گے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق یا تو خود صحیح غلط کا فیصلہ کریں گے اور اگر کوئی دقت ہو تو علماء کرام سے یا مثبت سوچ رکھنے والے دانشوروں سے رہنمائی حاصل کریں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK