میں نے نئے سال کی دہلیز پر کھڑے شخص سے کہا: مجھے روشنی درکار ہے تاکہ آنے والے موہوم ایام کو منور کرسکوں ۔ اس نے کہا : اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے دو، وہ تمہیں منزلِ مقصود تک پہنچادے گا۔
EPAPER
Updated: June 28, 2025, 1:44 PM IST | Imam Hassan al-Banna | Mumbai
میں نے نئے سال کی دہلیز پر کھڑے شخص سے کہا: مجھے روشنی درکار ہے تاکہ آنے والے موہوم ایام کو منور کرسکوں ۔ اس نے کہا : اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے دو، وہ تمہیں منزلِ مقصود تک پہنچادے گا۔
میں نے نئے سال کی دہلیز پر کھڑے شخص سے کہا: مجھے روشنی درکار ہے تاکہ آنے والے موہوم ایام کو منور کرسکوں ۔ اس نے کہا : اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے دو، وہ تمہیں منزلِ مقصود تک پہنچادے گا۔
وقت کے قافلے کے ساتھ چلتا مردِ ناداں، زندگی کے ایک دوراہے پر کھڑا کبھی پیچھے کی طرف نظر دوڑاتا، تاکہ اس سفر میں پیش آنے والی تکالیف اور تھکن کو ذہن میں تازہ کرسکے، پھر ایک نظر آگے کی طرف دیکھنے کی کوشش کرتا، تاکہ اندازہ لگائے کہ ابھی اور کتنے مراحل طے کرنے ہیں۔
اے صحرائے زندگی میں حیران و سرگرداں بھٹکنے والے دوست !کب تک اس تاریکی و گمراہی کا شکار رہو گے، حالانکہ تمہارے اپنے ہاتھ میں ایک روشن چراغ موجود ہے : ’’ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو اُس کی رضا کے طالب ہیں، سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو تاریکی اور اندھیروں سے نکال کر اُجالے کی طرف لاتاہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتاہے۔ ‘‘(المائدہ :۱۵۔ ۱۶)
اے حیرانی اور تھکن سے چُور لوگو کہ جن کے سامنے راستے گڈمڈ ہوچکے ہیں !اے گم کردہ راہ انسانو! سنو خداے علیم و خبیر کیا کہہ رہاہے :
’’(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو۔ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتاہے۔ وہ تو غفورو رحیم ہے۔ پلٹ آئو اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جائو اس کے۔ ‘‘ (الزمر : ۵۳-۵۴)
آئو اس کی پکار پر لبیک کہو، اور پھر اس کے بعد دلی اطمینان، ضمیر و نفس کی راحت اور اللہ تعالیٰ سے نیک اجر کا نظارہ کرو :
‘‘اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتاہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کربیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آجاتاہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوااور کون ہے جو معاف کرسکتاہو؟ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کردے گا اور ایسے باغوں میں انہیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ کیسا اچھا بدلہ ہے نیک اعمال کرنے والوں کے لئے۔ ‘‘ (آل عمران: ۱۳۵۔ ۱۳۶)
رب کے دروازے چوپٹ کھلے ہیں ۔ گناہ گاروں کا روتے ہوئے اس کی طرف پلٹ آنا اسے اپنے گھر کے طواف کرنے والوں سے زیادہ محبوب ہے۔ یاد رکھو، ہر انسان بے حد خطاکار ہے اور خطاکاروں میں سب سے بہترین وہ ہے جو توبہ کرنے والا ہو : ’’اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔ ‘‘ (البقرہ:۲۲۲)
دیکھو، اللہ تمہارے کتنا قریب ہے، عجب ہے کہ تمہیں اس کے قرب کا احساس ہی نہیں۔ چشمِ ہوش سے دیکھو، اسے تم سے کتنی محبت ہے لیکن تمہیں اس کی محبت کی قدر ہی نہیں۔ تم پر اس کی رحمتیں کتنی زیادہ ہیں اور تم ہو کہ خوابِ غفلت سے جاگتے ہی نہیں، سنو، رسولؐ اکرم نے حدیث قدسی میں کیا فرمایا کہ رب العالمین اپنے بندوں سے کیا کہتا ہے:
’’میرا بندہ مجھ سے جو بھی گمان کرے میں اسی کے مطابق اس سے معاملہ کرتاہوں، میں اپنے بندے کے گمان و خیال کے ساتھ ہوں۔ جب بھی وہ مجھے یاد کرتا ہے، تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ وہ اگر مجھے اپنے دل میں یاد کرتاہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتاہوں اور اگر مجھے کسی جم غفیر میں یاد کرتاہے تو میں اس سے بہتر جمِ غفیر میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت بڑھتاہے تومیں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ بڑھتا ہوں ۔ اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتاہوں ۔ ‘‘
میرے پیارے بھائی! جس نے وقت کے حقوق پہچان لئے اس نے درحقیقت زندگی کی قیمت پہچان لی، کیونکہ وقت ہی تو زندگی ہے۔ جب زندگی کا پہیہ ہماری زندگی کے سفر کا ایک سال طے کرلیتاہے اور ہم دوسرے سال کا استقبال کرنے میں لگ جاتے ہیں تو ہم عملاً ایک دوراہے پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس فیصلہ کن گھڑی میں ہمیں اپنے ماضی کا بھی محاسبہ کرنا ہے اور مستقبل کا بھی حساب لگانا ہوتاہے تاکہ کہیں حساب کی اصل گھڑی اچانک سرپہ نہ آ جائے۔ وہ گھڑی جو یقیناً آکر رہے گی۔ ماضی کا محاسبہ اس لئے (ضروری ہے) تاکہ ہم اپنی غلطیوں پر نادم ہوں ، اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کا تدارک اور اپنی کج روی کو درست کریں کیونکہ ابھی موقع بھی ہے اور فرصت بھی۔ اور ہمیں مستقبل کو بھی دیکھنا ہے، تاکہ اس کے لئے بھرپور تیار ی کریں۔
یہ تیاری کیا ہے؟ پاک صاف، سچا دل، عملِ صالح اور نیکی اور خیر کی طرف تیزی سے آگے بڑھنے کا عزمِ صادق۔ مومن ہمیشہ دونوں پہلوئوں سے فکر مند رہتاہے : ایک طرف تو اسے اپنے سابقہ عمل کے بارے میں دھڑکا رہتاہے کہ پتا نہیں میرا یہ عمل اللہ کے ہاں کیا مقام پائے گا۔ دوسری طرف باقی ماندہ مہلت کے بارے میں دل لرزتا رہتاہے کہ نہ جانے اس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ کیا ہوگا لہٰذا، ہر بندے کو خود اپنے آپ ہی سے اپنے لئے توشہ حاصل کرنا ہے۔ حبیب ِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں سنئے:
کوئی ایسا دن طلوع نہیں ہوتا جو پکار پکار کر نہ کہہ رہا ہو کہ اے ابنِ آدم ! میں لمحۂ تازہ ہوں اور میں تمہارے عمل پر گواہ ہوں، مجھ سے جو چاہو حاصل کرو میں چلا گیا تو پھر قیامت تک دوبارہ نہیں آئوں گا۔
میں نئے سال کی مناسبت سے کچھ لکھنے بیٹھا تھا، میرا خیال تھا کہ میں ہجرتِ نبویؐ کی یاد میں کچھ لکھوں، اس کے کچھ واقعات سے دلوں کو گرمائوں لیکن میں بالکل دوسری سمت جا نکلا۔ میں اپنے ان بھائیوں کے ساتھ راز و نیاز کرنے لگا جنہوں نے وقت کے حقوق ضائع کردیے، جوزندگی کے اصل راز سے غافل رہے۔ صد افسوس کہ انہوں نے اس امتحان کو فراموش کردیا جس کیلئے ہم سب کو وجود ملا ہے: قرآن کہتا ہے: ’’ تمہارا رب وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو تخلیق کیا تاکہ تم لوگوں کو آزماکر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتاہے۔ ‘‘ (ملک: ۲)
میں کچھ اور لکھنے بیٹھا تھا لیکن میں نے اچانک خود کو اپنے محترم اور عزیز بھائیوں سے مخاطب پایا۔ دل میں امید پیدا ہوئی کہ اس طرح شیطان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے رحمٰن کی پناہ میں آجائیں ، ہم سب رضائے خدا وندی کے اس قافلے میں شریک ہوجائیں ، جسے اس کی طرف سے مغفرت اور رضوان عطا ہوتی ہے۔ ہماری زندگی کے رجسٹر میں نئے محرم الحرام کا آغاز ایک نئے اور صاف و سفید صفحے سے ہو۔ اگر پچھلے صفحات گناہوں کی وجہ سے سیاہ پڑ گئے تھے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے توبہ واستغفار کے ذریعے نیکیوں میں تبدیل فرمادے:
وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتاہے اور برائیوں سے درگزر فرماتاہے۔ حالانکہ تم لوگوں کے سب اعمال کا اسے علم ہے۔ وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول کرتاہے اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ دیتاہے۔ (الشورٰی: ۲۵، ۲۶)
آئیے دیکھیں ہم پر پروردگار کی نگرانی کس قدر عظیم ہے :
’’کیا انہوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور ان کی سرگوشیاں سنتے نہیں ہیں۔ ہم سب کچھ سنتے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں ۔ ‘‘ (الزخرف۴۳: ۸۰)
آئیے دیکھیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا حساب کتنا دقیق ہوگا۔
جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا۔ ‘‘(سورۃ الزلزال ۹۹:۷-۸)