Inquilab Logo

دینی پیغامات کی ترسیل میں حددرجہ احتیاط کی ضرورت ہے

Updated: March 10, 2023, 4:12 PM IST | Maulana Muhammad Ilyas Ghuman | Mumbai

اللہ تعالیٰ تاکید سے سچ بولنے کاحکم دیتے ہیں اور جھوٹ بولنے سے سختی کے ساتھ منع فرماتے ہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

اللہ تعالیٰ تاکید سے سچ بولنے کاحکم دیتے ہیں اور جھوٹ بولنے سے سختی کے ساتھ منع فرماتے ہیں۔ لیکن اگر کسی نے دین میں افراط و تفریط کرکے اسے پھیلایا تو وہ صرف گناہ نہیں، بلکہ گناہ عظیم ہوجاتا ہے۔ دین اسلام کی بنیاد محکم، مضبوط، معتبر، معتمد اور مستند ہے، اس میں کمزور، مشکوک، تُک بندی، اندازے اور تخمینے نہیں چلتے۔
اسلام پر ایمان اور اس کے احکامات پر عمل کا مدار قرآن کریم کے بعد احادیث مبارکہ ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ، معانی، مفہوم، تعیین ، مراد اور حقیقت احادیث مبارکہ سے سمجھی جاسکتی ہیں۔ اس لئے یہاں سخت احتیاط کا حکم دیا گیا ہے۔ علمائے امت نے احادیث کے الفاظ، معانی، مفہوم، متون، اسناد، رواۃ (نقل کرنے والے افراد) صحت و ثقاہت، اس کی ضرورت، حجیت، حفاظت، جمع و تدوین کے ساتھ اس کے اصول و قواعد، اقسام و اسلوب اور روایت کرنے کے آداب و شرائط کو مکمل تفصیل، خوب تحقیق اور عمدہ ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہے، اس کی حفاظت کے لئے اسماء الرجال اور جرح و تعدیل جیسے علوم کو ضروری قرار دیا تاکہ اسلام کی یہ بنیاد مضبوط ہی رہے۔
چونکہ یہ اسلام کی بنیاد ہے اس لئے اس کی اشاعت، حفاظت، تعلیم و تبلیغ اور تفہیم میں علمائے کرام نے بہت محنت سے کام کیا ہے۔ محدثین اور کتب احادیث کے مختلف طبقات مقرر کئے گئے ہیں۔ یہ معاملہ اس قدر نازک اور حسّاس ہے کہ اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات یا کام کی نسبت جھوٹ کے طور پر کردے، یعنی بات واقعتا ًدرست بھی ہو لیکن نبی کریمؐ نے خود ارشاد نہ فرمائی ہو یا کام بلکہ درست اور جائز ہو لیکن رسول اللہ ﷺنے خود نہ فرمایا ہو اور کوئی شخص اپنی طرف سے اس بات یا کام کی نسبت رسول اللہ ﷺکی طرف کر دے تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے (میری طرف کسی کام یا کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے) تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے۔‘‘(صحیح بخاری، باب اثم من کذب علی النبی ؐ)
 ہاں سچی بات ضرور کہی جائے لیکن جو حدیث نہ ہو اسے زبردستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بنا کر پیش نہ کیا جائے، یہ طرز عمل جہنم میں جانے کا سبب ہے۔ آج علمی زوال اور اخلاقی انحطاط اور عملی فقدان کا زمانہ ہے۔ عقائد میں کمزوریاں اور توہمات دَر آئے ہیں۔ اعمال میں بدعات و رواج گھس آئے ہیں۔ اخلاق، رسمِ محض اور اخلاص سے دل خالی ہوچکے ہیں۔ بے دینی کا مسافر لادینی کو اپنی منزل کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ ایسے میں دینی علم و عمل سے عاری اور اخلاق و اخلاص سے خالی جاہل طبقے نے اسلام کو مشق ستم بنا رکھا ہے۔موسم اور مہینوں کے مطابق دین کے نام پر میسجز بناتے ہیں، نہ کسی معتبر عالم دین سے اس کی رہنمائی لیتے ہیں اور نہ ہی معتبر کتب کی طرف مراجعت کرتے ہیں۔ مثال کے طور یہ میسج چلایا جاتا رہا ہے :’’ ربیع الاول شروع ہونے والا ہے۔ حضرت محمد ؐنے فرمایا: جس نے سب سے پہلے کسی کو ربیع الاول کی مبارک دی اس پر جنت واجب ہوگئی۔ ‘‘
جس مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کی پیدائش ہوئی یقیناً وہ مہینہ محترم ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس مہینے کی فضیلت بیان کرنے کے لئے جھوٹی اور بے بنیاد بات کو حدیث بنا کر پیش کیا جائے۔ پھر ستم یہ ہے کہ سادہ لوح مسلمان اسے دین کا حکم سمجھ کر آگے پھیلاتے ہیں۔ میسج کے آخر یا شروع میں یہ بھی اضافہ کیا جاتا ہے کہ یہ میسج اور پوسٹ اتنے لوگوں کو بھیجیں، مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اسے لائک اور شیئرضرور کریں۔
یاد رکھیں! شریعت اسلامیہ کی یہ تعلیمات ہرگز نہیں۔ دین اسلام کو پھیلانے کا حکم محض دس بارہ افراد تک محدود نہیں بلکہ جہاں تک انسان کی دسترس ہے وہاں تک دین کی صحیح، ثابت شدہ اور اہل اسلام میں قابل عمل بات پر خود بھی عمل کرے، کسی معتبر کتب سے دین کا مسئلہ خود پڑھے دوسرے کو بھی پڑھائے، خود کسی معتبر عالم دین سے مسئلہ سیکھے دوسرے کو بھی سکھائے، اس میں قباحت نہیں لیکن نہ تو دین کی معتبر کتب کا کچھ پتا ہو اور نہ ہی اسلام کی مقتدر شخصیات سے رہنمائی لے بلکہ سوشل میڈیا پر چلتے پھرتے جھوٹے اور غیر ثابت شدہ میسجز کو دین سمجھ کر آگے پھیلاتا رہنا انجام کے اعتبار سے خسارے والی بات ہے۔
 جو باتیں احادیث کی کتب میں صحیح طور پر منقول ہیں ان کو ضرور نقل کیا جائے اور ان سے سبق حاصل کیا جائے، لیکن اعتدال اور حق سچ کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK